بجٹ بریانی

رصغیر پاک و ہند کے لوگ پلاؤ کے بعد بیف، چکن، جھینگا، آلو بریانی (جسے ہماری کینٹین کا بیرا روانی میں اُلّو بریانی کہتا ہے) اور چنا بریانی کا مزا چکھتے رہتے ہیں لیکن بجٹ کی آمد والے دن ہمارے دفتر کی طرف سے اپنے عملے کے لیے بجٹ بریانی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ بریانی ہوتی تو لحم مرغ کی ہے لیکن اس میں شامل دیگر اجزاء ہمیں زیر نظر بجٹ کے تمام جزئیات و کلیات سے روشناس کراتے ہیں

بجٹ ہر سال پورے طمطراق کے ساتھ آتا ہے لیکن ’’یوم بجٹ‘‘ پر پیچ و تاب سے بچانے کے لیے ہمارے ادارے کی طرف سے اپنے ملازمین کے لیے بجٹ بریانی منگوائی جاتی ہے جو ہمارے لیے ’’بچت بریانی‘‘ ہوتی ہےکیونکہ اس روز ہمیں اپنی جیب سے ڈنر کے پیسے خرچ کرنے کی بچت ہوجاتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے لوگ پلاؤ کے بعد بیف، چکن، جھینگا، آلو بریانی (جسے ہماری کینٹین کا بیرا روانی میں اُلّو بریانی کہتا ہے) اور چنا بریانی کا مزا چکھتے رہتے ہیں لیکن بجٹ کی آمد والے دن ہمارے دفتر کی طرف سے اپنے عملے کے لیے بجٹ بریانی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ بریانی ہوتی تو لحم مرغ کی ہے لیکن اس میں شامل دیگر اجزاء ہمیں زیر نظر بجٹ کے تمام جزئیات و کلیات سے روشناس کراتے ہیں۔ ہم بھی بجٹ کی آمد سے قبل گومگو کی کیفیات میں مبتلا رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں اس کا شدت سے انتظار رہتا ہے حالانکہ نہ تو ہم تاجر ہیں نہ ذخیرہ اندوز جو بجٹ آنے سے قبل اشیائے خوردونوش واشیائے صرف کی ذخیرہ اندوزی کرکے اپنے گودام بھر لیتے ہیں اور بجٹ کے بعد ان اشیاء کو مہنگے داموں فروخت کرکے اپنا بینک بیلنس دگنا اور تگنا کرکے غریب صارفین کو تگنی کا ناچ نچاتے ہیں لیکن غریب کا ناچ دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتاکیونکہ حکمراں چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کی بانسری کی آواز میں عوام کے المیہ نغمے دب جاتے ہیں۔ ہمارا شمار بھی 17 کروڑ کی آبادی میں سے ان 16 کروڑ80لاکھ عوام میں ہوتا ہے جو بجٹ سے اسی طرح پناہ مانگتے ہیں جیسے روز قیامت اور عذاب الٰہی سے مانگی جاتی ہے۔ ہر نیا بجٹ ہمارے بلڈ پریشر میں اضافہ کرتا ہے اور ہم ’’یوم حشر‘‘ کو ’’یوم بجٹ‘‘ پر ترجیح دیتے ہیںکیونکہ بجٹ کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہم جیسے عوام کی زندگی حشرات الارض سے بھی بدتر بنادیتا ہے جبکہ ملکی آبادی کے باقی 20لاکھ افراد جن کا شمار ارسٹوکریٹس (Aristocrates)یعنی اشرافیہ میں ہوتا ہے وہ اس بجٹ کی ’’مالی مراعات‘‘ سے مستفید ہوتے ہیں۔ گزرے وقتوں میں بجٹ کا عام آدمی کو بھی انتظار رہتا تھا کیونکہ اگر اس میں کچھ اشیاء مہنگی ہوتی تھیں تو کچھ کو سستا کرنے کی نوید بھی ہوتی تھی۔ عوام کو زبانی کلامی نہیں بلکہ حقیقتاً زرتلافی اور(ریلیف) آسانیاں فراہم کی جاتی تھیں لیکن آج ملکی بجٹ کی ستم ظریفیوںکا یہ عالم ہے کہ اس میں غریب مزدور اور قلیل آمدنی والے طبقے کو بھی مختلف ٹیکسز اور ڈیوٹیز کے شکنجے میں جکڑدیا گیا ہے۔

