امریکی صدر کا دورہ ٔبھارت اور پاکستانی تحفظات

امریکی صدر اوبامہ نے اپنے الیکشن کو جس نعرے کی بنیاد پر لڑا اور جیتا وہ تھا ’’تبدیلی‘‘۔ یقیناً امریکیوں کیلئے ایک سیاہ فام امریکی شہری جس کی صرف ماں امریکی تھی کا صدر منتخب ہو جانا ایک ’’تبدیلی‘‘ ہی تھا اور یہ بھی کہ اس کا نام بھی مسلمان تھا کیونکہ وہ ایک برائے نام ہی سہی مسلمان باپ کا بیٹا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کم از کم وہ دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکا نہ ہی امریکہ کے بارے میں دنیا کی رائے تبدیل کر سکا ہے۔ اگرچہ اسے ایک قابل اور زیرک سیاستدان سمجھا جاتا رہا ہے لیکن ابھی تک وہ سیاست سے زیادہ طاقت کے ہی استعمال پر بھروسہ کر رہا ہے۔

یہی صدر اوبامہ تھے جنہوں نے کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے کوشش کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک کسی ہل جل کے آثار تک دکھائی نہیں دے رہے۔ اب جبکہ وہ نومبر میں بھارت کے دورے پر جا رہے ہیں ظاہر ہے کہ انہیں حق ہے کہ وہ جس ملک کے دورے پر چاہیں جائیں لیکن بھارت کا معاملہ مختلف کچھ یوں ہے کہ امریکہ پاکستان کو اپنا سٹرٹیجک پارٹنر کہتا ہے لیکن تعلقات وہ بھارت سے بڑھا رہا ہے ظاہر ہے کہ وہ ایسا اسے پاکستان کے مقابلے میں اہمیت دینے کیلئے کر رہا ہے کیونکہ بقول اس کے اسے پاکستان بلکہ درحقیقت پاکستانیوں سے نام نہاد دہشت گردی کا خطرہ ہے اور بھارت بھی اسی راگ کو الاپ الاپ کر مغربی دنیا کی حمایت اور ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش میں مبتلا ہے جبکہ خود وہ یہ کام پاکستان میں بڑی تندہی سے کر رہا ہے اور فاٹا اور بلوچستان میں اس کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ دوسری طرف وہ بھارت کو چین کے مقابلے پر علاقے میں بڑی طاقت کے طور پر ابھارنا چاہتا ہے جبکہ انہیں دونوں ملکوں سے بھارت خائف ہے جسکی وجہ سے بھارت اسلحے کے انبار لگا رہا ہے اور جنوبی ایشیا کے ممالک کو ہتھیاروں کی دوڑ پر مجبور کر رہا ہے ۔ بھارت امریکی ہتھیاروں کی بڑی منڈی ہے اور بارک اوبامہ اسی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے وہاں کا دورہ کر رہے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے بارے میں امریکہ کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کر رہا حالانکہ اس وقت کشمیری بھارتی ظلم و ستم سے تنگ آ کر اپنی جانوں سے گزر رہے ہیں۔ اور اگر اوبامہ واقعی خود کو امن کا پیامبر ثابت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بھارت پر زور دینا ہوگا کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کر کے خون خرابہ روک دے۔ ایک طرف تو بھارت دہشت گردی کی شکایت کرتا نظر آتا ہے تو دوسری طرف وہ خود اس کیلئے میدان ہموار کرتا ہے۔ ظاہر ہے جب وہ کشمیریوں کا حق خود ارادیت ضبط کرتا ہے تو وہ بھی بھارت سرکار کے خلاف کسی بھی بدلہ لینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس جدوجہد کیلئے انہیں دہشت گرد قرار دینا کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں یہی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات کبھی بھی معمول پر نہ رہے اور دونوں ممالک ہر وقت توپ کے دھانے پر بندھے رہتے ہیں۔ بھارت کو اپنے بڑے ملک ہونے کا زعم ہے اور وہ اپنے پڑوسیوں کو اپنا مطیع بنانے پر تلا رہتا ہے اور پھر پاکستان تو دفاعی طور پر اسکے مقابلے پر ہے۔ لہٰذا وہ ہمہ وقت اسکی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تلا رہتا ہے وہ مسلسل اپنی دفاعی صلاحیت بڑھا رہا ہے۔ اس کا جو بھی شخص سڑک پر رات گزارتا ہے گزارتا رہے لیکن ایٹمی ہتھیار مسلسل بنتے رہنے چاہئیں۔ اوبامہ کو بھارت پر ان مسائل کے حل کیلئے زور ڈالنا ہوگا۔ وہ جوش خطابت و خوشامد میں ڈیوڈ کیمرون کی طرح پاکستان پر کوئی الزام دھرنے کی بجائے بھارت کو یہ بات سمجھائے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل بہت سارے تنازعات خود ہی حل کر دے گا۔ جس میں ایک بڑا مسئلہ پانی کا بھی ہے اور جو کہ کسی ممکنہ جنگ کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا اس کا حل ہونا انتہائی ضروری ہے کیونکہ پاکستان کے بڑے دریا اسی وادی سے ہو کر آتے ہیں۔ اگرچہ امریکہ اس مسئلے کو پاکستان اور بھارت کا باہمی مسئلہ کہہ چکا ہے لیکن جیسے وہ پوری دنیا کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے اور خود کو انسانیت کا علمبردار سمجھتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ زندگی پانی کی مرہون منت ہے اور پاکستان کو اپنی بقا کے لیے ہر صورت میں پانی درکار ہے اور یہ بھی کہ وہ جس آزادی کی تحریک کو دہشت گرد تحریک قرار دے رہا ہے اور جسکی بنا پر اسے پاکستان سے شکایت ہے اور وہ بھارت میں ہونے والے ہر واقعے کی ذمہ داری بلا سوچے سمجھے پاکستان پر ڈال دیتا ہے وہ شکایت بھی خود بخود ختم ہو جائے گی بھارتی حکومت جس نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے اوبامہ اس کو ختم کرانے میں بھارت کی مدد کرے تو شاید مسئلہ حل ہو جائے۔ اگرچہ کشمیر میں بھارت نے بین الاقوامی میڈیا پر پابندی لگا کر بہت سارے مناظر کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا تاہم اگر اوبامہ ان مناظر کے دیکھنے پر اصرار کریں اور دیکھ لیں تو یقینا اصل صورت حال سے آگاہ ہو سکیں گے۔

