ورلڈ بینک

چند عشرے قبل جب ذرائع ابلاغ پر پرنٹ میڈیا اور ریڈیو کی حکمرانی تھی تو ریڈیو پاکستان کی کمرشل سروس سے اکثر ایک قومی بینک کا اشتہار سنائی دیتا تھا جو چار آوازوں پرمشتمل تھا، پہلے مرد کی آواز آتی تھی، ’’ حبیب بینک‘‘ ، اس کے جواب میں نسوانی آواز سنائی دیتی تھی ، ’’میرا بینک‘‘، پھر مُنّی باجی مذکورہ بینک پر اپنا حق ملکیت جتاتے ہوئے مہین سی بچکانہ آواز میں تتلاتے ہوئے کہتی تھیں ’’میلا بھی تو ہے‘‘، اس کے بعد وہی مرد اس خاتون اور ’’مذکورہ بچی‘‘ کو تسلی دیتے ہوئے کہتا تھا، ’’ حبیب بینک، سب کا بینک‘‘۔ اس کے بعد چوتھی آواز مذکورہ اشتہار کے کرداروں کو مذکورہ بینک کی مزید افادیت سے انگریزی زبان میں آگاہ کرتی تھی "Let Habib Bank, Save you Better"۔ 1974-75ء میں بینکوں کو قومی ملکیت میں لیے جانے کے بعد یہ اشتہار بھی بند ہوگیا لیکن آج مقبولیت میں مذکورہ بینک کی جگہ عالمی بینک نے لے لی ہے۔

آج جبکہ قومیائے جانے والے بینک دوبارہ نجی ملکیت میں لئے جا چکے ہیں بلکہ بچت کے لیے پُرکشش ترغیبات کے ساتھ مزیدکئی بینک ، بینکاری کی مسابقتی دوڑ میں شامل ہوکر عوام کی بچت کو ’’خواص‘‘ کے منفعت بخش کاروبار کے لیے استعمال کررہے ہیں لیکن ان بینکوں سے لیے ہوئے قرض نادہندگان کی شہرت میڈیا کے توسط سے ساری دنیا میں ہوجاتی ہے۔ عالمی بینک ہے تو غیرملکی لیکن اس کا قرض یا امداد دینے کا طریقہ کار ہماری مذہبی روایات کے عین مطابق ہے۔ اس کی ایک ہاتھ سے دی جانے والی رقم کے چیک کی دوسرے ہاتھ کو خبر نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ اس لین دین سے عوام بھی بے خبر رہتے ہیں۔ اس کی رواداری کا یہ عالم ہے کہ ہماری نہ صرف17کروڑ آبادی اس بینک کی مقروض ہے بلکہ دنیا میں آنکھ کھولنے والا اور شکم مادر میں پرورش پانے والاہر بچہ اس کا ہزاروں روپے کا مقروض ہے لیکن اس نے کبھی قرض کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ سود کی وصولی پر ہی صبر و شکر کرتا آیا ہے اور سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض بھی دیتا ہے۔ اس بینک نے بہت سی ملکی شخصیات کو جن کا شمار ماضی میں ککھ پتی میں ہوتا تھا، کروڑپتی، ارب پتی اورکھرب پتی بنادیا ہے جبکہ ان ارب اور کھرب پتیوں نے امارت کی اوج ثریا تک پہنچنے کی تگ و دو میں ملک میں غربت کی تہہ در تہہ لکیریںکھینچ کر کروڑوں ’’پتیوں‘‘ یعنی شوہروںکو افلاس کی اتنی نچلی سطح پر پہنچادیا ہے جہاں سے تحت الثریٰ کا فاصلہ کچھ ہی دور رہ جاتا ہے اور روزانہ درجنوں پتی اپنی پتنیوں یعنی بیوی اور بچوںکے ہمراہ یہ فاصلہ عبورکرکے تحت الثریٰ میں گرتے رہتے ہیں۔ ورلڈ بینک ہماری حکومت کوکروڑوں اور اربوں ڈالر کی رقوم فراہم کرتا ہے لیکن اس کی تمام رقوم بغیر حساب کتاب کے ہوتی ہیں جو بااختیار لوگوں کے کھاتوں میں حیران کن طریقے سے منتقل ہوتی رہتی ہیں اور وہ نہ تو نیب کی زد میں آتی ہیں اور نہ ان کا چرچہ این آر او میں سنائی دیتا ہے۔ ملکی بینک اور قرض دینے والے ادارے اپنے قرض کی وصولی کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہیں جبکہ عالمی بینک، بین الاقوامی اثرورسوخ کا حامل ہونے کے باوجود ہمارے حکمرانوں سے اپنے قرض کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ ان کی ضرورت کے مطابق مزید قرضے اور اپنے ہی قرضوں کی اقساط اور سودکی ادائیگی کے لیے قرضے اور امداد فراہم کرتا ہے۔

