دنیا وی زندگی کی حقیقت

اللہ رب العا لمین نے ہم انسا نوں کو اپنے اس مقد س اور وسیع و عریض سر ز مین پر ایک خاص مقصد کے تحت بھیجااور پیدا کیا ہے تا کہ ہم اس کے بتائے ہوئے احکا مات کی پاس داری کریںاور اس کے منہیات و منکرات سے اجتناب کریں ۔انسا ن کی یہ چند روزہ زند گی پا نی کے بلبلے کی طرح ہے جو کچھ لمحہ کیلئے پا نی میں دکھا ئی دیکر ہمیشہ ہمیش کیلئے نا پیداور غائب ہو جا تی ہے، اسی طرح انسا ن اس دار فانی کے اندر ایک مقررہ مدت تک کے لئے پیدا کیا جاتا ہے، پھر اپنے مخصوص ایام کو دنیاکی رنگینیوں اور دلفر یبیوں میں گزار کر اخروی زند گی کی طرف ہمیشہ ہمیش کے لئے رخت سفرباندھ لیتا ہے ۔

انسان کی دنیوی زند گی کی حقیقت کیا ہے؟ کیوں انسان دنیاکے پیچھے بھاگتا اور اس کے مال و متاع کو حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ تگ ودو اور کو ششیں کر تا رہتا ہے حالانکہ یہ دنیا اور اسکی چند روزہ زندگی ہمارے کوئی کام کے نہیں ؟ نہ ہمیں اس دنیا میں ہمیشہ ہمیش رہنا اور اسکی لذتو ں سے محظو ظ ہو نا ہے بلکہ ہماری آخری منزل ،ٹھکانہ اور ہمیشہ ہمیش کی زندگی تو آخرت کی ہے ۔ جسکے با رے میں اللہ رب العا لمین نے اپنے مقدس اور آخری کتاب میں متعدد مقامات پر ارشاد فر ما یا ہے کہ’’ وما ھذہ الحیاۃ الد نیا الا لھوو لعب،وان الدار آخرۃلھی الحیوان لو کانوا یعلمون ‘‘ (عنکبوت : ۶۴)۔ ترجمہ:۔ یعنی دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بھلائو اور اصل زندگی کا گھر تو دارآخر ت ہے ۔اور اسی طرح دوسری جگہ اللہ رب العالمین نے دنیا کی حقیقت کو وا ضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’ وما الحیواۃ الدنیا الا لعب و لھو ، وللدارالاخرۃ خیر للذین یتقو ن ، افلا تعقلون ‘‘ ( الانعام : ۳۲)۔ یعنی دنیا کہ زندگی تو ایک کھیل اور تماشہ ہے اور حقیقت میں آخرت ہی کا مقام ان لو گو ںکے لیے بہتر ہے ، جو پرہیزگار ہیں ،کیا تم لوگ عقل نہیں رکھتے ۔ اس آیت میں رب العالمین نے صاف طو ر سے و اضح کر دیا کہ دنیا اور دنیاوی زندگی کی کوئی حقیقت ہی نہیں بلکہ اصل زندگی تو آخرت کی ہے جہاں ہم تمام بنی نوع انسان کو ہمیشہ ہمیش رہنا ہے اور وہاں کی نعمتوں اور بھلایئوں سے لطف اندوز اور محظوظ ہو نا ہے ، اور اس دارفانی کے اندر جتنے بھی لوگ آئے ،چاہے وہ نبی ہوں یا ولی ،پیر ہو ں یا مرشد غرضیکہ تمام لوگ اس دنیا سے رخت سفر باندھ کرکے اخروی زندگی کی طرف کوچ کرگئے ۔اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’کل نفس ذائقۃ الموت ‘‘(آل عمران : ۱۸۵) ‘‘یعنی ہر متنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ،موت سے کسی کو چھٹکارا نہیں اور موت کے تلخ جام کو کس وناکس کو پینا اور نوش فرمانا ہے چاہے وہ نبی ہوں یا رسو ل ، ولی ہویا قطب ، شاہ ہو یا گدا، امیر ہو غریب ، کالا ہو یا گو ر ا، عربی ہو یا عجمی ، آقا ہویاغلام ، غرضیکہ دنیا کا کوئی بھی ا نسان ہویا جن ،ہر ایک کوموت کا مزہ چکھنا ہے۔ کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
الموت قدح کل نفس شاربہ و القبر باب کل نفس داخلہ
