من کی آواز

تحریر: زہرا تنویر،لاہور
چاہے دن کے اجالے ہوں یا پھر تاریک رات کے سناٹے چاند کی چاندنی ہو یا پھرسہانا موسم اگر من زندہ ہو تو ہی سب اچھا اور بھلا لگتا ہے۔ لیکن جب من ہی مر جائے تو نہ کوئی رنگ اور نہ ہی کوئی پہناوا بھاتا ہے۔ یہ من عجیب ہے۔ پورے جسم اور روح پہ ڈیرا ڈال کے بیٹھ جاتا ہے۔ خود پیاسا ہو تو جسم کو نڈھال کر دیتا ہے اور روح کو بے قرار۔ جیسے ہی سیراب ہوتا ہے جسم بھی توانا ہو جاتا ہے اور روح کا قرار بھی آ جاتا ہے۔ من کے بھیدی لوگ بھی اپنے اندر نجانے کتنے درد لے کے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اندر ہی اندر خود کو دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں کسی دوسرے کو خبر تک نہیں ہوتی۔

خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ اور وہ من جن کو یہ احساس چھو کر بھی نہیں گزرتا وہ زندگی کی لطافتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور بیچارے من کے پجاری زندگی کی تمام رونقوں سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔وہ اس ویران نگری میں یوں بسیرا کر کھ بیٹھ جاتے ہیں جیسے صدیوں پرانا ساتھ ہو۔ ہر وقت من کی پکار پہ دھیان لگائے رکھتے ہیں۔ من کی ایک ہی آواز ہوتی ــ ’’میں ‘‘اور بس ’’میں‘‘۔ ـ

من بھی بہت ظالم چیز ہوتاہے بندے کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ نہ اپنا نہ کسی دوسرے کا۔ جب تک یہ ’’میں ‘‘پوری نہ ہو بے قراری کا کرب پورے وجود پہ حاوی ہو جاتا ہے۔ نہ اپنا ہوش رہتا ہے نہ کسی دوسرے کا۔ اضطراب کا یہ عالم ہوتا ہے کہ دنیا کے میلے سے دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ اندر سے بس کرب بھری ایک ’’میں‘‘کی آواز سنائی دیتی۔ جو یہی سوال کرتی ہے کب میرا یہ مرض ختم ہو گا۔ اب بھلا من کا مالک کیا جانے کب من کی آس پوری ہو گی۔ جانتا ہوتا تو کبھی اپنے من کو اس راہ کا مسافر نہ بناتا۔ مسافر تو منزل کی تلاش میں در بدر مارے مارے پھرتے ہیں۔ کچھ منزل کو پا لیتے ہیں اور کچھ راستے میں کہیں کھو جاتے ہیں ۔اب یہ من کیا سمجھے ان رمزوں کو وہ تو ضدی ہے ۔

انسان خود پرستی کا شکار ہوگیاہے۔ اپنے علاوہ اسے کچھ دیکھائی اور نہ کسی کا کوئی غم سجائی دیتا ہے۔ حقیقت تو یہ تھا کہ ہمیں ایک دوسرے کے احساس کو سمجھنے کی ضرورت تھی۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو بانٹنے اور پھر مل کراس کا مدوا سوچنا چاہیے۔ ہمیں اپنے اردگرد کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ کسی کو ہماری ضرورت تو نہیں۔ اگر کبھی ہم سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے اور کسی کا دل دکھائیں تواپنے من کو مار کر اس کے من کو پہنچنے والی ٹھیس پر فورا معذرت کرلیں۔ایسے بے شمارکام ہیں جو ہماری آنا ہمیں نہیں کرنے دیتی مگر ہمیں کرنے چاہیں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1027125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.