نجانے عالمی بینک اورعالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو پاکستان اور پاکستانی عوام سے اتنا لگائوکیوں ہے کہ یہ نہ صرف ہمارا ملکی بجٹ اپنے ماہرین سے بنواتے ہیں بلکہ ہماری حکومتی مشینری کو چلانے کے لیے اپنے کئی اقتصادی ماہرین و معیشت دان بطور مشیر و وزیر بھی مہیا کیے ہوئے ہیں جبکہ عالمی کساد بازاری سے ہمارے ملک کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے اپنے دو اقتصادی ماہرین، معین قریشی اور شوکت عزیز کی خدمات بلامعاوضہ بطور وزیراعظم، پاکستانی قوم کو فراہم کیں اور ہمیں مفلوک الحالی اور احساس کمتری کی دلدل سے نکالنے کے لیے مذکورہ وزرائے اعظم کو نہ صرف عالمی اقتصادی نظام کی مطابقت سے پالیسیاں مرتب کرکے دیں بلکہ بوقت ضرورت انہیں پاکستانی معیشت و اقتصادیات سے متعلق ہدایات بھی دیتے رہے ۔ آخرالذکر شخصیت نے پسماندہ پاکستانی قوم کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا کرنے کے لیے ’’لیزنگ کلچر‘‘ کو فروغ دیا جس کے بعد لیزنگ کمپنیوں کی وساطت سے پاکستان کا ہر بچہ، جوان و بوڑھا موٹرسائیکل سوار اورکار نشین نظر آتا ہے جس کے باعث ملک کی زیادہ تر شاہراہیں ٹریفک کے ہجوم کے باعث جام ملتی ہیں ۔ مذکورہ وزرائے اعظم نے ہندسوں کی جادوگری اور اعدادوشمارکے گھماؤ پھراؤ سے پاکستانی قوم کو دنیا کے سامنے امیر ترین قوم کی حیثیت سے پیش کردیا۔

’’گدڑی کا لعل‘‘ ایک مقبول محاورہ ہے لیکن ورلڈ بینک کے ’’پاکستان دوست‘‘ اقدامات نے ہمارے ملک کو دنیا کے سامنے گدڑی کے لعل کے طور پر پیش کیا ہے۔ اقساط پرگاڑیوں کی فراہمی نے ہمارے ملک کو پیٹرول اور گیس کی زیادہ سے زیادہ کھپت کرنے والے ممالک میں بلند ترین درجے پرکھڑا کردیا ہے۔ ورلڈ بینک کی دیرینہ خواہش ہے کہ پاکستانی قوم صرف اور صرف کیف و سرور میں ڈوب کر اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو۔ اسی لیے ان کی کوشش ہے کہ ہمارے کاشتکار جو رات دن اناج اور مختلف زرعی اجناس اگانے کے لیے فرسودہ روایتی آلات اور کھاد کے ساتھ دن رات محنت کرتے ہیں، آرام سے غیر ملکی کاشتکاروں کی اگائی ہوئی اجناس سے شکم سیر ہوں، اس کے لیے ان کے پاس پاکستان کی تمام زرعی اراضی غیرملکی کاشتکاروں کو لیز پر دینے کا فارمولا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس بینک اور اس سے منسلک امداد بانٹنے والے ادارے یعنی عالمی مالیاتی ادارے کی خواہش ہے کہ ہم اپنے ملک کا فرسودہ طریقے سے اگایا ہوا غلہ اور دیگر زرعی اجناس نہ کھانے پائیں اس سے ہماری صحت پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ چند سال قبل تک ہمارے ملک میں گائے، بھینس، بکرے اور مرغ کا گوشت بکثرت کھایا جاتا تھا لیکن غیرملکی ماہرین صحت نے اسے مضر صحت پایاکیونکہ اکثر جگہوں پر بکرے کی جگہ کتے کا اور گائے کی جگہ گدھے کا گوشت فروخت ہوا جبکہ بیماری سے مرنے والے جانورکے نقصان سے بچنے کے لیے قصابوں نے مردہ جانور کا گوشت کاٹ کر عوام کو کھلا دیا۔ ہماری حکومت اس سے چشم پوشی اختیار کرتی رہے لیکن ورلڈ بینک کو پاکستانی عوام کی تندرستی اتنی عزیز ہے کہ اس نے اپنے ملکی ماہرین کی رپورٹ کے بعد ڈبلیو ٹی او کے تحت پاکستان کا زیادہ تر زرعی اجناس غیرممالک کو برآمد کرنے اور ان ہی کے توسط سے وہ اناج دوبارہ پاکستان درآمد کرنے کا پابندکردیا ہے۔ گوشت ہم برآمد نہیں کرسکتے لیکن حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق کاٹا گیا غیرملکی گوشت درآمد کرنا لازمی قرار دیا گیا۔

