سوات ۔۔۔ماضی، حال اور مستقبل

پاکستان گزشتہ چند سالوں سے دہشت گردی کی جس آگ میں جل رہا ہے اس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کوئی بڑا تو بڑا چھوٹا شہر بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ سکتا۔ لیکن جن شہروں اور علاقوں نے اس آفت سے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے وہ صوبہ خیبر پختونخواہ ہے۔ حالانکہ ا س علاقے کو خدا نے جس قدرتی حسن سے نوازا ہے وہ خزانہ بہت کم جگہوں کو عطا کیا گیا۔

عرصہ پہلے جب میں نے اپنے بچپن کے کچھ سال سوات میں گزارے تو اْس وقت کوئی ان حالات کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا جن سے سوات ماضی قریب میں گزرا ہے۔ سوات پڑھے لکھے لوگوں کا ایک پر امن شہر تھا۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا کہ آپ سوات میں ہوں اور سیاح نہ دیکھیں ۔لیکن کچھ سال پہلے بالکل اچانک ہی سوات دہشت گردوں کی زد میں آگیا۔ نفاذ شریعت یہاں کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ تھا لیکن اس کیلئے انہوں نے کبھی تشدد کا راستہ نہیں اپنایا۔ وہ بذات خود اسلام کے اصولوں پر عمل کرتے تھے لیکن دنیاوی تعلیم کو بھی پوری اہمیت دیتے تھے۔ میں نے کالام کے راستے میں ایک ایسا ہائی سکول بھی دیکھا تھا جہاں دسویں جماعت میں صرف ایک طالبعلم تھا لیکن سکول اس کیلئے بھی موجود تھا۔ لڑکیوں کے پڑھنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ دور دراز سے لڑکیاں نہ صرف سیدو شریف اور مینگورہ کے ہائی سکولوں میں پڑھنے آتی تھیں بلکہ پشاور اور ملک کے دیگر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سوات کی متعدد طالبات کی موجودگی وہاں کے لوگوں کی علم دوستی کا ثبوت تھا ۔ اسے ہماری حکومتوں کی کمزوری ہی کہیے کہ ایک ترقی یافتہ شہر ان کی موجودگی میں تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ ہم میں ایک برائی یہ ہے کہ ہم برائی کو پنپنے دیتے ہیں اور جب وہ اپنی جڑیں پھیلا دیتی ہے تو تب ہم اسکی بیخ کنی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہرحال سوات نے ایک بہت شدید اور بڑے فوجی آپریشن کا سامنا کیا۔ اس وادی نے تو یقیناً اپنے درودیوار پر اس سختی کو سہا، پاک فوج نے بھی اپنے بے شمار بہادر سپاہی اور آفیسر اس جنگ میں کھو دیئے۔

ایک لمبے عرصے بعد ایک لیکچر کے سلسلے میں سوات جانا ہوا تو ایک انجانا خوف دل میں تھا کہ معلوم نہیں اب بھی سوات اپنے اصل کی طرف واپس لوٹ چکا ہوگا یا نہیں اور کیا خوف اب بھی اس وادی کے درودیوار پر چھایا ہوا ہوگا یا نہیں، کیا پر رونق بازار کھلے ہونگے یا نہیں۔ وقت تو شام کا تھا لیکن ہم جونہی سوات کی حدود میں داخل ہوئے شہر کی رونق کا احساس ہونے لگا۔ ایک جیتا جاگتا سوات ہمارے سامنے تھا۔ ہاں ایک چیز جو غیر معمولی لگی وہ ہر تھوڑے فاصلے پر فوجی سپاہیوں کی موجودگی، کہیں کہیں چوکیوں میں اور زیادہ تر ویسے ہی ڈیوٹی پر موجود تھے۔ اگلی صبح لیکچر کیلئے جانا ہوا تو سوات کے بھرے پرے پر ہجوم بازار اور خریدوفروخت میں مصروف لوگ اس شہر کے امن کا ثبوت تھے لیکن پھر کئی فوجی جوان نظر آئے۔ مرغزار جاتے ہوئے ایک فوجی گاڑی نظر آئی جسے بچوں، بڑوں اور بوڑھوں نے انتہائی گرمجوشی اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگا کر خوش آمدید کہا۔ تصویریں اتاریں اور ہاتھ ہلائے۔ یہ سب دیکھ کر یہی محسوس ہوا کہ طالبان کی دہشت سے نکلنے پر یہ لوگ مطمئین بھی ہیں اور خوش بھی۔ سوات کے درودیوار پر گولوں اور گولیوں کے نشانات اور کچھ جلے ہوئے سکول بھی نظر آتے رہے۔ ایک ایسا خالی گرلز سکول بھی نظر آیا جس کا نہ دروازہ تھا نہ کھڑکی اور عمارت پر آگ کے اثرات نمایاں تھے۔

