باپ کے بغیر زندگی بیکار

باپ کی موجودگی سور ج کی مانند ہے جو گرم تو ضرور ہے مگر نہ ہو تو ہر طرف اندھیرا چھا جاتا ہے آج میری دنیا بھی اندھیر ہو چکی ہے سو موار 8 فروری کو میرے والد محترم عبدالخالق ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہو گئے ہیں اور اپنے اصلی مقام کی طرف چلے گئے ہیں میرا معمول تھا کہ صبح بیدار ہونے کے بعد سب سے پہلے اپنے والدین کے پاس جاتا اور ان سے دعائیں لینے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے اپنے والد کے سر ہانے بیٹھ جاتا تھا والد محترم مجھ سے میرے دن بھر کے شیڈول کے بارے میں دریافت کرتے کہ آج کہاں جاناہے اور کیا کرنا ہے میرے بتانے کے بعد وہ صرف اتنا کہتے کہ تمام کام دھیان سے کرنا اور شام تک گھر واپس آجانا حسب معمول صبح اس دن بھی میں والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو ا ان سے بہت دیر تک باتیں کر تا رہا اس سے پہلے انہوں نے مجھے کسی بھی کام سے نہ روکا تھا لیکن اس روز ان کا چہرہ دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ میرے والد محترم مجھ سے کچھ کہنا چا ہتے ہیں میرے اصرار پر انہوں نے کہا کہ تم ڈیوٹی پر جاؤ اور بہت جلدی واپس آجاؤ کیوں کہ میں نے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے میں ان کے حکم کے مطابق جلدی واپس آگیا والد صاحب جو تیا ر بیٹھے تھے میں ساتھ لے کر ڈاکٹر کے پاس چلا گیا راستے میں میرے ساتھ بہت سی باتیں کیں مجھے سمجھا یا کچھ نصیحتیں بھی کیں ڈاکٹر کے پاس جب پہنچے تو فوراََ علاج شروع کر دیا گیا 3 بوتلیں گلیکوز بھی لگائی گئیں تمام عمل کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ اب آپ کے والد بالکل صحت یاب ہو چکے ہیں اور انہیں گھر لے جاؤ میں نے والد سے پوچھ اکہ ابو اگر آپ کوئی پرابلم محسوس کر رہے ہیں تو میں آپ کو کسی بڑے ہسپتال لے جاتا ہوں لیکن انہوں نے کہا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں اور مجھے گھر لے چلو ان کے اور ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق میں گھر کی طرف آگیا گاڑی پر سے اتارنے کے بعد میں نے ان کو اٹھایا اور سیدھا جا کر بستر پر لٹا دیا جب میں تھوڑا پیچھے ہٹا تو میرے شفیق والد نے مجھے اشارہ کیا اپنا منہ میرے قریب کرو جب میں نے ان کے منہ کے ساتھ اپنا منہ لگایا تو مجھے کچھ شک سا محسوس ہوا میں نے فوراََ اپنی بیوی سے کہا کہ آب زم زم لے آؤ جس کی پانچ چمچ میں نے ان کے منہ میں ڈالیں اور ٹھیک طریقے سے پی گئے اور ساتھ ہی ہم نے کلمہ شریف کا ورد شروع کردیا میرے والد محترم نے دوبارہ مجھے اپنا منہ قریب کرنے کے لیے اشارہ کیا میں ان کے چہرے پر اپنا منہ رکھ دیا اور اپنے دونوں ہاتھ ان کے سر کے نیچے رکھ دیے تقریباََ 20 سیکنڈ کے بعد جب میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو والد صاحب کے چہرے کی طرف دیکھا تو اس وقت میری دنیا اندھیر ہو چکی تھی اور میرے والد محترم اپنے خالق حقیقی کے پاس جا چکے تھے ان کی موت بہت خوبصورت تھی عاجزی وا نکساری کا خاصا تھی والد کے بغیر میں بالکل ادھورہ ہو کر رہ گیا ہوں میرے گھر کے تمام معاملات میرے محترم والد نے خود سنبھال رکھے تھے اور مجھے کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں تھی آج میں جب اپنے مستقبل کی طرف نظر دوڑاتاہوں تو ہر طرف