چھوٹی چھوٹی باتیں، بڑے بڑے دکھ

جس طرح چھؤٹی چھوٹی باتوں سے بڑی بڑی خوشیاں حاصل ھوتی ہیں، اسی طرح چھوٹی اور معمولی باتوں سے ہم دوسروں کی زندگی عذاب کر دیتے ہیں۔ تکلیف پہنچانے والی بات آپ کے لۓ اکثر نہ صرف معمولی ہوتی ہے بلکہ کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ آپ اس پر توجہ ہی نہیں دیتے اور اس معمولی سی بات کا کسی دوسرے کے دل ودماغ پر کیا اثر ہوتا ہے اس سے آپ کو اکثرو بیشتر کوئ غرض نہیں ہوتا۔ ہم ایسا سوچنے سے کیوں قاصر ہیں کہ دوسرے انسان بھی اسی مٹی سے بنے ہیں جس سے ہم بنے ہیں؟ وہی دل و دماغ، وہی ہاتھ پاؤں، سب کچھ تو وہی ہے۔ بس فرق ہے تو صرف سوچ کا ہے اور وہیں ساری خرابی ہے۔ اسی سوچ کی نظر سے ہم دوسروں کو دیکھتے ہیں۔ اگر وہاں خرابی ہو گی تو دنیا کی ہر چیز میں خرابی نظر آۓ گی یہاں تک کہ آپ فطرت میں بھی خامیاں نکالنے لگیں گے اور ہر وقت خدا سے بھی نالاں نظر آئیں گے۔ بساً اوقات تو یہ ہوتا کہ نعوذباللہ خدا کو بھی مشورہ دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ ایسی بے شمار باتیں ہیں جو ہم جانے انجانے خود سے ہا پھر دوسرون سے اس کا اظہار وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ خدا کی بنائ ہوئ کائنات کی خوبصورتی پر غور کرنےکے بجاۓ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہم نے کہاں، کب اور کیسے کسی کو نیچا دکھانا ہے۔ دوسروں کے حقوق کو پامال کرتے ہوۓ ہم نے کیسے ان کو قدموں تلے روندنا ہے، کامیابی کی منزلیں دوسروں کی محنت سے بنائ ہوئ سیڑھیوں پر چڑھ کر کیسے طے کرنی ہیں، لوگوں کے ارمانوں کا خون کر کے اس سے اپنے لۓ کیسے دیا جلا کر روشنی کرنی ہے۔ محنت دوسروں نے کرنی ہے مگر پھل ہم نے کھانا ہے۔ اگر بد قسمتی سے خدا نے آپ کو کچھ اختیارات دے ہی دۓ ہین تو آپ خدا کی بنائ ہوئ اس مخلوق، انسان کا جینا تو نہ دوبھر کریں۔ آپ کے اختیارات کے ناجائز استمعال کے بوجھ تلے کون کون، کیسے کیسے اور کتنی کتنی تکلیفیں اٹھا رہا ہےاس سے آپ کو کوئ غرض نہیں۔ آپ اپنے اختیارات کو انسانیت کی بھلائ کے بجاۓ بربادی کے لیۓ استمعال کو کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ آپ کا ذہن یہ سوچنے سے کیوں قاصر یے کہ اگر خدا نے آپ کو چند اختیارات دے ہی دۓ ہیں تو آپ کیوں نہ ان کو لوگوں کی بھلائ کے لۓ استمعال کرلیں؟ ایسا کر لینے سے آپ کے اختیارات میں کوئ کمی نہیں آ جاۓ گی کیوں کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں جب کہ غم بانٹنے سے گھٹتا ہے۔ انسان کے ہزاروں چھوٹے چھوٹے عمل ایسے ہوتے ہیں جو وہ بغیر کسی محنت کے دوسروں کی بھلائ کے لۓ کر سکتا ہے۔ مگر انسان اتنا خود غرض ہے کہ اس کو اپنی ذات سے بڑھ کر کوئ عزیزنہیں۔ اپنی اس خود غرضی کے آگے وہ اپنے والدین کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔ بوڑھے والدین کا سہارا بننے کے لۓ ان کی خدمت تو دور کی بات، ان کو پاس رکھنے کے لۓ بھی تیار نہیں اور ہر بیٹا دوسرے بیٹے کی طرف یہ فرض نبھانے کے لۓ دیکھتا رہتا ہے۔ جب کوئ بھی ان کی ذمہ داری اٹھانے کے لۓ تیار نہیں ہوتا تو انہیں اولڈ ہاؤس پھینک دیا جاتا ہے جہاں وہ رات کی تنہائیوں میں اکیلے بیٹھ کر روتے ہیںاور یہ سوچتے ہیں کہ کہاں میری تربیت میں کوئ کمی رہ گئ تھی، کون سا وقت ایسا تھا جب میں نے اپنے دل کے ٹکڑے اسے نہیں کھلاۓ یا میں نے اپنی جان نچھاور نہیں کی پھر کیا اس کا صلہ یہ تنہائ تھی؟ بد قسمتی سے قسمت نےکسی بوڑھے اور لاچار ماں باپ کو کسی اولاد کے در پر رہنے پر مجبور کر ہی دیا اگر، تو طعنہ و طنز کے جو نشتر ان پر اٹھتے بیٹھتے برساۓ جاتے ہین، کوئ بھی حساس دل رکھنے والا انسان سنے تو اس کا درد اپنے دل میں ضرور محسوس کرے گا۔ اولاد یہ نہیں سوچتی کہ یہ وقت ان پر بھے آنا ہے۔ یہ دنیا دارالعمل ہے،جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ آج جو کچھ بوۓ گا کل وہی کاٹے گا۔ وہ وقت دور نہین ہوتا جب اولاد کی اولاد نے بھی والدین کے ساتھ یہی کچھ کرنا ہوتا ہے۔

