وزیر اعظم آزاد کشمیر اور سوشل میڈیا !

تقریبا پچیس سال پہلے مجھے پہلی بار اآزاد کشمیر پولیس کی سپیشل برانچ کی وہ رپورٹ دیکھنے کا موقع ملا جو روزانہ صدر ،وزیر اعظم اور چیف سیکرٹری کو پیش کی جاتی ہے۔سپیشل برانچ کی اس رپورٹ میں آزاد کشمیر کے تمام اضلاع میں اس دن ہونے والے اہم واقعات رپورٹ کئے جاتے ہیں۔ایک دن میں سپیشل برانچ کی رپورٹ دیکھ کر حیران ہوا ۔ اس رپورٹ میں کسی ضلع میں حکومت مخالف سیاسی جماعت کے ایک مقامی جلسے کی روئیداد لکھی ہوئی تھی۔جلسے کے ایک مقرر کی تقریر کی اہم باتیں رپورٹ کرتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت کی ایک اہم شخصیت کو دی جانے والی گالیاں بھی رپورٹ کی روئیداد میں تحریر کی گئی تھیں۔میں نے سپیشل برانچ کے متعلقہ ایک افسر سے اس بارے میں استفسار کیا کہ ''رپورٹ میں مقرر کی طرف سے دی جانے والی گالیاں اصل طور پر کیوں لکھی گئی ہیں،رپورٹ میں یہ بھی لکھا جا سکتا تھا کہ اس نے ۔۔۔۔۔ کو گالیاں دیں''۔اس پر سپیشل برانچ کے افسر نے کہا کہ اگر رپورٹ میں یہ لکھا جائے کہ فلاں نے ۔۔۔۔ کو گالیاں دیں تو اس سے متعلقہ شخصیت کو یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ ان کے خلاف کس طرح کی بیہودہ زبان استعمال کی گئی ہے، متعلقہ شخصیت کو درست اور مکمل معلومات فراہم کیا جانا ضروری ہے ۔مجھے شعبہ صحافت میں32سال ہو چکے ہیں اور میں درست،مکمل اور ذمہ دار رپورٹنگ کی اہمیت اورافادیت سمجھتا ہوں ،جو اب ہماری صحافت میں کم ہی نہیں بلکہ ناپیدہے۔

وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے اپنی حکومت کے قیام کے بعد اسلام آباد میں صحافیوں کے ساتھ ایک نشست میں اپنی وزارت عظمی کے پہلے دور کے حوالے سے کہا کہ اب میں ہر معاملے میں غصے میں آ کر کام نہیں کروں گا۔ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان حکومت میں آنے سے پہلے بھی سوشل میڈیا پہ غیر اخلاقی بات چیت کے چلن سے نالاں تھے۔ فیس بک پہ اس پست علم و اخلاق کے رجحان کے شاکی رہتے اور اپنی اس رائے کا اظہار بھی کرتے تھے۔گزشتہ دنوں مظفر آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے سوشل میڈیا کے منفی رجحان پر سخت تنقید کرتے ہوئے سوشل میڈیا کو 'گٹر'' سے تعبیر کیا۔اسی دوران وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے 'نیوز لیکس' کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر سرکاری کنٹرول سے متعلق کاروائی شروع کی۔تقریبا دس افراد کو 'ایف آئی اے' کے ذریعے طلب/گرفتار بھی کیا گیا۔اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی ہدایت پر آزاد کشمیر میں بھی سوشل میڈیا سے متعلق سرکاری تادیبی کاروائی سے متعلق قانون سازی کا عمل شروع کیا گیا ہے۔دریں اثناء یہ خبر بھی آئی کہ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے فیس بک،سوشل میڈیا کا استعمال بند کر دیا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا پر ہمارے معاشرے کے کئی افراد بد زبانی،گال گلوچ کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ان کے خیال میں یہ اظہار کی آزادی ہے کہ وہ غیر اخلاقی طور پر بات کریں۔میرے خیال میں اگر غیر اخلاقی بات کا نوٹس لیا جائے تو بد اخلاقی کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔اس سے لوگوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ ایسے غلط انداز میں بات کرنے سے ان کی بات کا فوری نوٹس لیا جائے گا۔کئی سیاسی ،قبیلائی اور علاقائی منافرت میںبھی ایسا کرتے ہوئے اپنے اور اپنے معیار کے دوسرے افراد کے جذبات کو تسکین پہنچاتے ہیں۔سابق وزیر اعظم چودھری عبدالمجید نے صحافیوں سے ایک ملاقات میں اس بات کا شکوہ کیا تھا کہ اخبارات میں شائع ہونے والے کالموں میں غیر اخلاقی انداز اپنایا جاتا ہے۔انہوں نے اس حوالے سے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ '' آپ کے والد کا کیا نام ہے'' اور دوسرا یہ کہ '' تیری ماں کے خصم کا کیا نام ہے''۔انہوں نے اسی بات پہ تقریبا آدھ گھنٹہ صحافیوں کو لیکچر دیا۔اس پر عرض کیا گیا کہ وزیر اعظم اخلاق کا خیال رکھنے والی تحریر کا کوئی نوٹس نہیں لیتے،شاید اسے پڑہنا بھی گوارہ نہیں کرتے، لیکن غیر اخلاقی تحریر نا صرف خاص طور پر پڑہتے ہیں بلکہ اس کا حوالے بھی دیتے ہیں،یوں اخلا قیات کی ترویج کی جا رہی ہے یا غیر اخلاقی انداز اپنائے جانے کی ترغیب دی جا رہی ہے؟
آج کے دور میں سوشل میڈیا اطلاعات و آگاہی کا ایک تیز ترین اور موثر ذریعہ بنتے ہوئے مخصوص اہداف پر کام کرنے والے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔یہ تو ہمارے انحطاط پزیر معاشرے کا طرز عمل ہے کہ ہم عمومی طور پرہر مفید شے کا بھی غلط استعمال کرتے ہیں۔یہاں جب نیا نیا 'وی سی آر ' آیا تو اس متعلق بھی اسی طرح کے اعتراضات سامنے آئے گا اس کا مقصد صرف غیر اخلاقی باتیں ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس کی افادیت اور اہمیت سمجھ آنے لگی۔اب سوشل میڈیا سرکاری اداروں،محکموں کے عوام سے موثر اور فوری رابطے کے ذریعے کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے اور پاکستان کے کئی سرکاری ادارے اور محکمے اس حوالے سے عوام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔دنیا کے کئی ملکوں کی کئی سیاسی ،حکومتی شخصیات بھی براہ راست سوشل میڈیا کے ذریعے شہریوں سے رابطے میں رہتی ہیں۔

غیر اخلاقی گفتگو صرف مخاطب کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر پڑہنے والے کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔اس سے ہمارا مجموعی معاشرتی تعارف بھی منفی انداز میں اپنی حیثیت ظاہر کرتا ہے۔سوشل میڈیا پر بد اخلاقی ،گال گلوچ کرنے والے کو نظر انداز کیا جاتا ہے،اسے ڈیلیٹ ،بلاک کیا جاتا ہے۔بلاشبہ یہ بات نہایت اہم ہے کہ سوشل میڈیا پہ کوئی بھی بات کرنے والے کو اپنی بات پر جوابدہ ہونا چاہئے۔کسی عام شخص سے گندی زبان کے استعمال پر بھی ایسا کرنے والے کو قانونی طور پر جوابدہ بنایا جانا ضروری ہے۔غلیظ زبان کا استعمال کرنے والے کو بذات خود ذمہ دار افراد کے سامنے پیش ہو کر اپنی بات کا جوابدہ بنایا جانا چاہئے۔کسی عام شخص کی طرح وزیر اعظم کے عہدے پر فائز شخصیت کے خلاف بھی اس طرح کا قابل مذمت عمل برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔تحمل،برداشت رہنما کا ایک خاصہ ہو تاہے۔ایک امریکی گورے کا کہا ایک جملہ یاد آتا ہے کہ '' میں کلرڈ نہیں ہوں کہ کسی کی بات سے اشتعال میں آ جائوں گا''۔

آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی کینڈا میں مقیم ایک معروف شخصیت راجہ حبیب جالب نے کافی عرصہ پہلے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ ان کے ایک دوست نے انہیں خط میں لکھا کہ تم کینڈا میں بیٹھ کر یہاں کے لوگوں پر بے دھڑک تنقید کرتے ہو کیونکہ تمہارا ان سے سامنا ہی نہیں ہوتا،اگر تم یہاں رہ کر ان لوگوں پر تنقید کرو تو تمہیں پتہ چلے گا کہ سامنے رہ کر تنقید کرنے کا کیا ردعمل ہوتا ہے۔گزشتہ روز سوشل میڈیا پہ برادرم عارف بہار کی ایک پوسٹ دیکھی جس میں انہوں نے پی ٹی وی آزاد کشمیر پہ ہونے والے ایک پروگرام میں میزبان کی حیثیت سے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان سے سوالات کئے۔عارف بہار لکھتے ہیں کہ '' اس سوال کے جواب میں کہ انہوں نے فیس بک کا استعمال کیوں ترک کیا؟ان کا کہنا تھا کہ اس کے استعمال کامقصد یہ تھا کہ عوامی مسائل براہ راست ان کے نوٹس میں آئیں ۔ایسا ہونے بھی لگا تھا ۔برطانیہ اولڈہم سے ایک نوجوان نے لکھا کہ ان کے گھر کے باہر نالی ابل رہی ہے اور سڑک کی مرمت می ضرورت ہے ۔میں نے متعقلہ محکمے کو ہدایت دی اور اس نوجوان کاکام ہوگیا ۔لیکن اب فیس بک پر غیر اخلاقی زبان کا استعمال بھی بڑھ گیا تھا ۔نکتہ چینی پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا مگر اخلاق سوز زبان کا استعمال ناقابل برداشت ہوتا ہے۔یہ اپنی طبعیت مکدر کرنے والی بات تھی''۔

میری رائے میں وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کے لئے ضروری ہے کہ وہ تجاویز،مسائل کے حل کے لئے فیس بک اکائونٹ جاری رکھیں اور اس پر ایک ذمہ دار شخص کو متعین کریں جو آمدہ تجاویز،مسائل کی باقاعدہ طور پر روزانہ رتحریری رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کرے۔گزشتہ دنوں ہی وزیر اعظم نے سرکاری افسران کو عوام سے اپنا رابطہ بہتر بنانے اور ان کے مسائل حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔اس حوالے سے بھی ہر محکمے کی طرف سے سوشل میڈیا کے ذریعے شہریوں سے قریبی رابطہ رکھتے ہوئے عوامی تشویش کے امور کو مخاطب کیا جانا ضروری ہے اور یہ عمل بہت موثر اور مفید ہو سکتا ہے۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے اپنی حکومت کے قیام کے بعد کئی بار کہا ''اچھے لوگ ہو ں گے تو اچھا کام ہو گا''۔یوں اس بات کی ضرورت واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ وزیر اعظم اپنی ٹیم،سٹاف کے معیار کو بہتر بنانے کے اہم معاملے پر توجہ دیں۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے تقریبا ایک سال کے عرصے میں کئی اچھے اقدامات بھی کئے ہیں لیکن وزیر اعظم کی ٹیم ان کو موثر طور پر پیش نہیں کر سکی جس سے ان کے کئی اہم کام،کارنامے بھی عمومی نوعیت کے اقدام بن کر رہ گئے ہیں۔ وزیر اعظم کے ساتھ مختلف شعبوں میں با صلاحیت اور قابل افراد کا مہیا ہونا اشد ضروری ہے کہ اس کے بغیر وزیر اعظم کی کارکردگی محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 613519 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More