سن انیس سو چھیاسی کی ایک کہانی، قسط 3

ارباز نے رات سے پہلے ہی بڑے خفیہ طریقہ سے فون کی تار سے ایک تار اپنے کمرے تک لگا لی تھی۔ جیسے ہی امی ابو سوئے، ارباز نے فون سیٹ اتارا اور اپنے کمرے میں لگا لیا۔ عین وقت پر صائمہ کی کال آ گئی۔ کیا کر رہے تھے یہ پہلی بات تھی اور کیا کیا پسند ہے، دوست کتنے ہیں۔ یہ درمیان تھا۔ جس کا دورانیہ دو گھنٹے کا تھا۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ اگر آپ وقت پر فون سنتے رہیں گے تو آپ کے ابو سے کبھی بات نہیں کروں گی۔ اور لمبی باتیں نہیں ہوں گی اور صرف ہفتے کو بات کیا کریں گے، یہ بات چیت کا اختتام تھا۔ فون بند ہو گیا، ارباز نے فون سیٹ واپس لاؤنج میں لگا دیا۔ صرف یہ باتیں کرنے کیلئے فون کیا تھا۔ نہیں یہ تو کوئی خاص باتیں نہیں ہیں۔ بات اور کچھ ہوگی، آخر سامنے آ ہی جائے گی۔ یہ سوچتے سوچتے ارباز کی آنکھ لگ گئی۔ پھر کئی ھفتے گزر گئے۔ باتیں چلتی گئیں۔ باتوں کا وقت بھی بڑھتا گیا۔ ارباز کو بھی صائمہ کی عادت ہو گئی۔ صائمہ نے بھی ارباز کی وجہ سے مظہر کلیم کے عمران سیریز رسالے خریدنے شروع کر دئے تھے۔ جو بھی نیا رسالہ آتا ارباز صائمہ کو فون پر سارا پڑھ کر سناتا اور اگلا نیا رسالہ صائمہ کو پڑھ کر سنانا ہوتا تھا۔ نہ کوئی ملاقات، نہ کوئی عشق و محبت کی باتیں، عجیب ناقابل یقین سا بھولپن تھا۔ صائمہ ارباز کا بہت خیال رکھتی تھی شاید اسی لئے ارباز کا غصہ دب سا گیا تھا لیکن ارباز کا تجسس دن بدن بڑھتا ہی جا رہا تھا کیونکہ صائمہ کو ارباز کے گھر کا بھی پتہ تھا اور ارباز کو صائمہ کا گھر تو کیا، گھر کے فون نمبر کا بھی پتہ نہیں تھا۔ صائمہ تھی بہت اچھی۔ ایک اچھے دوست کی مانند۔ شروع میں ابو سے بات کرنے کی دھمکیاں تو دی تھیں لیکن اب ارباز کو اس سے کوئی خوف نہیں رہا تھا۔ ایک اعتماد قائم ہو چکا تھا۔ آج دو سال گزر چکے تھے اور ارباز کا غصہ عروج پر پہنچ چکا تھا۔ ارباز کا کہنا تھا کہ اسے اپنا گھر اور گھر کا فون نمبر اب بتانا ہوگا۔ کئی دفعہ اسی بات پر لڑائی ہوئی اور بات چیت کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ ارباز کے ہاتھ بھی صائمہ کی کمزوری آ گئی تھی۔ اسے پتہ تھا کہ صائمہ اس کے ساتھ بات کئی بغیر رہ ہی نہیں سکتی۔ ایک سال اور گزر گیا۔ دونوں اب جوانی کی حدوں کو چھو رہے تھے لیکن ابھی تک فلمی اثر سے محفوظ تھے لیکن نہ جانے کیسے۔ آخر ارباز نے ایک فیصلہ کر لیا۔ کہ اب فون نمبر اور گھر کا ایڈریس لے کر ہی رہوں گا۔ ہر قیمت پر۔ ارباز کا موڈ بدل گیا۔ ارباز صائمہ کو خوب تنگ کرتا۔ فون انگیج کر دیتا اور جب صائمہ اس بات پر لڑتی ۔ تو ارباز کا ایک ہی جواب ہوتا۔ فون نمبر اور گھر کا ایڈریس بتا دو کبھی ایسے نہیں کروں گا۔ صائمہ نے بھی اپنی ضد توڑی اور اپنے بارے میں بتانا شروع کیا، لیکن صرف ایک ایک لفظ اور وہ بھی قسطوں میں۔ میں گارڈن ٹاؤن میں رہتی ہوں۔ کس بلاک میں اور گھر کا کیا نمبر ہے۔ ارباز نے بڑے جوش سے پوچھا۔ اگلی دفعہ بتاؤں گی۔ یہ کہہ کر صائمہ نے فون بند کر دیا۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 112493 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More