ملکی بجٹ کی ’’شان و شوکت‘‘ میں اس دور سے اضافہ ہوا ہے جب سے اسے عالمی مالیاتی اداروں کے تعینات کردہ دو وزرائے خزانہ شوکت عزیز (جو بعد میں وزیر اعظم بنے) اورشوکت ترین نے ترتیب دینا شروع کیا اور ہندسوں کے ہیر پھیر سے پاکستان جیسے پسماندہ ملک کو دنیا کے متمول ممالک کی صف میں کھڑا کردیا اور خستہ حال عوام سے تمام زرتلافی اورآسانیاں واپس لے کر انہیں بالواسطہ اور بلا واسطہ محصولات اور ڈیوٹیز کی ادائیگی کا پابند کرکے اپنے تئیں پُر وقار قوم بنادیا گیا ۔ مذکورہ وزرائے خزانہ کے بجٹ اقدامات سے غیر ممالک نے تو ان کو داد و تحسین پیش کی لیکن ان کے پیش کردہ بجٹ نے عوام کو الامان الحفیظ کی صدائیں لگانے پر مجبورکردیا ۔ موجودہ بجٹ پیش کرنے والے وزیرخزانہ واقعی نام کے بھی حفیظ ہیں اس لیے الامان الحفیظ کی صداؤں میں مزید شدت آگئی ہے۔ ’’بجٹ گزیدہ‘‘ عوام میں ہمارا شمار بھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں ہر سال بجٹ کا اسی شدت سے انتظار رہتا ہے جیسے بھوکے کو روٹی اور پیاسے کو پانی کا ۔ درحقیقت ہر سالانہ بجٹ ہمارے اور ہمارے ساتھ کام کرنے والوں کے لیے پیٹ بھرنے اور حلق ترکرنے کا سامان لے کر آتا ہے۔ ہم ایک اخباری ادارے میں ملازم ہیں۔ جہاں ملکی بجٹ عوام کے لیے حرماں نصیبی لے کر آتا ہے وہیں اخباری ملازمین کے لیے ہنگامی صورتحال بھی لاتا ہے اور اس کی آمد کے روز تمام ادارتی اور غیر ادارتی عملے کو بجٹ تقریر اور متن سے نبرد آزما ہونے کے لیے الرٹ رہنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ دورانِ ڈیوٹی بجٹ کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنے عملے کیلئے ادارے کی طرف سے بریانی اور مشروبات کا انتظام کیاجاتا ہے۔

بریانی کے تو ہم سدا سے شوقین ہیں بلکہ اکثر دعوتوں میں تو ہم صرف بریانی کھانے ہی جاتے ہیں اور اگر تنہا جانا پڑے تو اپنے ساتھ کچھ فضول قسم کے سامان سے بھرا شاپنگ بیگ مع ایک خالی بیگ لے کر ضرور جاتے ہیں اور لوگوں کی نظر بچا کر شاپنگ بیگ میز کے نیچے کرکے بریانی سے بھر لیتے ہیں اور اسے فضول سامان والے بیگ میں رکھ کر اطمینان سے گھر لے جاتے ہیں تاکہ ہمارے اہل خانہ بھی یہ نعمت خداوندی نوش کرسکیں۔ دوپہر کا کھانا ہم لنچ بریک میں کھاتے ہیں اور اپنی مالی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ سَستی خوراک کو ترجیح دیتے ہیں۔ چند سال قبل تک ہمارا گزارا بن کباب پر تھا لیکن بن کباب ترقی کے مدارج طے کرکے برگر بن کر قدرے مہنگا ہوگیا جس کے بعد یہ سَستی خوراک بھی ہماری قوت خرید سے باہر ہوگئی۔ حالانکہ بریانی کا شمار ’’غذائی اسٹیٹس سمبل‘‘ میں ہوتا ہے، ہمارے ملک میں کسی بھی شخص کی امارت کا پیمانہ غذائی کسوٹی پر ناپا جاتا ہے اور بریانی غذائی اسٹیٹس کے مطلوبہ معیار پر پوری اترتی ہے لیکن ہم اکثر دوپہر کو بریانی ہی سے لنچ کرتے ہیں۔

