آزاد کشمیر و چوبیس اکتوبر

ہفت اقلیم میں بسنے والی برادریوں کا اپنی تہذیبی دائرہ میں رہ کر اجتماعی سطح پر تہوار منانا تاریخ انسانی کی طرح قدیم فلسفہ کا ہمنوا و ہم رکاب رہا ہے جب بھی انسانیت بحیثیت مجموعی کسی بھی قہر سے دو چار ہوئی تو اس قوم نے پیشی آمدہ ہولناکی کو بھولنا چاہا بھی تو وہ بھول نہ سکی کرب و ازیت کی ٹھیس نے انسانیت کو وہ دن یاد کروایا جیسا کہ ہمارا آٹھ اکتوبر ہے بعینیہ جب کوئی قوم سیاسی غلامی، معاشی تنگی، سماجی تفرقہ بازی، برادری ازم اور علاقائی عصبیت کی دلدل میں پھنس جاتی ہے جسکے نتیجہ میں اجتماعی ترقی رک جاتی ہے ایسے تنزل کے ادوار میں مشیت ریزی کی جانب سے کچھ صالح کردار افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے جو قوم کو اس اجتماعی جمود کے حصار سے نکال کرمعاشرتی ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں اور جس دن قوم اس تنزل اور غلامی کا طوق اتار پھینکتتی ہے وہ دن اس کا یوم آزادی کہلوایا جاتے ہے پھر ہر سال قوم اپنے ان محسنوں کو جہنوں نے انھیں سیاسی غلامی و ظلم معاشی تنگی و بھوک سے اور سماجی و معاشرتی تفرقہ بازی سے آزاد کروایا ان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے ان کی بہادری اور شجاعت کے کارناموں کو یاد کیا جاتا ہے اور نئی نسل کو اسلاف کا تعارف کرایا جاتا ہے اس ابتدائی تمہید کے بعد اور بیان کردہ اصول و ضوابط کی کسوٹی پر ہم اگر چوبیس اکتوبر یوم آزادی کے دن کا تاریخ و جغرافیہ کے پس منظر اور موجودہ معروضی حالات کے تناظر میں غیر جانبدار مطالعہ کریں اور حالات و واقعات سے چشم پوشی نہ کریں۔ سماجی و عمرانی ترازو پر چوبیس اکتوبر کا جائزہ لیں تو بغیر کسی لگی لپٹی کے اپنی اجتماعی بے شعوری پر کف ندامت کے علاوہ اور کچھ میراث کی پوٹلی میں نظر نہیں آتا۔ آزادی کے نام پر ہم نے آزاد کشمیر و پاکستان کو سامراج، جاگیر دار اور سرمایہ دار کی دائمی غلامی میں گروی رکھ کر خوشی کے شادیانے مجلہ عروسی کی طرز پر سجا رکھے ہیں ساٹھ سالوں سے قوم جشن منا رہی ہے۔ مہنگائی کا، تفرقہ بازی کا، خود کش حملوں کا، تشدد کی تحریکوں کا، ظالمانہ سامراجی نظام کا، ننگا ناچ نچاتی معشیت کا اور غریبوں کی آہوں و سسکیوں پہ پرچم کشائی ، خود کشیو خود سوزی اور جسم فروشی کے معاشرہ میں آزادی کے نغموں سے قوم کو دھوکہ دینا سامراج و سرمایہ پرست کا پرانا آزمودہ مذہب اور طریقہ را ہے نو فیصد عوام تو بے چارے ظالم و جابر کے آگے تخت مشقی بنے ہوئے ہیں انہیں دلفریب نعروں اور ترنم کی گونج پہ جدھر چاہو پھیر لو مسئلہ تو اصل میں اہل دانش اور صاحب رائے کا ہے جب اہل قلم معرفت الہی ٰ سے عاری اور مخلوق خدا یا انسانیت سے غداری کی ٹھان لیں وہ سماج و معاشرہ آزادی کے فریب زدہ جالوں میں زیادہ پھنسایا نہیں جا سکتا ہے سرمایہ دار و سامراج اپنے اپنے آپ کو مکانات عمل کی گردش سے ہر گز نہیں بچا سکتا اس ملک کا مزدور اور کسان بیل، بیلچہ، اور کدال لیے ان فرعونوں کے سر اتارنے کسی بھی وقت اٹھ سکتا ہے اور یہ نوشتہ دیوار ہے۔ فطرت کا فیصلہ ہے یہ کاغذ کی ناؤ جو آخری سہارا ہے طاغوت کے پاس کہ وہ ایل قلم کو دولت و جوہر کی چھنکار اور پائل کی چھن چھن سے زیادہ دیر تک بہکا نہیں سکتا اب قوم کا ہر فرد حقیقی آزادی کے تصور کو جان چکا ہے قوم یہ بات جانتی ہے انیس سو سنتالیس کا انقلاب ہتوز تشنہ تکمیل ہے ہم نے اغیار سے جان چھڑائی لیکن اسکی پیداکردہ ایجنٹی نبام نے ہمیں دنیا جدید کے ساتھ چلنے سے روک رکھا ہے۔