اور اس کے علاوہ دوسری جگہ اللہ رب العالمین نے مو ت کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ ’’وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد افائن مت فھم الخالدون ، کل نفس ذائقۃ الموت ‘‘( الانبیا ء : ۳۴۔۳۵) یعنی اے محمد ﷺ نہ تو آپ سے پہلے کسی انسان کو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھا گیا اور نہ ہی آپ ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں ، بلکہ ہر نفس کو مو ت کا مزہ چکھنا ہے ۔ اور یہ شعر سچ ہے کہ
لو کا ن فی ا لد نیا بقاء لمامات خیر المرسلین محمد
یعنی اگر اس دارفانی کے اندر کسی انسان کیلے بقاء ہو تی تو افضل المرسلین و خاتم النبین دوجہاں کے سردار جناب محمد عربی ﷺ اس دنیا سے رخصت نہ ہو تے،بلکہ اپنے مشن اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میںسر گرم عمل رہتے ، لیکن اللہ تبارک و تعالی ٰ کے فرمان کے آگے سب لو گوں نے اپنے جبین نیاز کو خم کردیا اور اپنے پرور دگار کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خو ش وخرم اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اسلئے کہ نبی محترمﷺ اس بات سے اچھی طرح واقف اور آشنا تھی کہ اس دنیا میں کسی کو ابدی اور دائمی زندگی حاصل ہی نہیں۔اور ہم سے پہلے بہت سے نبی اور رسو ل آے لیکن سبھوں کو مو ت کا تلخ جام نو ش فرمانا پڑا ، اسی لئے نبی کریم ﷺ نے اپنے سچے و جانثار ساتھیوں (صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین )اور رہتی دنیاتک کے تمام انسانوں اور مسلمانوں کو اس دنیا میں ایک اجنبی اور مسافرکی طرح زندگی گذارنے کی طرف راغب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’ کن فی الدنیا کانک غریب اؤ عابرسبیل ‘ ‘ اور اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کہا کرتے تھے کہ ’’ اذا امسیت فلا تنتظر الصباح ، واذااصبحت فلا تنظر المساء ، و خذ من صحتک لمرضک ، ومن حیاتک لمو تک ‘‘ ( بخاری ، کتاب الرقاق ، باب قول النبی ﷺ کن فی الدنیا کانک غریب ۔حدیث نمبر : ۶۴۱۶)۔ یعنی جب شام ہو جائے تو شا م کا انتظار مت کرو اورجب صبح ہو جائے توشام کا انتظار مت کرو ، اور تندرستی کی حالت میں اتنا عمل کر لو کہ جو بیماری کی حالت میں بھی کافی ہو جائے اور اپنی زندگی میں اس قدر نیکیاں کما لو جو موت کے بعد آخرت میں تمہارے لئے نفع بخش ہو ں ۔
مذکورہ قرآنی آیات و احادیث نبویہ کے علاوہ بہت ساری آیتیں و حدیثیں ہیں جو دنیا و آخرت کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں اور ہمیں یہ تعلیم دیتی ہیں کہ ہم بھی نبی کریمﷺ اور آپ کے سچے و جانثار ساتھیو ں کے نقش قدم پر عمل کرتے ہو ئے اپنے اخروی زندگی کے لئے زیادہ سے زیادہ توشہ اور زادراہ اکٹھاکریں ، اس لئے کہ یہ دنیا اور اسکی دلفریب ورنگین چیزیں مچھر کے پر سے بھی زیادہ حقیر و بے فائدہ ہیں۔دنیا میں کتنے بڑے بڑے بادشاہ اور پیر وبزرگ آئے لیکن سب کو آخر کار (طوعاو کرھا) اس دنیا سے کوچ کر نا ہی پڑا، اور جب کہ اللہ رب العالمین کا اٹل فیصلہ و قانو ن ہے کہ ہر متنفس کو ایک نہ ایک دن مو ت کا مزہ چکھنا ہے ،کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ تو کل ہماری باری ہے