منہ زبانی کسی کو اپنا اتحادی کہہ دینا یا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار کی تعریف کر دینا کوئی معنی اور فائدہ نہیں رکھتا پاکستان اس جنگ میں جتنا کھو رہا ہے اس سے کہیں کم پار ہا ہے۔ مالی نقصان کا کوئی اندازہ نہیں اور جانی نقصان تو ناقابل تلافی ہے۔ امریکہ کے ڈرون حملے اس پر مستزاد ہیں مجھے اس بات پر کوئی خوشی نہیں بلکہ شدید دکھ ہے کہ ہماری حکومتیں امریکی خواہشات پوری کئے جارہی ہیں وہ لوگ تو اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں لیکن ہم کیا کر رہے ہیں اور جبکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عملی طور پر ہمیں compensateبھی نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی انسانی جانوں کا کوئی بدل ہے ۔

ہماری حکومتوں کو یہ احساس کر لینا چاہیئے کہ امریکی صدر جس کام سے بھارت جا رہے ہیں وہ بھارت سے تجارتی اور دفاعی تعلقات مضبوط کرنا، وہاں منڈی تلاش کرنا اور بدلے میں اپنی منڈیوں کی پیشکش ہے۔ ایک بڑی آبادی اور بڑا ملک ہونا اپنی جگہ لیکن امریکہ کیلئے پاکستان اور بھارت کی اہمیت میں فرق ہونا چاہیئے۔ اسے سوچ لینا چاہیئے کہ اگر پاکستان نے اس کی مدد بند کر دی تو افغان جنگ اسے کئی گنا مہنگی پڑے گی ۔ پاکستانی قوم اس وقت کا انتظار کر رہی ہے جب انکی حکومتیں اپنی خودی پہچان لیں گی۔ امریکہ کہنے کو تو کہتا ہے کہ وہ پاکستانیوں کے دل جیتنے کی کوشش کرے گا لیکن عملاً ہو یہ رہا ہے کہ پاکستانی اسکے اعمال کی وجہ سے ہر آنے والے دن میں اس سے زیادہ متنفر ہو رہے ہیں وہ اپنے ملک کے امن و امان کی خرابی کا ذمہ دار بھارت اور امریکہ کو سمجھتے ہیں۔ بھارت خفیہ سازشیں کرتا ہے اور امریکہ طاقت کے نشے میں مست خفیہ اور بظاہر دونوں طرح سے لگا ہوا ہے اور ان ساری کاروائیوں کے بعد امریکی صدر کا بھارت کے دورے پر نکل جانا ایک اور پیغام ہے کہ اگر ہم پاکستان سے مدد لیں گے تو بھی ہماری عنایات بھارت پر رہیں گی۔ کچھ امداد سیلاب زدگان کیلئے بھیج کر اور کبھی فاٹا میں آٹا گھی تقسیم کر کے امریکہ اگر یہ سمجھے کہ اس نے بہت بڑا کام کیا ہے تو ایسا نہیں ہے وہ لوگ بھوک کے ہاتھوں مجبوراً یہ سب تو لیتے ہوں گے کیونکہ ان کے روزگار کے سب مواقع امریکہ ہی کی جنگ کی وجہ سے ضائع ہو چکے ہیں لیکن دل سے وہ امریکہ کے کبھی بھی حامی نہیں ہو سکتے۔ امریکہ کو اگر واقعی پاکستان سے دوستی کرنی ہے تو پہلے تو وہ اس علاقے سے اپنی بساط لپیٹ لے اور پاکستان میں بغیر بے شمار شرائط کے ترقیاتی کاموں میں مدد کرے ورنہ وہ نقصان تو پورا کرے جو پاکستان نے ان کی وجہ سے اٹھایا ہے اور پاکستان کے دشمنوں کی امداد بند کر دے پھر چاہے وہ بھارت کا دورہ کرے یا اسرائیل کا یا کسی اور ملک کا پاکستانیوں کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 508878 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.