چوبیس اکتوبر کا وجود چودہ اگست کے بطن کے ساتھ جڑا ہوا ہے اگر پاکستان آزاد نہیں تو ہم بھی دھوکہ اور فریب کی سیاست میں پھنسے ہوئے ہیں۔ چوبیس اکتوبر کے دن منافقت بھری مکالمہ بازی اور جہالت پر مبنی خود ساختہ سامراجی تاریخ بیان کر کے ہم سامراج کے تسلط کو دوام نہیں بخشنا چاہتے بلکہ ہم خطے کو تشدد ،تعصب ،معاشی طبقاتی تقسیم سے نکال کر جمہوری آزادی کا اصل رخ دکھانا چاہتے ہیں جس کا نفاز ہمارے ہزار سالہ دور عروج میں رہا ہے جہاں ہمارا تعلق انسان اور انسانی سماج کے ساتھ انسانی رشتوں کی بنیاد پہ قایم تھا جبکہ آج گروہیت ،مسلک ، اور فرقہ کی بنیاد پر ہم اپنا وجود قائم کیے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے فساد فی الارض کی جس نے خشکی و تری کی رونقوں اور شادابیوں کو ویرانوں میں بدل رکھا ہے گھروں کی رونقیں قبرستانوں کے سکوت میں بدل گی ہیں۔ ہمارے نونہال ہمیں مجرم اور لٹیرا سمجھتے ہیں ہمیں اپنی خوشیوں کا ماتم کدہ قرار دیتے ہیں جب اتنی خستہ حالی ہو روحانی و جسمانی ترقی تنزل کا شکار ہو تو چوبیس اکتوبر کی مصنوعی جھنڈیاں، جزباتی نعرے، خود فریبی پر مبنی مستقبل کی تک بندیاں جہاں ساٹھ سالوں سے ہمیں اسفل السافین سے باہر نہیں نکال سکتی ہیں وہاں آئندہ بھی شرمندہ تعبیر ہونے کے سپنے دیکھنے بے وقوفی کے قومی اعزاز کے ساتھ گیند بک میں اپنے نام کی تختی لگانے کی مشق امتحان ہے ہاں یہ بات سچ ہے کہ سچ کڑوا اور تلخ ہوتا ہے اگر اسکی کڑواہٹ برداشت نہیں تو سامراج و سرمایہ دار جھوٹ کے شریں لڈو تل کر لا رہا ہے وہ کھاتے جاؤ اور بے شعوری سے غلامی کے نغمے گنگناتے جاؤ-
Zia Sarwar Qurashi
About the Author: Zia Sarwar Qurashi Read More Articles by Zia Sarwar Qurashi: 43 Articles with 42238 views

--
ZIA SARWAR QURASHI(JOURNALIST) AJK
JURA MEDIA CENTER ATHMUQAM (NEELUM) AZAD KASHMIR
VICE PRESIDENT NEELUM PRESS CLUB.
SECRETORY GENERAL C
.. View More