تاریکیاں ہی دکھائی دیتی ہیں والد اور والدہ دونوں ہی اﷲ کی طرف سے تحفہ ہوتے ہیں لیکن والد کی اپنی ہی بہاریں ہوتی ہیں والد پورے گھر کا نگران ہو تا ہے اور گھر کے تمام معاملات پر نظر رکھتا ہے اور گھر کے تمام افراد کو یکجا رکھنے میں والد کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہو تا ہے والدین کی اکثریت اپنے بچوں کے لیے وہ سب کچھ کرتی ہے جو ان کے بس میں ہوتا ہے بچے ہمیشہ ماں باپ کے مقروض رہتے ہیں جنہوں نے ہزار مشکلیں جھیل کر ہماری پرورش کی ہمیں پروان چڑھایا ہمیں زندگی گزارنے کے طریقے سکھائے اس قرض کی ادائیگی کے لیے بچوں کو والدین کی تا حیات عزت کرنی چاہیے ان کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور بڑھاپے میں ان کا سہارا بننا چاہیے اور جن کے والدین اس دنیا کو چھوڑ کر جا چکے ہیں ان کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ان کی قبروں پر حاضری دیں ان کے لیے رب کریم سے مغفرت طلب کریں ان کے لیے بخشش کی دعا کریں اﷲ پاک والدین کے لیے مانگی گئی دعائیں ضرور قبول فرماتے ہیں آج کوئی مجھ سے پوچھے کہ باپ کی قدر قیمت کیا ہے اگر کوئی مجھ سے میری ساری جائیداد لے لے اور صرف ایک گھنٹے کے لیے میرے مرحوم باپ کو میرے گھر لے آئے تو میں اس کے بدلے میں اپنا سب کچھ دینے کو تیار ہوں باپ خواہ جس عمر میں بھی ہو لیکن ہر بچے پر نظر رکھنا اس کے دکھ درد کو سمجھنا جیسے فرائض ادا کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا رہتا ہے اور ہر وقت اپنی شفقت کا سایہ اپنی اولاد کے سر پر کیے رکھتا ہے میری عمر 40 سال ہو چکی ہے مگر اس وقت بھی جب میں گھر سے نکلتا تو میرے والد مجھے ٹوپی اور چادر اوڑھنے کا حکم دیتے اور جب میں شام کو واپس گھر آتا تو مجھے اپنے پاس بلاتے اور ڈانٹتے کہ تم نے سردی سے بچنے کے لیے کوئی خاص انتظامات نہیں کر رکھے ہیں اور اپنے پاس سے مجھے پیسے دیتے کو بوٹ چادر اور اس طرح کی دوسری چیزیں خرید لو اب میں ایسی آوازیں سننے کو ترسوں گا لیکن یہ آواز کہیں سنائی نہیں دے گی 37 سال تک سر کاری ملازمت کی لیکن رزق حرام کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتے اور کہتے تھے کہ انسا ن کو اپنا ماضی یاد رکھنا چاہیے والد محترم کی وفات کو آج چار ماہ گزر چکے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جانے والے کے بعد ہی اس کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی آج بھی ان کے کمرے میں بیٹھ کر یہ تحریر لکھتے وقت مجھ ایسا محسو ہو رہا ہے کہ وہ گھر کے کسی کونے سے اٹھیں گے اور کہیں گے کہ بیٹا کیا کر ہے ہو میری تمام قارئین سے گزار ش ہے کہ زوال نعمت سے پہلے شکر نعمت ضرور ادا کریں آج میں جو کچھ بھی ہوں اپنے والدین کی دعا ؤں کی وجہ سے ہوں اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ میرے والد کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فر مائے اور ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور مجھے ان کی قبر پر روزانہ حاضری کی توفیق عطا فر مائے (آمین)آخر میں میں ان تمام دوستوں و احباب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے گھر آکر میرے ساتھ اظہار تعزیت کیا ہے -

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 145789 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.