تعلیم کے سودا گر

جاوید ملک /شب وروز
وہ جب پاکستان بار کونسل کی سیڑھیاں اُتر رہا تھا تو اس کی حالت دیدنی تھی ۔ ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح وہ تھکے تھکے قدموں سے آگے بڑھ رہا تھا ۔اس نے اپنے دوستوں کی طرف دیکھا لگ بھگ سبھی کی حالت اس جیسی ہی تھی کرب تو جیسے سبھی چہروں پر نقش ہوچکا تھا صبح تک جن آنکھوں میں امید کے دیئے جل رہے تھے اب ان آنکھوں میں بے بسی کے سائے ،مایوسی کے بادل اور سب کچھ چھن جانے کا خوف تھا ۔ ان کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی قانون کی ڈگریاں آج کا غذ کا ایک ٹکڑا بن گئی تھیں ۔سب کے دکھ سانجھے تھے لیکن ان دکھوں کے پہلوں میں سانس لیتی کہانیاں علیحدہ علیحدہ تھیں۔

وہ راولپنڈی کے نواح میں روات کے قریب ایک گاؤں میں رہتے تھے ،باپ زمینداری کرتا تھا ، زمین تھوڑی تھی مگر اتنی ضرور تھی کہ وہ عزت سے دووقت کی روٹی کھا سکتے اور زیادہ اچھی تو نہیں لیکن مناسب زندگی گزار سکتے تھے ۔وہ اپنے باپ کا اکلوتا چشم وچراغ تھا اس کے بعد دو چھوٹی بہنیں تھیں ان کے باپ نے بہت محنت کی مگر اپنے بچوں کو خوشحال زندگی دی اس نے خود روکھی سوکھی کھالی مگر اسے مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں پڑھایا اس کے سارے خوابوں کا محور وہ ہی تھا ۔

وہ اس وقت نویں جماعت میں تھا جب اس کا باپ چل بسا ۔ اس کا باپ صبح سویرے بھلا چنگا کھیتوں کی طرف گیاتھا مگر دو ہی گھنٹوں بعد اس کی لاش واپس گھر آئی ۔ گاؤں والوں نے بتایا کہ اچانک دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ وہ دل جو ان کیلئے دھڑکتا تھا آج دغا دے گیا تھا ۔ باپ کا سایہ سر سے کیا اُٹھا دنیا نے نظریں ہی پھیر لیں ۔برادری میں زمینوں کی حدبندیوں اور تقسیم پر جھگڑے تو سالوں سے تھے مگر اب ان کو موقعہ مل گیا ۔ ایک بیوہ اور تین یتیم بچے کس کس کا مقابلہ کرتے آخر کار ہمت ہار گئے ۔ ساری زمین تو رشتہ دار ہڑپ کرگئے سر چھپانے کو چھت بچی تھی اس پر ان کے چچا نے دعوی کردیا بیوہ عورت کو اپنے ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کو لے کر بے سروسامانی کے حالت میں گاؤں چھوڑنا پڑا ، اس کی ماں کے پاس کچھ زیورات بچے تھے وہ اس مشکل وقت میں اکسیجن بن گئے ۔انہوں نے راولپنڈی کے ایک سستے علاقے میں دو کمروں کا مکان کرایے پر لے لیا ۔یہ ہی وہ لمحہ تھا جب اس کی ماں نے اپنے بیٹے کو وکیل بنانے کا عزم کیا ، اس نے ماں کو بہت سمجھایا کہ وہ محنت مزدوری کرلے گا اپنی ماں اور بہنوں کو پال پوس لے گا مگر آخر کار اسے ماں کی ضد نے ہرادیا ماں نے اسے قسم دی کہ وہ قانون پڑھے گا اور کالا کوٹ پہن کر اپنی برادری سے اپنا حق چھین لے گا ۔

اس کی ماں نے بہت محنت کی لوگوں کے گھر وں میں برتن مانجھے ، جھاڑو پونجا کیا ، گھر میں رات گئے تک سلائی میں جتی رہتی مگر اس نے اس کی تعلیم کا سلسلہ نہ ٹوٹنے دیا ۔ اس نے گریجویشن میں اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی اب اسے ماں کی خواہش پوری کرنا تھا اس نے دوستوں سے مشورے کیئے اور کسی نادان کی صلاح مان کر میزان لا ء کالج میں داخلہ لے بیٹھا ۔ لڑکپن میں ہی یتیمی کا دکھ جھیلنے اور مصائب کے بوجھ تلے دبے اس نوجوان کو تعلیمی سوداگروں کی فنکاریوں کا کوئی اندازہ نہ تھا ۔ اس نے تو جی لگا کر پڑھا اور تین سال بعد امتیازی نمبروں سے قانون کی ڈگری حاصل کرلی جس روز اس کا نتیجہ آیا برسوں بعد اس کے گھر میں خوشیاں چہکی تھیں امیدوں کی ٹوٹتی سانسیں بحال ہوئیں تھیں اور آرزوؤں نے بھنگڑے ڈالے تھے ۔