سیدوشریف میں موجود بتکدہ کے کھنڈرات تک بڑی مشکل سے رسائی ہوئی کیونکہ اس کا اصل راستہ جو سوات میوزیم اور سرکٹ ہاؤس کے سامنے سے ہو کر جاتا ہے بند کیا گیا ہے۔ وہاں موجود آٹھویں جماعت کے ایک طالبعلم سے ملاقات ہوئی جب اس سے پوچھا کہ آخر طالبان ایک دم سے سوات میں اس قدر طاقتور کیسے ہو گئے؟ آپ لوگوں نے کیسے انہیں اتنا سپورٹ کیا؟ تو اس نے بتایا وہ شروع میں تو یہی کہتے تھے کہ اسلام پر عمل کرو اس کے اصول اپناؤ۔ یہ سب تو اچھا تھا لوگ ان کے ساتھ ہو گئے انہوں نے چندہ مانگا تو عورتوں نے اپنے زیور بھی دے دیئے کچھ نے خوشی سے کچھ نے مجبوراً اور اس کے بعد وہ اپنی اصلیت پر اتر آئے۔ اسلام کے مطابق چلنے کی بجائے اسے اپنے طریقے پر چلانے لگے اس بچے کے مطابق اس نے خود ذبح شدہ لوگ دیکھے۔ لیکن اب وہ خوش تھا کہ اس کی جان ان لوگوں سے چھوٹ چکی ہے۔

یہ تو وہ حالات ہیں جن سے سوات گزرا ہے، فوجی آپریشن کے اثرات بھی موجود ہیں اور سیلاب کی تباہ کاریاں بھی جا بجا نظر آرہی تھیں۔ لیکن کہیں پر سول ادارے کام کرتے نظر نہ آئے۔ جبکہ حکومت کو سوات کو ان تمام اثرات سے نکالنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ لیکن اب بھی فوج ہر جگہ پر مصروف عمل ہے۔ امن و امان سے لے کر تعمیر نو تک ہر کام میں فوج ہی مصروف ہے۔ سیلاب کے دوران ٹوٹنے والے پلوں اور سڑکوں کی بحالی بھی فوج کے حوالے ہے۔ ایسا ہی ایک پل راستے میں شموزئی کے مقام پر نظر آیا۔ جس کی تعمیر میں فوجی جوان مصروف تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ فوج کے فرائض میں ہی شامل ہے یا حکومت اور اس کے سول اداروں کے بھی کچھ فرائض ہیں۔ کیونکہ کم از کم ہمیں یہ لوگ کہیں بھی کام کرتے نظر نہ آئے۔ جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب حکومتی اداروں کو اپنی اپنی ڈیوٹی سنبھال لینی چاہیئے۔ اندرونی امن و امان پولیس کی ذمہ داری ہے اور تعمیر نو تمام متعلقہ اداروں کی، کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اب یہ ادارے اپنی اپنی ذمہ داری اپنے سر لے لیں اور سوات کے اہم ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو اپنے ووٹ بنانے کے ساتھ ساتھ پورے سوات کی تعمیر نو کیلئے کوشش کرنی چاہیئے۔ جس کیلئے ضروری نہیں کہ وہ حکومت کے فنڈز استعمال کریں بلکہ یقینا یہ تمام حضرات اگر بے شمار اثاثوں میں سے کچھ حصہ کسی بھی نیک کام میں لگا دیں تو یوں قطرہ قطرہ دریا بن جائے گا اور اینٹ اینٹ لگ کر شہر تعمیر ہو جائے گا۔

سوات پاکستان کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ہے۔ سیاحت یہاں کی بہت بڑی صنعت ہے جس سے نہ صرف خود سوات کے لوگ فائدہ اٹھاتے رہے ہیں بلکہ ملک میں بھی ایک کثیر زرمبادلہ آتا رہا ہے۔ اس صنعت کی طرف پھر بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ سوچا جائے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ درست ہوجائے گا تو وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ وقت کو قابو کرنے کیلئے انسان کو کوشش کرنا پڑتی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اور خاص کر حکومت خیبر پختونخواہ سوات کی تعمیرنو کی ذمہ داری پوری ذمہ داری کے ساتھ قبول کر لے۔ وہاں کے ٹوٹے ہوئے پل، سڑکیں، سکول اور ہسپتال اپنی تعمیر کیلئے حکومت کے منتظر ہیں۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 512183 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.