بزرگان دین اور ہم

ہم جزوی طور پر حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر دھماکے کی ذمہ داری محترم جناب نواز شریف صاحب پر سمجھتے ہیں۔ جب داتا دربار میں دھماکے ہوئے تو انہوں نے آل پارٹی کانفرنس بلوانے کا اعلان کیا اور پھر چند دنوں بعد جب شور کم ھوا تو لندن بھاگ آئے۔

مغربی دنیا کے حکمراں اگر دہشت گردوں کو للکارتے ہیں تو اپنے گھر ملک سے دور بیٹھے دشمن کو، مگر ہم یا ہمارے حکمراں کیونکر اپنے ہی گھر کے تیسرے فرد کو للکارتے ہیں، بھلا یہ رویہ مناسب ہے۔ ہمیں اپنے رویے پر غور کرنا چاہیے گھر کا تیسرا فرد اگر گمراہ ہو جائے تو کیا یہ مناسب طریقہ ہے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم مسلمان بھی ہیں اور ہماری ذمہ داریوں کے پیمانوں کا ظرف تنگ کیونکر ھو سکتا ہے۔ اگر اس طرح کی بیمار ذہنیت کے لوگ آپ کی سوسائٹی میں پیدا ھو جائیں تو ان کے علاج کا سوچنا چاہیے نہ کہ مختلف قسم کے با اثر پلیٹ فارم سے فتوے جاری کرتے پھریں۔ انتقامی ذہنیت کی آگ کو کیسے ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے ہمیں اور ہمارے خاص کر دانش ور مذہبی پیشواء اور ارباب اختیار کو چاہیے کہ ان کو گلے لگانے کی باتیں کریں پیار محبت کی زبان میں بات کریں چاہے ان کا نیٹ ورک کہیں سے بھی ھو مگر استعمال تو اپنے ہی سادہ لوح بچے ھو رہے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جن بزرگوں نے اپنی زندگیوں کا اصل مقصد پا لیا تھا اور انسانیت کی فلاح و نشونما کے لیے اپنا ہر پل عبادت میں گزارا محبت و امن کا ہمیشہ درس دیا اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنوں اور غیروں کے لیے مہربان اور شفیق رہے اور انہیں گلے لگائے رکھا، زندگی گزارنےکا اصل ڈھنگ سکھایا۔

آج ان کے مزارات عتاب کا نشانہ ہیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں یہ قدرت کی طرف سے اشارے ہیں کہ ہم اپنی نسل کو آگ کے شعلوں کی طرف دھکیل رہے ہیں اور یہ ایسی آگ ہے جو صرف محبت کی برسات سے ہی بجھ سکتی ہے ہمیں اپنے رویوں پہ غور کرنا ھوگا ایک دوسرے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی راہیں تلاش کرنی ھوگی جن کی طرف فوری اقدامات کی ضرورت ہے جس سے ہمارے سارے مسائل مثلاّ سیاسی مذہبی گروہی معاشی ناہمواریوں جیسے سب حل ھوتے جائیں گے۔

مغربی دنیا تو اپنے حال میں مست ہے جب انہیں ذرا خدشہ لگتا ہے تو واویلا شروع کر دیتے ہیں، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دشت گردی کا راگ پہلے یہودیوں نے گا یا تو وہ کامیاب رہے، پھر مغرب نے گایا تو کامیاب رہے، مگر اب یہ راگ ہم بڑے سر کے ساتھ گا رہے ہیں یاد رہے یہ نہ ہمارا تھا اور نہ ہمارا ہے اس راگ کی الاپ بند کرنے سے اس کی گونج بھی جاتی رہے گی ہم سکیورٹی جتنی بڑھائیں گے اتنا ہی خوف بڑھے گا، ہمیں حساس محبت کو بڑھانا ہے جیسے اپنے پیاروں کو دیکھتے ہی چہرے جگمگانے لگتے ہیں جیسے ماں کے لیے سب بچّے اسے پیارے ھوتے ہیں، ہمیں اپنے ملک کو مغربی طرز کی سوسائٹی نہیں دینی ہمیں وہ سوسائٹی دینی ہے جو ہمارے بزرگوں نے بنائی تھی جس میں احساس ذمہ داری اور پیار ومحبت کا رواج اور تہذیب تھی۔

جب زیادہ مال داراور عیش پسند ھو جاتا ہے تو ہر وقت اسے یہ ساری چیزیں کھو جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے اسی تشویش میں وہ اپنے دشمن پہ دشمن بناۓ جاتا ہے مغربی تہذیب تو صدیوں سے اس کا شکار تھی اور ہے مگر اب ہم نے بھی اپنی سوسائٹی کو بھی اسی رنگ میں رنگنا شروع کر دیا ہے جس سے مجبور ھو کریہ نعرہ لگانا پڑتا ہے '' سب سے پہلے پاکستان '' پھر پاکستان ٹوٹنے کا مسخرہ پن بھی کرتے ہیں اور ہر تیسرے شخص میں دشمن تلاش کرتے ہیں اور اپنوں کو غیر اور غیروں کے ساتھ منافقت ہم اپنے ایمان اور قومی تشخص اسلاف کی روش رندانہ کو بھولتے جا رہے ہیں۔

دنیا میں بہت درد ہے تکالیف ہیں مسا ئل ہیں۔ لوگوں کا اپنے ربّ سے ٹوٹا ھوا تعلق جوڑنا ہے یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے کے لیے اہم ھونگے ایک دوسرے کو اپنے قریب کریں گے ساتھ نبھاہیں گے اس زمین پر جتنا حق ہمارا ہے اتنا ہی دوسروں کا بھی ہے

ختم نبوت کا اعلان ھو چکا ہے اب ہم امت ہیں اور اسوۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کائنات کے گوشے گوشے کو روشن کرنا ہے پیار محبت کی شمعیں جلا کر ان اندھیروں کو روکنا ہے جو ہمارے درمیان بڑھتے جا رہے ہیں۔

جمہوریت کا یہ مطلب تو نہیں کہ گدھوں کی جماعت جنہوں نے سب کا بوجھ اٹھانا ہے اسلامی جمہوریت میں فرد سے فرد کے گہرے ربط کو تسبیح کے دانوں کی طرح پّرو دیا جاتا ہے اور پھر امّر خداوندی کی پھونک ہر شخص کے کردار و عمل کے پھولوں سے پوری دنیا کے چمن کو مہکا دیتی ہے۔

ہمارے روزمرہ کے معاملات میں ہمارا دین ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ بھول چوک تو ھوتی رہتی ہیں مگر جوانمردی کا شیوا ہی یہی ہے کہ ہر فرد کو زندگی کو سنوارنے کے احسن موقع فراہم کرنے چاہیے۔ انسان کی پہچان جانوروں سے نہیں بلکہ انسانوں کے درمیان رہ کر ہی ھوتی ہے ہمارے ذرائع ابلاغ کو چاہیے کہ ریاست کے انگ انگ کے درد اور چیخ وپکار آہ و فریاد حد سے بہت بڑھ چکی ہے اب دوا کا بھی بندوبست کرنا چاہیے۔ بجھتی شمعیں دیکھا کر روشنی کی امید رکھنا مشکل ھوتی ہے۔ روشن دیّوں کے گرد فانوس بن کر اپنے معاشرے کو کہکشاں کے روپ میں پیش کرنا چاہیے۔
Tanveer Hussain
About the Author: Tanveer Hussain Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.