عید کے رنگ اپنوں کے سنگ

معصومیت بھری سی باتیں ہیں کہ جو ہماری آپ کی زندگی میں مسرت کے رنگ بھر جاتی ہیں۔کبھی کبھی تو محض کسی کے ہاتھ میں پہنی چوڑیوں کی کھنک یا عید کے رو پہلے آنچل کی دھنک ہی دل کو یوں بے نام سی مسرت سے ہمکنار کر دیتی ہیں کہ ہم خودان خوشیوں میں مگن ہو جاتے ہیں اس تہوار کا ہر رنگ انوکھا اور ہر پل سہانا لگتاہے۔ پہلے تو رمضان کی پر نور رونقوں،بے شمار رحمتوں اور نعمتوں کے سایے تلے شوال کا سورج آسمان پر جلوہ گر ہوتا ہے تو صبح،محض ایک نئے دن کا آغاز ہی نہیں بلکہ ہم سب کے لئے اتحاد و یگانگت،یکجہتی اور محبت کی نئی صبح کا پیغام بھی لاتی ہے۔ عید کا دن خوشیوں کا دن ہے تجدید وفا کا دن ہے،باہمی گلے شکوے مٹا کر دوستی کے رشتے استوار کرنے کا دن ہے۔اس دن مسلمان تمام اختلافات پسِ پشت ڈال کر صرف خوشی اور محبت کے جذبات کے ساتھ ایک دوسرے کو عید مبارک کہتے ہیں اور گلے مل کر تمام تر گلے شکوے فراموش کر دیتے ہیں تو جیسے اس تہوار کی فضیلت سے ہر چہرہ کھل اٹھتا ہے اور ہر آنکھ میں نئے رنگ جھلملا نے لگتے ہیں _رمضان کی پر نور رحمتوں، برکتوں اور عید کی گہما گہمی میں چاند رات کی تو بات ہی الگ ہے یہ رات محبت بھرے احساسات سے مزین ہوتی ہے۔جس طرح چاند رات کے بغیر عید ادھوری ہے بلکل اسی طرح لڑکیوں کی چوڑیوں اور مہندی کے بنا چاند رات بھی بلکل پھیکی پھیکی محسوس ہوتی ہے۔اس موقع پر صرف نو عمر لڑکیاں ہی نہیں بلکہ خواتین بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ مہندی لگوانے اور چوڑیاں خریدنے کا اہتمام کرتی نظر آتی ہیں_کسی بھی گھر کی خوشیوں میں سچا رنگ اس وقت ہی بھرتا ہے جب گھر کے بچے اچھے اچھے لباس پہن کر تتلیوں کی ما نند ادھر اُدھر پھرتے ہیں اور بڑوں سے عیدی کا تقاضا کرتے ہیں۔عیدی لینا بچوں کا حق ہے اس لئے عیدی دینے میں انکے ساتھ تامل نا کریں بلکہ ان کی امید سے بڑھ کر انہیں عیدی سے نوازیں۔عیدی کے حقدار صرف گھر کے بچے ہی نہیں بلکہ عزیزوں اور پڑوسیوں کے بچے بھی ہیں لہٰذا ان سب کو دل کھول کر عیدی دی جائے۔ویسے بھی سال میں ایک بار آنے والا یہ پر مسرت دن سب ہی کے لئے خاص ہوتا ہے،اس لئے ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنی بھی خوشیاں منائی جا سکتی ہیں،منا لی جائیں _یہ سچ ہے آج زمانہ بہت بدل چکا ہے،لوگ ایک دوسرے سے دور ہو چکے ہیں،سابقہ روایات جو عید کی پہچان ہوا کرتی تھیں،اب ختم ہو چکی ہیں مگر آج بھی لوگ اپنے پیاروں کے گھر مٹھا ئی اور سویاں اور خشک میوہ جات کے ٹوکرے بطور عیدی روانہ کرتے ہیں۔عید کارڈ کی روایت میں کوئی شک نہیں کہ وہ بلکل ختم ہو چکی ہے کیوں کہ اس کی جگہ موبائل اور انٹرنیٹ نے لے لی ہے۔لیکن عید کارڈ کی رسم اب بھی موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے تمام عزیزو اقارب اور دوستوں کو عید کی خوشیوں کو دو چند کر دیتی ہے ان سب چیزوں میں جس بات پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے وہ ملبوسات ہیں جس میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے جبکہ خواتین کا،جدت و روایات کے حسین امتراج سے سجے ملبوسات پہننا اور چوڑیوں،مہندی سے اپنے روپ کو سنوارنا عیدلفطر کی رونقوں میں چار چاند لگا دیتا ہے عالم اسلام کے اس خوبصورت تہوار کو دنیا کے ہر کونے میں بے حد جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔لہٰذا عید کی خوشیوں کی تاثیر کو دوبالا کرنے کی خاطر ایک دوسرے کے لئے تحفے خریدیں،گھر کی رونق بڑھانے کے لئے گھر کا سامان نئی ترتیب سے لگائیں،یہ نیا پن بھی گویا عید کا سما باندھ دیتاہے۔عید کے اس موقع پر کچھ باتوں کا خیال رکھیں اگر کوئی اپنا روٹھا ہے تو اسے منا لیں،عید کے دن دروازے پے آنے والے مستحقین کا بھی بہت خیال رکھیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو گھر بیٹھ کر اپنی عید کی خوشیاں نہیں منا سکتے بلکہ ہماری خوشیوں میں سے اپنا حصہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔۔عید کے چاند غریبوں کو پریشان نہ کر ۔۔تجھ کو معلوم نہیں زیست گراں ہے کتنی۔۔ لہٰذا ان غریبوں کی ضرور مدد کی جائے۔۔گھر میں عید کی کوئی سپیشل ڈش بنی ہو تو اسے اپنے ہمساے گھر بھیجنا نہ بھولیں۔۔یہی وہ چھوٹی چھوٹی سی باتیں ہیں جن کے سبب عید کے بہانے بے کیف سی زندگی میں ہم رنگ بھرنے کا سامان کر سکتے ہیں۔
Aroosa Jeelani
About the Author: Aroosa Jeelani Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.