کیا عوامی شعور بیدرا ہورہا ہے؟

ملک میں تین دن تک پھلوں کی مہنگائی کے خلاف بائیکاٹ مہم چلائی گئی۔مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ہماری عوام میں کچھ نہ کچھ شعور آگیا ہے کہ اپنے حق کے لیے کیسے کھڑے ہونا ہے۔اگر کوئی آپ کا حق نہیں دیتا تو چھین کراپنا حق لیں۔ کوئی یہ گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ سب کچھ بھی ہوسکتا ہے یہ ہماری قوم کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ سوشل میڈیا کی طاقت نے انقلاب برپا کیا۔ رمضان المبارک میں فروٹ اتنا مہنگا ہے کہ بے چارہ غریب نہیں خرید سکتا اس کے لیے اگر ہم تین دن تک پھل نہیں خریدتے تو پھل گل سڑ جائے گااور قیمتیں کم ہوجائیں گی ۔اس مہم سے قیمتیں کم ہوئیں ہیں یا نہیں لیکن یہ مہم چلانا ہی قوم کی بڑی کامیابی ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔حالانکہ یہ صرف پھلوں کے مہنگا ہونے کے خلاف مہم تھی لیکن آہستہ آہستہ ہی لوگوں میں شعور آئے گا۔آہستہ آہستہ یہ قوم اپنے حق کے لیے باہر نکلے گی۔ مختلف ٹی وی چینلز سے سننے میں آیا کہ پھلوں کی قیمتوں کا گراف پہلے دن ہی پندرا سے بیس فی صد نیچے آگیا ہے ۔اس سے ثابت ہوتا کہ کوئی بھی مشکل ہو ملک کو کسی بھی بحران کا سامنا ہو اگر پوری قوم یکجا ہوکر اپنے ملک کے خاطر اپنی غریب عوام کی خاطر سٹرکوں پر نکلتی ہے تو کوئی بھی چیز نا ممکن نہیں ہے۔یہ ہوتی ہے عوامی طاقت اگر ہم صرف تین دن کے بائیکاٹ مہم کی وجہ سے پھل کی قیمتیں کم کروانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو باقی مہنگائی پر کیوں نہیں قابو پایا جا سکتا ؟ حالانکہ یہ مہم سوشل میڈیا پر چلائی گئی تو اس کا کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوا ۔ میرے خیال میں اگر یہی مہم سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر بھی چلائی جاتی تو مزیدقیمتیں گر سکتی تھیں۔ویسے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جتنے دن تک پھل غریب کی پہنچ میں نہیں آتے جب تک ایک غریب بھی پھل خریدنے کے قابل نہیں ہوتا تب تک یہ مہم جاری رہتی اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پھلوں کی قیمتوں کا گراف بہت نیچے آتا۔جو بھی چیز مہنگی ہے اگر اس کا بائیکاٹ کردیا جائے تو مجبوراََ اس چیز کو سستا ہونا پڑتا ہے۔میں دیکھ رہا تھا اس مہم میں کوئی لیڈ کرنے والا نہیں تھا لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ کام کیا ہے یہ بھی بڑی کامیابی ہے جو بتا رہی ہے کہ قوم میں شعور ہے۔جب لوگوں نے اس مہم کے متعلق سنا اور دیکھا تو خود ہی اس کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری قوم میں کچھ نہ کچھ شعور ضرور ہے لیکن اسے بیدار کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