گائے کا گوشت مہنگا ہونے کی وجہ سے زیادہ تر ہوٹل اور ریستوران کم قیمت ہونے کی وجہ سے مرغ بریانی فروخت کرتے ہیں۔ فوڈ سینٹرز یا بریانی ہاؤسز کی بریانی سے شکم سیری کرنا تو ہماری بساط سے باہر ہے البتّہ شہرکی مختلف فوڈ اسٹریٹس کے ٹھیلوں پر اکثر سَستی بریانی کھاتے ہیں اور بسا اوقات مذکورہ بریانی کھانے کے بعد جب ہم سرِ راہ کسی شناسا کو دیکھ کر ’’ہیلو، ہائے‘‘ کرتے ہیں تو ہمارے حلق سے صرف ’’کائیں، کائیں‘‘ کی آوازیں برآمد ہوتی ہیں کیونکہ بریانی فروش نے انتہائی مہارت سے چکن کی جگہ کوّا بریانی بنائی ہوتی ہے جو ہمارے حلق سے اترنے کے بعد ہمیں کائیں، کائیں کرنے پر مجبورکردیتی ہے لیکن نزدیک ہی کھمبے پر بیٹھے ہوئے کوّے ہماری طبعی مجبوری کو نظر انداز کرکے کائیں، کائیں کا راگ الاپتے ہوئے ہمارے سر پر منڈلانا شروع کردیتے ہیں، شاید وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی نقالی کرکے ان کا مضحکہ اڑا رہے ہیں، انہیں کیا پتہ کہ چکن کے نام پر کوّا بریانی کھلا کر بریانی فروش نے ہماری خستہ حالی کا مذاق اڑایا ہے ۔ ہم توان کی ٹھونگوں سے اپنا سر بچانے کے لیے ہاتھ میں پکڑا ہوا ہیلمٹ فوراً سر پر رکھ لیتے ہیں لیکن ہمارے مخاطب کا سرکوّوں کے ڈرون حملوں کی زد میں آجاتا ہے۔

ہم نے چکن، بیف، جھینگا، آلو، چنا غرض ہر طرح کی بریانی کھائی ہے لیکن کام و دہن کو جو لذت بجٹ بریانی سے ملتی ہے وہ آج تک دیگر بریانیوں میں نہیں ملی بلکہ ہماری خواہش ہے کہ ملکی بجٹ سالانہ کے بجائے ہفتہ وار آیا کرے تاکہ ہمیں ہر ہفتے بجٹ بریانی کھانے کو ملے ۔کہاوت مشہور ہے کہ چاول کا ایک دانہ بریانی کی پوری دیگ کا احوال بتا دیتا ہے، اسی طرح بجٹ بریانی کا ہر لقمہ زیر مطالعہ بجٹ کے ملک و قوم پر مرتب ہونے والے ثمرات یا مضمرات کو ظاہرکردیتا ہے۔ اگر بریانی میں روغن کی زیادتی ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ بجٹ کے نفاذ کے بعد حکمرانوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور عوام کا سرکڑاہی میں ہوگا۔ صحت مند ران دیکھ کر پارلیمنٹ اور پارلیمینٹیرینزکی طاقت و توانائی اور ملکی اداروں پر بالا دستی کا احساس ہوتا ہے جبکہ بچی ہوئی ہڈیاں دیکھ کر بجٹ تجاویزکے نتیجے میں اپنی چمڑی کے ہڈیوں سے لگنے کا منظر سامنے آجاتا ہے۔ اگر چاول کے دانے جڑے ہوئے ہوں تو اس سے حکومت اور فرینڈلی اپوزیشن کے باہم شیر و شکر ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ بریانی میں آنے والے کنکر اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ عوام کو بجٹ کے نفاذ کے بعد سینے پر مہنگائی کی سل رکھنا پڑے گی۔ گرم مصالحے کی زیادتی ظاہر کرتی ہے کہ عوام کو صرف اس سال ہی نہیں بلکہ آئندہ سالوں میں بھی موجودہ بجٹ سازوں کے مرتب کردہ بجٹ کی تلخیاں سہنی ہیں جبکہ تیز پات عوام کی زندگیوں کو اڑتے پتّوں سے تشبیہ دیتا ہے یعنی مہنگائی کے نتیجے میں اجتماعی خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ ہوگا۔ بجٹ بریانی کے ہر لقمے کو تجزیاتی انداز میں چبانے اور نگلنے کے بعد جب ہم ڈیوٹی ختم کرکے گھر پہنچتے ہیں تو اپنے اور اپنے اہل خانہ کو بجٹ کے مضمرات سے بچانے کی تگ و دو شروع کردیتے ہیں۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 211 Articles with 195253 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.