مگر یہ خوشیاں عارضی ثابت ہوئیں ۔ اس سمیت اس کے سارے کلاس فیلوز کے سر پر پہاڑ اُس وقت گرا جب انہیں پنجاب بار کونسل نے یہ کہہ کر ممبر شپ دینے سے انکار کردیا کہ ان کے کالج کا جن دو یونیورسٹیوں سے الحاق تھا ان کو قانون کی ڈگری کرانے کا اختیار ہی نہ تھا ۔وہ کالج یونیورسٹی اور ایچ ای سی کے گھن چکروں میں الجھ کر رہ گئے ۔آج جب پاکستان بار کونسل نے بھی ان کی التجا کو رد ی کی ٹوکری میں ڈال دیا تو ان کے دامن میں ریزہ ریزہ خوابوں کی کرچیوں کے سوا کچھ نہ بچا۔

اس سے قبل کے مایوسیوں کے اندھیرے مزید گہرے ہوتے قدرت کو رحم آگیا ۔بے بسی کی تصویر بنے ان نوجوانوں کو شیخ احسن الدین ایڈوکیٹ کی صورت میں امید کی ایک کرن مل گئی ۔شیخ احسن الدین ایک منجھے ہوئے قانون دان ہیں برسہا برس تک اٹک بار کے صدر رہے بعد ازاں ہائی کورٹ بار کے صدر اور سپریم کورٹ بار کے بھی عہدیدار رہے آج کا سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار کی سیاسی پارٹی کے روح رواں ہیں شیخ احسن الدین نے ان نوجوانوں کے دکھ کو اپنا سمجھا اور سپریم کورٹ اس قدر جم کر دلائل دیے کہ اعلیٰ عدلیہ کو مجبور کردیا کہ وہ پاکستان بار کونسل کو از سر نو اس اپیل کا ہمدردانہ جائزہ لینے کا حکم صادر کرے ۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد شیخ احسن الدین کامیاب ٹھہرے اور یوں تین سو سے زائد طالب علموں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ گیا ۔

غالباً 2011ء کا یہ واقعہ آج مجھے دوبارہ اس لیئے یاد آیا کہ میں کئی روز سے نیشنل پریس کلب میں کچھ نوجوانوں کو دیکھتا ہوں جن کے ہاتھ میں ایک اپیل ہوتی ہے وہ ہر رپورٹر کو اس اپیل کی کاپی دیتے ہیں اور انصاف کے حصول کیلئے مدد کی درخواست کرتے ہیں ۔ حماد الحسن ،محمد وقاص ،سمر حیات ،علی رضا ،سعد عباسی ،ولی خان ، نصیر احمد اور دیگر طلباء پر مشتمل اس ٹولے کا سانحہ بھی اس کہانی جیسا ہی ہے ۔ ان طلباء نے جی بارہ میں قائم اسلام آباد کے ایک لاء کالج میں جنوری 2016ء میں داخلہ لیا ۔ اس لاء کالج کا الحاق بہاولپور یونیورسٹی سے تھا۔209کے قریب طلباء سال اول کے امتحان میں بھی بیٹھے مگر اب یونیورسٹی اس بنیاد پر ان کا نتیجہ جاری نہیں کررہی کہ ایچ ای سی نے مذکورہ کالج کو بلیک لسٹ کردیا ہے ۔
تعلیمی سودا گروں کے یہ تازہ شکار در در پر جارہے ہیں انصاف کے طلب گار ہیں مگر تاحال ان کی کوئی شنوائی نہیں ہے ۔ تعلیمی اداروں کی چار دیواری میں پروان چڑھنے والی نسل کسی بھی قوم کی امید ہوتی ہے لیکن ہم اپنے فرسودہ نظام کی بھٹی میں اپنا مستقبل جھونک رہے ہے ۔ ہر سال ایسے واقعات تواتر کے
ساتھ ہوتے ہیں مگر تعلیمی جعل سازی کے مرتکب اس مافیا کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا نہ ایچ ای سی میں بھاری تنخواہیں بٹورتے افسران سے کوئی پوچھتا ہے کہ ان کے قواعد اسی وقت کیوں حرکت میں آتے ہیں جب غریب طلباء اپنی جمع پونجی لٹا کر برباد ہو چکے ہوتے ہیں ۔سنا ہے کہ انتظامیہ اس کالج کے مالک کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے اجتنا ب برت رہی ہے کیونکہ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت کی ناک کا بال ہے جو خود انصاف کا ڈھنڈورہ پیٹتے نہیں تھکتی ۔
 

Hafeez Usmani
About the Author: Hafeez Usmani Read More Articles by Hafeez Usmani: 57 Articles with 40563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.