اس لئے ہم تمام مسلمانوں کودنیا کی دلفریبیوں اور رنگینیوں سے دور رہ کر اخروی زندگی کی فکر کرنی چاہئے ، جہاں ہمیں ہمیشہ ہمیش رہنا اور اسکی نعمتوں و لذتو ں سے لطف اندوز ہو نا ہے جسکا اللہ تعالیٰ نے ہم سے وعدہ کیا ہے جیساکہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید کے اندر ارشاد فرمایا کہ ’’ بل تو ثرون الحیواۃ الدنیا ، والاخرۃ خیر و ابقی ٰ‘‘( الاعلی : ۱۶۔۱۷)ترجمہ:۔ تم لوگ تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کی زندگی بہت بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ، اور اسی طرح سورہ یوسف کے اندر ارشاد فرما یا کہ ’’ والدار الاخرۃ خیر للذین اتقواافلاتعقلون ‘‘ ( یوسف :۱۰۹)یعنی آخرت کا گھرپرہیزگاروںکے لئے بہت ہی بہترہے، کیا پھر بھی تم نہیں سمجھتے ہو ۔اس لئے ہمیں اس دن سے ڈر نا اور خوف کھانا چاہئے ،جس دن ہمیں دوبارہ پیداکیا جائے گا اور ہمارے دنیاوی اعمال و کرتوتوں کا حساب و کتاب لیا جائے گا اور ہمارانامہ اعمال ہمارے داہنے اور بایں ہاتھ میں دیاجائے گا اور اس دن کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کی جائے گی ارشاد ربانی ہے کہ ’’ واتقوا یو ما ترجعو ن فیہ الی اللہ ثم توفی کل نفس ما کسبت وھم لا یظلمون ‘‘(بقرہ : ۲۸۱)یعنی اس دن سے ڈرو جس دن تم سب اللہ تعا لی کی طرف لوٹائے جاؤگے اور ہر شخص کو اپنے کیئے ہوئے اعمال کا پوراپورابدلہ دیاجائیگا، اور ان کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کی جائے گی۔ اور دوسری جگہ ارشاد فرما یا کہ ’’و اتقوا یو ما لا تجزی نفس عن نفس شیئاو لا یقبل منھا شفاعۃ ولا یو خذ منھاعدل ولا ھم ینصرون ‘‘( بقرہ : ۴۸) ترجمہ : ۔اور اس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا اور نہ ہی اسکی بابت کوئی سفارش قبو ل ہو گی اور نہ کو ئی بدلہ اسکے عوض لیا جائے گا اور نہ وہ مدد کئے جایئںگے ۔ اس لئے ہم تمام لوگوں ( مسلمانوں ) کو ان قرآنی آیا ت و احادیث مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے اوراسی کی روشنی میںاپنی زندگی کوایک مسافراور اجنبی کی طرح گذارنااور اپنے اخروی زندگی کی فکر کرنی چاہئے اورخاص طور سے روزآنہ سوتے وقت اپنے نفس اور اعمال کا محاسبہ کرنا چاہئے ، اور اپنے پرور دگار عالم و مالک حقیقی سے یہ دعا کر نا چاہئے کہ ’’ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃو قنا عذاب النار ‘‘(بقرہ : ۲۰۱ )یعنی اے اللہ ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائیوں سے نوازنا اور آخرت کے عذاب سے محفو ظ رکھنا ۔

اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ مولائے کریم ہم تمام مسلمانوںکو اس دارفانی کے اندر زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کر نے اور خاص طو ر سے اپنے نفس کا محاسبہ کر نے کی تو فیق عطا فرما اور جنت الفردوس میں ہمارا ٹھکانہ نصیب فرما ۔ آمین ۔ تقبل یا رب العالمین ۔

Abdul Bari Shafique Salafi
About the Author: Abdul Bari Shafique Salafi Read More Articles by Abdul Bari Shafique Salafi: 114 Articles with 134879 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.