فروٹ بائیکاٹ مہم ایک تازہ ہوا کا جھونکا

سوشل میڈیا سے آغاز ہونے والی فروٹ بائیکاٹ مہم کامیاب ہوتی ہے یا ناکام یہ صحیح ہے یا غلط اس کے نتائج کیا ہوں گے اس کو ایک لمحے کے لیے چھوڑ کر اس بات پر کان دھریے کہ کیا پہلے کبھی ایسا ہوا؟ پاکستان میں جب بھی رمضان کا آغاز ہوتا ہے منافع خور پوری آب وتاب کے ساتھ سرگرم ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جس ماہ مقدس میں شیاطین کو جکڑدیا گیا ہے اس ماہ میں شیطانی کام کرکے شیطان کی کمی کو پورا کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اس مہم کا اندازہ رات کچھ صحافی دوستوں سے گپ شپ کے دوران ہوا کہ وہ میڈیا جو عام آدمی کی کبھی آواز نہیں بن سکا وہ اس مہم کو بریکنگ نیوز اور ہیڈ لائنز میں جگہ دینے پر مجبور ہوچکا ہے۔ بلکہ باقاعدہ اس پر سوچ بچار جاری ہے کہ کس طرح اس مہم کی کوریج کی جائے اس کے لیے ابھی سے تھنک ٹینک سرجوڑ کر بیٹھ چکے ہیں ۔ ایک سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ کی طرف سے ایک سٹیٹس کے بعد اس مہم کا آغاز اور پھر سوشل میڈیا سے ہوتے ہوئے عمل کی تصویر بنتی یہ مہم کرپٹ ٹولے کے ہوش اُڑانے کے لیے کافی ہے۔ اب یہ مہم فروٹ فروشوں تک محدود نہیں رہی بلکہ کرپٹ ٹولے کےبھی ہوش اڑا چکی ہے۔ کرپٹ ٹولے کو یہ بخوبی احساس ہوچکا ہے کہ یہ پہلی مہم تو ہوسکتی ہے لیکن آخری مہم نہیں ہوسکتی، یقیناََ مستقبل میں ایسی کئی آگاہی مہم ان کا بوریا بستر گول کرسکتی ہیں۔ اس مہم سے کرپشن کے محلوں میں زلزلہ طاری ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہی وہ حقیقی آگاہی مہم ہے جس سے انکے محل زمین بوس ہوسکتے، فردٹوفرد منتقل ہونے والی یہ آگاہی مہم انکی نیندیں اڑاچکی ہے کیونکہ انکی نمبرداری کو اب دھچکا لگنے والا ہے۔ کسی گائوں کا کرپٹ اور بدمعاش نمبردار اپنے گائوں میں ایک سکول کیوں تعمیر نہیں ہونے دیتا وجہ صرف یہی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اس سے شعور پھیلے گا اور لوگ اس کے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگےاور اس کی نمبرداری اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ پاکستان میں بھی پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ کو ہراساں کرنے کا عمل جاری ہے وہ ادارے جو نبی محترمﷺ کی حرمت کی حفاظت کے لیے عملی اقدام نہ کرسکے وہ"شاہ" کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے میدان میں کود پڑے اور سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پاکستان کے کرپٹ نمبرداروں کے پاؤں تلے سے اس مہم سے زمین سرک چکی ہے اس مہم کی کامیابی کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس کا ہراول دستہ نوجوان ہیں اور نوجوان جب کچھ ٹھان لیتے ہیں تو کوئی دیوار انکے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔ ایک بات عرض کردوں اب یہ مہم فروٹ فروشوں تک محدود نہیں بلکہ ہر کرپٹ کے دن گنے جاچکے جس نے پاکستان کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس مہم کے خلاف کچھ نادان یا یوں کہ لیجیے کچھ نرم دل رکھنے والے احباب بھی سرگرم ہوچکے ہیں ۔اور تو اور پیپسی کے خلاف مہم زور وشورسے چلانے والے کچھ احباب اس کے خلاف صف آراء ہیں۔ انکا مؤقف ہے کہ اس سے غریب ریڑھی والے کا نقصان ہوگامگرہم تو دیکھ رہے کہ ہوش منڈی مالکان اور آڑہتیوں کےبھی اڑے ہوئے ہیں وہ اس مہم سےبچاؤ کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ ایک دن کی ہڑتال کروڑوں کا نقصان کرڈالتی اور یہ تو پھر 3 دن کامسلسل بائیکاٹ ہے۔ اس مہم کے مخالفین یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ عید کی شاپنگ کا آغاز ہونے والا ہے مہنگے ملبوسات اور جوتوں کے ساتھ دیگر اشیاء بھی مہنگے داموں خریدے جائیں گے تو اس کا بائیکاٹ کیوں نہیں ؟انکی یہ دلیل ظاہر کرتی کہ وہ کس طبقے کی نمائندگی کررہے ہیں کیونکہ یہاں غریبوں کو روٹی کے لالے پڑے ہیں اور مثالیں بیش قیمت ملبوسات کی دی جارہی ہیں۔ ہم یورپ کی صبح وشام مثالیں دیتے نہیں تھکتے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یورپ کے کئی شہروں میں ایسی بن بلائی مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف سب نے بائیکاٹ کے کامیاب تجربے کے بعد منافع خوروں کوشکست دی۔ اب یہاں لوگ یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ غریب کو تو چونکہ پہلے ہی پھل میسر نہیں تھا تو اب وہ بائیکاٹ کرکے ڈرامے بازکا کردار ادا کررہاہے۔ گویا ظلم سہتے جائیں اور لفظ "آہ" بھی نہ نکالیں واہ ری قسمت۔ ریڑھی بانوں کا مؤقف یہ ہے کہ چونکہ پھل منڈی میں بہت مہنگے ملتے ہیں تو سستے کیسے فروخت کرسکتے ہیں بلکہ گاہکی کم ہونے کی وجہ سے ہماری سیل نہیں ہوتی کم مارجن پر بھی فروخت کرنے پر بمشکل گزارا ہوتا ہے اور الٹا گاہکوں کے طعنے بھی سننے کو ملتے۔حکومت کو چاہیے کہ قیمتوں کو کنٹرول کرے تاکہ ہر خاص و عام رمضان میں پھل خرید سکے اور ہمارا چولہا بھی گرم رہے۔ پاکستان میں پیپسی ، اسرائیل اور قادیانی مصنوعات کی بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی گئیں وہ کس حد تک کامیاب ٹھہریں اس کا تجزیہ آپ بخوبی کرسکتے۔ میں بطور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ اس جدوجہد پر خود کو مطمئن پاتا ہوں کہ پاکستان کی قوم خاص کر نوجوانوں میں شعور بیدار ہوچکا ہے جس کا واضح ثبوت یہ ایک چھوٹی سی مہم ہے۔ یہ ایک وارننگ الارم کی حیثیت بھی رکھتا ہے ان نمبرداروں کے لیے جو قوم کو غلام بنا کررکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اب ان کی نمبرداری کے دن گنے جاچکے ہیں۔

G.Farid Razzaqi
About the Author: G.Farid Razzaqi Read More Articles by G.Farid Razzaqi: 15 Articles with 10152 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.