اب عید بھی قریب آرہی ہے مہنگائی پھر عروج پر ہوگی۔ اسی طرح پوری قوم اگر عید کے لیے کپڑوں اور جوتوں کا بائیکاٹ کردے تو کپڑے اور جوتے بھی انتہائی سستے ریٹ پر آ سکتے ہیں جس سے بے چارہ ایک غریب بھی اپنی ضروریات زندگی کو پورا کر سکتا ہے ایک غریب بھی اچھے کپڑے پہن سکتا ہے۔اس طرح اور بھی مختلف طریقوں سے غریب عوام کو لوٹا جارہا ہے۔ہرچیز میں ملاوٹ ہورہی ہے ہر چیز جعلی بنائی اور فروخت کی جارہی ہے ۔ لیکن ہم مل کر اس پر قابو پا سکتے ہیں۔جن چیزوں میں ملاوٹ ہورہی چاہے جو ملاوٹ کررہا ہے اس کے خلاف باہر نکلیں پوری قوم مل کر ان کو سڑکوں پر گھسیٹے تاکہ لوگ سبق حاصل کرسکیں۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ ملاوٹ ہورہی ہے اورکون کون ملاوٹ کررہا ہے یہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے اور ہم ملاوٹ ملاوٹ کہہ رہے کہ ملاوٹ بہت ہے یوں ملاوٹ ملاوٹ کہنے سے ملاوٹ ختم نہیں ہوگی جو ملاوٹ کرتا ہے اس کے خلاف نکلیں چاہے کوئی دودھ بیچنے والا ہی کیوں نہ ہو جو دودھ میں پانی ڈال کر لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے۔عوام ،لوگ ایک قوم کی ملک کی طاقت ہیں۔اگر کسی قوم میں شعور بیدار ہوجائے تو یہ ترقی کی علامت ہے۔قوم میں جتنی طاقت ہے یہ ہر برائی ہر ناانصافی اور رشوت کو سر سے کچل سکتی ہیں لیکن اس کے لیے متحد ہونا ضروری ہے۔اگر قوم کسی معاملے پر سنجیدہ ہو جائے تو راستے میں کوئی بھی دیوار آ جائے یہ دیوار کو چیر کر آگے نکل جائے گی۔اب وقت ہے پوری قوم کو مل کر برائی کے خلاف لڑنا ہوگا غریب کے ساتھ ہونے والی نا انصافی سے لڑنا ہوگااپنے حق کے لیے لڑنا ہوگا وہ کالے بھیڑے جو ملک و قوم کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں جو ہمارے گھنے درخت کو کاٹنے پر تلے ہوئے ہیں ان کوہم صرف متحد ہو کر ہی ہرا سکتے ہیں۔اگر قوم سنجیدگی کے ساتھ جدوجہد و محنت کرے گی تو اﷲ تعالیٰ ضرور کامیابی دے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اکٹھا ہونا ہوگا ہمیں ایک پرچم کے سائے تلے متحد ہونا ہوگا ہمیں غریب اور امیر کا فرق مٹانا ہوگا ہمیں بھائی بھائی بننا ہوگا۔اگر ہم پھلوں کا بائیکاٹ کر کے پھلوں کی قیمیتں نیچے لا سکتے ہیں تو ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ہم ناانصافی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔اگر کوئی ادارہ ناانصافی کرتا ہے تو ہمیں اس ادارے کے خلاف نکلنا ہوگا جب تک ادارہ انصاف کرنے کے قابل نہیں ہوجاتا ہمیں اس ادارے کا بائیکاٹ کرنا چاہے جو غریبوں کو انصاف فراہم نہیں کر سکتا ۔ہمیں ان کا بائیکاٹ کرناچاہیے جنہوں نے ملک میں لوٹ مار مچائی ہے جنہوں نے ملک میں کرپشن و رشوت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ہماری قوم کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ہم چپ رہ کر پہلے ہی بہت ذلیل ہو چکے ہیں اب ہمیں مزید ذلیل و خوار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔مزید خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتے۔ مزید غلامی برداشت نہیں کر سکتے۔مزید ظلم و ستم برداشت نہیں کر سکتے۔مزید استحصال ہوتا برداشت نہیں کر سکتے ۔اب ہمیں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی۔ اگر کوئی ہمارے حلقے کا معمولی کونسلر معمولی عہدہ رکھنے والا سرکاری ملازم بھی کرپشن کرتا ہے وہ اپنے فرائض ٹھیک طریقے سے نہیں نبھا رہا تو اس کے خلاف بائیکاٹ کردیں جب تک اس کو سزا نہیں ملتی جب تک وہ لوگوں سے معافی نہیں مانگتا اس کے خلاف نکلیں۔ہمیں تبدیلی کے لیے پہلے خود تبدیلی کا لباس پہننا ہوگا ہمارا تبدیلی کا لباس دیکھ کر لوگ خودبخود متوجہ ہوں گے خود ہی تبدیلی کا لباس بنائیں گے اور پہنے گے بھی۔ہم تبدیلی نیچے سے خود بھی شروع کر سکتے ہیں کہ اس کے لیے شعور ،سچی نیت اور متحد ہونا ضروری ہے۔ میں امید کرتا ہوں اگر ہماری قوم چھوٹی سی چھوٹی نا انصافی ، بے ایمانی اور کرپشن کونظر انداز کیے بغیر اس کے خلاف باہر نکلتے ہیں تو ہمارا ملک ترقی کر سکتا ہیں۔ہمیں ہر معاملے پر متحد ہو کر اس بات کا ثبوت دینا ہے کہ ہم ملکی ترقی چاہتے ہیں ہم ہجوم نہیں بلکہ ہم ایک قوم ہیں۔بحثیت قوم ہمیں اپنا فرض نبھانا ہوگا۔

Mehar Ali Raza
About the Author: Mehar Ali Raza Read More Articles by Mehar Ali Raza: 18 Articles with 11648 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.