انسان کے تین ہاتھ

ایک ھاتھ وہ ھے جو مانگنے کے لیے انسان پھیلاتا ھے جو ایک مجبور اور بے بس انسان کا ھوتا ھے جو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سوالی ھاتھ بن جاتا ھے۔

ایک وہ بدنصیب ھاتھ وہ ھوتا ھے جو لوگوں کے حقوق ھڑپ کرنے کے لیے اٹھتا ھے۔ یہ اس ظالم کا ھوتا ھے جو بغیر محنت اور جھدوجھد کے چھین کر اللہ کو روز قیامت جواب دہ ھوگا کہ کس کس طرح اس نے اپنے ظلم سے لوگوں کے حقوق اور ان کے مال پر قبضہ کیا۔

ایک خوش نصیب ھاتھ وہ بھی ھوتا ھے جو صرف دینے کے لیے اٹھتا ھے۔ اور یہ ھاتھ افضل ھاتھ ھے جو اللہ کے بندوں کی مدد کے لیے اس طرح سے اگے بڑھتا ھے کہ ایک ھاتھ سے دے ھوئے کی دوسرے ھاتھ کو بھی خبر نھیں ھوتی۔ یہ ھی ھاتھ روز قیامت اسکی بخشش کا سبب بھی بن سکتا ھے اللہ بڑا ھی رحیم اور کریم ھے۔

آج پاکستان میں خودکشیاں اور چھینا جھپٹی روز مرہ کا معمول بن کر رھے گئی ھیں جو اس بات کو ظاھر کرتی ھیں کہ مانگنے اور چھیننے والوں کی اکثریت ھوگی ھے ھمارے معاشرے میں۔ اور دینے والے ھاتھ ھیں تو ھمارے معاشرے میں مگر انکا دینا ایسا ھوگیا ھے کہ سوالی صرف سوالی بن کر ھی رہ جاتا ھے کوئی اس کو اس مقام پر لانے کی کوشش نھیں کرتا کہ سوالی ھاتھ بھی اس قابل بنا دیا جائے کہ کسی دوسرے سوالی ضروریات کو پورا کرسکے اور معاشرے سے کم ازکم جو اللہ کی دی گی زندگی کو لوگ اپنے ھاتھوں سے ختم کررھے ھیں اسکا خاتمہ ھوسکے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کی سستی روٹی اسکیم سے جو انکا نیک مقصد ھے اس سے کوئی بھی انکاری نھیں قابل تحسین ھے۔ مگر ایک التجا ھے کہ سستی روٹی کے زریعے لوگوں کی مدد تو ھورھی ھے۔ لیکن محتاجی تو برقرار ھی رھے گی۔ اگر جو بجٹ اس اسکیم پر رکھا جارھا ھے۔ اس بجٹ سے کوئی فیکڑی یا صنعت لگا کر تمام ضرورت مند لوگوں کے لیے مستقل روزگا فراھم کردیا جائے۔ اور حکیم سعید کی طرح اس فیکڑی یا صنعت کو ایک ٹرسٹ بناکر ﴿وقف پاکستان﴾ کردیا جائے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجایش نھیں رھتی کہ غربت کا خاتمہ ھوگا اور ملک سے بے روزگاری دور ھوجائے گی ملکی معشیت کا پہیہ بھی چلے گا۔

اس طرح کے اقدامات کرنا صرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری نھیں ھر صوبے کے وزیر اعلیٰ کی یہ اولین ذمہ داری ھونی چاھیے ھم نے مانگنے والے ھاتھ کو دینے والا ھاتھ بنانا ھے۔ جو دیتا ھے وہ ھی فلاح پاتا ھے۔

بھارت اس لحاظ سے قابل تعریف ھے کہ وھاں کے بڑے بڑے صنعت کاروں اور بزنس مینوں نے اپنے غریب ھم وطنوں کے لیے ھسپتال بنا دیے ھیں۔ جس میں ناناوتی، ٹاٹا اور دوسرے دیگر افراد ھیں جو ایسا کام کر گئے ھیں جو انسانینت کے کام اے گا۔ کیا ھمارے وطن عزیز میں ھمارے صنعت کاروں اور بزنس مینوں نے وطن عزیز کے ضرورت مندوں کے لیے کوی ایسا قابل ذکر ادارہ بنایا ھے ھو انسانینت کی خدمت کرسکے۔

پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی فلاحی کاموں میں اگے رھتی ھیں ۔ اور ھر سال اربوں روپے سے لوگوں کی مدد بھی کرتی ھیں۔ انکا نیک مقصد اس وقت زیادہ نیک اور افضل ھوجائے گا۔ جب وہ ھر سال کوئی فیکڑی یا صنعت لگاکر ضرورت مند لوگوں کے لیے مستقل روزگار کا بندوبست کردیں۔ تاکہ ھمارے معاشرے میں مانگنے والے ھاتھوں کی کمی ھو اور دینے والے ھاتھوں کی اکثریت ھو۔

رھ گئے چھینے والے ھاتھ وہ تو انسانوں کے مجرم تو ھیں مگر اللہ کے ھاں بھت بڑی سزا کے مستحق ھونگے۔ اللہ ظالموں کو خوب جانتا ھے اور انسانوں پر یہ فرض بنتا ھے کہ ان ظالموں کی سرکوبی کے لیے باقاعدہ قانون سازی کریں اور سزاؤں پر عمل درامد یقینی بنائیں تاکہ کوئی بھی کسی کا حق چھینتے ھوئے ھزار بار سوچے۔
Honey Ahmad
About the Author: Honey Ahmad Read More Articles by Honey Ahmad: 10 Articles with 10931 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.