ضرب حیدری

ہوگا بلکل ایسا ہی ہوگا اور ایسا ہی ہوتا آیا ہے تاریخ کے انمٹ نقوش یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یہ سب ہوتا رہا ہے اور تا قیامت جاری و ساری رہے گا بس آپ گھبرانا نہیں، ڈٹے رہنا ، ثابت قدم رہنا، حالات کے جبر اور مخالفتوں کے طوفان میں ڈگمگانا نہیں کیوں کہ یہ وقتی ابال ہمیشہ رہنے والی کامیابیوں کو گہنا نہیں پائے گا.

آپ کی عظمت اور خلوص سمجھنے میں انہیں وقت ضرور لگے گا اور آج کے ہر گزرتے لمحے کو صیغہ ماضی میں تبدیل کر دینے والا وقت کا دھارا آپ کی شخصیت اور اس سے منسلک بے مثال حقیقتوں کو ان پر آشکار کر دے گا. کیا ہوا اگر اکثریت طنز و تشنع کے تیر سنبھالے بیٹھی ہے، کیا ہوا اگر اکثریت آپ کے خلوص کو سمجھنے سے قاصر ہے، کیا ہوا اگر اکثریت نے ایک بار پھر ایک عظیم ہستی کو نشانہ مذاق بنا ڈالا ہے، کیا ہوا اگر اکثریت نے جوتے پھینکنے جیسی غیر اخلاقی، غیر تہذیبی اور بیہودہ حرکت کی مذمّت کرنے کی بجائے اس پر خوشیاں منانا شروع کردی ہے لیکن ایسا تو ہوتا ہے اور یہ سب کچھ نیا تو نہیں، کیا اکثریت اپنے بد ترین فعل پر شاد و نازاں نہیں تھی جب با برکت ترین ہستی کو آتش نمرود کی نظر کیا جا رہا تھا؟ کیا صلیب پر لٹکتی اس معصوم ہستی پر اکثریت ٹھٹے نہیں مار رہی تھی؟ کیا دربار فرعون میں حق کی دلیلیں دینے والے پر دیوانگی کے الزامات نہیں لگ رہے تھے؟ کیا اکثریت نے سفینہ نوح کو ٹھکرا کر باطل کو حق پر ترجیح نہیں دی تھی؟

کیا اکثریت نے نور حق پر مقام طائف پر پتھر نہیں برسائے؟ کیا اکثریت نہیں تھی جو قاتل حسین میں اپنا شمار کروانے کے لئے بیتاب تھی؟ کیا گھرانہ رسول کو بے پردہ دیکھ کر اکثریت خوشی کے نغمے نہیں بجا رہی تھی ؟ کیا اکثریت نے سولی کناسہ پرجزامامت کو کئی سالوں تک لٹکتا دیکھ کر بے حسی نہیں دکھائی ؟ کیا اکثریت نے وادی سندھ کو خون غازی سے لال نہیں کیا؟ کیا اکثریت نے صابر کلیری کو مسجد سے نہیں نکالا؟ کتنی مثالیں بکھری پڑی ہے تاریخ کے اوراق پر ناانصافی کی لیکن اگر یہ سب ہستیاں ڈر گئی ہوتی یا پیچھے ہٹ گئی ہوتی تو کیا آج تاریخ ان پر فخر کر رہی ہوتی؟

کل کی تاریخ آپ پر نازاں ہونے کے لئے تیار ہے، آج کی اکثریت بھی پچھلوں کی طرح حقیقت سے نا بلد سی دکھائی دیتی ہے یہ اکثریت آج کی پریشانی کی سختی کو برداشت نہ کر کے آپ کے پیچھے دریا عبور کرنے سے گریزاں ہے، یہ اکثریت آپ کی طرح دور بینی کے فن سے آشنا نہیں، یہ نہیں سمجھتے کے آپ کا ہر قدم ان کے مستقبل کی بہتری کی جانب گامزن ہے، یہ تو آج تک اپنے دوستوں اور دشمنوں تک کو نہیں پہچان سکے، یہ ایک ہی سوراخ سے کئی کئی بار ڈسے ہوئے ہیں اور اب تو اس ڈسنے ڈسانے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ بے ضرر کو قبول کرنے کو تیار ہی نہیں لیکن قدرت کی نشانیوں پر غور کرنے والے یہ جانتے ہیں کہ اس اکثریت کی یہ بے رخی، نہ سمجھی، کم عقلی اور بے حسی آپ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کر سکتی؟ ان نا شکروں کی نا شکری کی بنیاد پر آپ اپنے غیر متزلزل ارادوں کا رخ نہیں موڑ سکتے کیوں کہ یہ آپ کی شخصیت کا خاصہ نہیں اور پیچھے ہٹنا آپ کی عادت نہیں اور یہ آپ تواتر سے ثابت کر چکے ہیں آپ کے والدین نے جس ارادے سے آپ کو آصف نام دیا آپ نے وہ سچ کر دکھایا، آپ نے اپنے نام کے مطلب یعنی "قابل" کو اپنی شخصیت کا عکس بنا ڈالا ہے اور اس قابلیت کو بے انتہا بلندی پر لے جانے کے لئے لفظ علی کا وجود کافی ہے اور جب کسی کو علی بلندی پر لے جائے تو وہ شہباز کی طرح پرواز کرتا ہے اور آپ کی پرواز شروع ہو چکی ہے اور انشاللہ اس کے مقدّر میں بس بلندی ہی بلندی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ہر مشکل، پریشانی اور بحرانوں سے سرخرو اور کامیابی سے نکلنے والے کو دنیا کسی اور نام سے نہیں بلکہ آپ کے نام سے یاد کیا کرے گی اور تاریخ کے جگماتے کینوس پر نام ہوگا تو بس آپ کا نام ہوگا یعنی آصف علی زرداری کا.
Syed Qumqam Ali Zaidi
About the Author: Syed Qumqam Ali Zaidi Read More Articles by Syed Qumqam Ali Zaidi : 8 Articles with 5307 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.