اس کے برعکس بے بس، مجبور، لاچار اور معذور افراد کی مثال بھی اسی معاشرے میں موجود ہے جس میں زیادہ تعداد خواتین اور معذوروں کی ہے۔ معذور اولاد بھی اکثر والدین پر بوجھ بن جاتی ہے۔ جتنی زیادہ ذہنی یا جسمانی معذوری اتنا ہی زیادہ نفرت و حقارت کا شکار۔ جتنا زیادہ ان کو توجہ اور ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے اتنا ہی انھیں دھتکارا جاتا ہے۔ ایسے افراد جب گھر سے باھر نکلتے ہیں تو جسمانی معذوری ان کے لۓ گالی بن جاتی ہے۔ لوگ انھیں معذوری کے نام مثلاً اندھے، گونگے یا لنگڑے کہہ کر بلانے لگتے ہین۔ ذہنی معذور ہو تو اسے نہ صرف یہ کہ پاگل کے نام سے پکارا جاتا بلکہ اسے پتھر مارے جاتے ہیں۔ یہ ہے ہمارے معاشرے کے ہمدردی کرنے کا سفاکانہ انداز۔ ہم اتنے سفاک دل اور خود غرض ہیں کہ ہمدردی کے دو بول بھی نہیں ہمارے پاس۔ جہاں تک خواتین کا تعلق ہے، وہ اگر بیٹیاں ہیں تو وہ تو ویسے ہی ہمارے معاشرے میں زیادہ تر بوجھ سمجھی جاتی ہیں اور اکثر یوں ہوتا ہے کہ بیٹوں کو تو تعلیم دلوا دی جاتی ہے مگر بیٹیاں محروم رکھی جاتی ہیں یا پھر بیٹوں کو اعلیٰ ٹعلیم دلوا دی جاتی ہے اور بیٹیوں کو معمولی تعلیم، اور اس پر یہ کہا جاتا ہے کہ تمھیں کیا ضرورت ہے پڑھنے کی، گھر کا چولھا ہی تو جلانا ہے کونسی نوکریاں کرنی ہیں تم نے۔ عام طور پر والدین اس خوش فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ بیٹے ان کے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے، اس لۓ ہر بات میں ان کو فوقیت دی جاتی ہے۔ بیٹی کا کیا ہے اس نے تو بیاہ کر ویسے ہی دوسرے گھر چلے جانا ہوتا ہے۔ ایسے والدین سے پوچھا جاۓ کے کیا تعلیم صرف نوکری کرنے کے لۓ حاصل کی جاتی ہے؟ مستقبل میں جنھوں نے مائیں بن کر نسلوں کی تربیت اور پرورش کرنی ہے، انھیں ہی تعلیم سے محروم رکھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ یہ تو ابھی ان بیٹیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی بات ہے جو ابھی غیر شادی شدہ ہیں۔ شادی کے بعد اگر کوئ بیٹی، بیوہ ہو کر یا طلاق یافتہ ہو کر، ماں باپ کے گھر آبیٹھے تو اس کی زندگی جہنم سے کم نہیں ہوتی۔ اسے بوجھ، بدنصیب، منحوس اور نہ جانے کیا کیا کہا جاتا ہے۔ اس پر اگر اس کے ساتھ بچے بھی ہوں تو پھر اس کی زندگی کا ہر ایک پل عذاب بن جاتا ہے۔ اپنی ذات کی حد تک تو وہ ہر ایک بات برداشت کر لیتی ہے مگر اپنی اولاد کو دۓ جانے والے طعنے یا کسی بھی قسم کی زیادتی ایک ماں سے سہی نہیں جاتی۔

یہ ہمارے معاشرے میں رچ بس گۓ چند وہ دکھ ہیں جو ہماری چھوٹی چھوٹی باتوں سے دور ہو سکتے ہیں۔ زبان سے نکلی ہوئ چھوٹی سی ایک بات اگر کبھی کسی کی زندگی بنا جاتی ہے تو کبھی کسی کی زندگی لے بھی جاتی ہے۔ اگر ہم اپنی سوچ اور اپنے دل میں تھوڑی سی بھی وسعت اور انسانی ہمدردی پیدا کر لین تو معاشرے میں کافی سدھار پیدا ہو سکتا ہے۔ سکھ دکھ بانٹنے کے لۓ ہوتا ہے مگر ہم دوسروں کے دکھ کو بڑھانے اور سکھ کو گھٹانے کے در پہ رہتے ہیں۔ اگر ہم اتنے ہی کمزور ہیں کہ کسی بھی چیز میں بہتری پیدا نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا ہی کر لیں کہ کسی کہ دکھوں میں اضافہ کا باعث یہ بنیں۔

والدین، بیٹیاں اور معذور افراد ہم پر بوجھ نہیں۔ انھیں بھی خوشیوں کے ساتھ جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا باقی انسانوں کو۔ ان سے ان کے اس حق کو مت چھینۓ۔ ایسا نہ ہو کہ کل کوئ آپ سے بھی اسی طرح اس حق کو چھین لے۔

Shehla Khan
About the Author: Shehla Khan Read More Articles by Shehla Khan: 28 Articles with 30505 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.