1999ء تک ہمارا ملک بجلی کی پیداوار میں اس حد تک خودکفیل تھا کہ ہمارے حکمران ملکی ضرورت پوری ہونے کے بعد فاضل بجلی پڑوسی ممالک کو برآمد کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے لیکن ہمارے ہمدرد، ورلڈ بینک کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ ہم غیرملکیوں کی بنائی ہوئی اعلی معیار کی بجلی کی بجائے دیسی بجلی استعمال کریں اسی لیے ان کے رینٹل پاور پروجیکٹس کے توسط سے ہمارے باتھ رومز بھی انتہائی مہنگے نرخوں پر فراہم کی جانے والی غیر ملکی بجلی سے جگمگاتے ہیں ، چاہے چند گھنٹوں کے لیے ہی سہی۔ ہمارے ملک کے عوام جو پانی پیتے ہیں وہ ترقی یافتہ ممالک میں جانوروں کو بھی نہیں پلایا جاتا، ورلڈ بینک پاکستان میں موجود اپنے تنخواہ دار ملازمین کے ذریعے کوشاں ہے کہ ہمیں اس مضر صحت پانی سے نجات ملے اس کے لیے تجرباتی طور پر کراچی اور اندرون سندھ میں پانی کا بحران پیدا کیا گیا ہے تاکہ مضر صحت پانی کی نایابی کی صورت میں ہم بھی فرانس اور سوئٹزر لینڈکے چشموں کا آب حیات یعنی معدنی پانی(منرل واٹر) خرید کر پئیں۔ کراچی کے بیشتر علاقوں کے باشندے کئی مہینے سے نلکے سے فراہم کیے جانے والے پانی کے ذائقے کو ترس رہے ہیں، اس لیے وہ غیرملکی آب حیات پینے کی عادت ڈالنے کے لیے دیسی کمپنیوں کی انگریزی ناموں والی لیبل لگی ہوئی منرل واٹر کی بوتلیں خرید کر پیاس بجھانے پر مجبور ہیں جبکہ جسم کے بالائی حصوں کو تازگی دینے کے لیے کنوؤں (بورنگ)کا کھارا پانی جسم پر بہاکر بور ہوتے ہیں کیونکہ مذکورہ پانی سے بدن کی کھال چٹختی ہوئی محسوس ہوتی ہے جبکہ سر کے بال کھال کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ منرل واٹر کے نام پر جو پانی دکانوں اور جنرل اسٹورز پر فراہم کیا جاتا ہے وہ بھی گھروں کے نلکوں پر فلٹر لگا کر یا شہر کے مختلف ندی نالوں سے چھان کر خوشنما بوتلوں میں بھرا جاتاہے اور پھر ڈھکن لگانے کے بعد سربمہر کرکے مہنگے داموں عوام کو پلایا جاتا ہے۔

ورلڈ بینک کی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان کی ہر نئی حکومت تاجر اورکاروبار دوست ہو، یہاں زیادہ سے زیادہ امراء کی افزائش ہو، پاکستان میں استعمال ہونے والی ہر شے اس قیمت خرید پر ملے کہ ہم دوسری اقوام کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں جیسے پیٹرول۔ یہ ہمارے ملک میں دیگر ممالک سے کہیں زیادہ مہنگا ہے، دالیںجو اے سے لے کر زیڈ تک کے تمام وٹامنز سے بھرپور ہوتی ہیں اور بعض دیگر اجزاء اور معدنی پتھروں کی آمیزش سے انہیں اتنا مقوی کردیا جاتا ہے کہ ہضم ہی نہیں ہوتیں اور انہیں کھانے کے بعد متلی ہونے لگتی ہے لیکن ان کی قیمت بھی پڑوسی ممالک کی دالوں کی نسبت دگنی ہے۔

ملک و قوم کے دوست ورلڈ بینک کی خواہش ہے کہ پاکستان کا معمولی مزدور بھی دیگر اقوام کے امراء کے سامنے سر اٹھاکر چلے اسی لیے وہ ملک کے ہر طبقے کو ٹیکسوں کے جال (نیٹ ورک) میں باندھنا چاہتا ہے ۔ پاکستان کا ہر شخص نہ تو جائیداد ٹیکس ادا کرتا ہے نہ انکم ٹیکس، اس لیے ورلڈ بینک نے ہر مردوزن، بوڑھے اور بچے کو باوقار زندگی بسر کرنے کے لیے ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا فارمولا پیش کردیا ہے جو پانی، بجلی، گیس، کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں تین گنا زیادہ اضافے کی صورت میں ادا کرنا پڑے گا۔ ورلڈ بینک کے ان گنت احسانات، پاکستان اور پاکستانی قوم سے ہمدردی کے جذبات اور ہمیں مفلوک الحالی سے فارغ البالی میں منتقل کرنے والے فارمولوں کو دیکھتے ہوئے ہمارے دل میں خواہش ہوتی ہے کہ 31سال پہلے ہواؤں کے دوش پر ملک کے طول و عرض میں گونجنے والااشتہار نئی تبدیلی کے ساتھ ملک کے ہر ٹی وی چینلز سے چار آوازوں میں اسی طرح نشر ہونا چاہیے،
مرد: ’’ ورلڈ بینک‘‘، عورت کی آواز: ’’ میرا بینک‘‘، بچی کی آواز: ’’ میلا بھی تو ہے‘‘، اسی مرد کی آواز: ’’ورلڈ بینک سب کا بینک، ہر پاکستانی کا بینک‘‘، چوتھی آواز: " Let World Bank Save us Better "
 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 192333 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.