مطالعہ اور شخصیت

زندگی گزارنے کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں۔ بڑی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خیالات جب عمل کی بھٹی میں پکتے ہیں تو نت نئے تجربات حاصل ہوتے ہیں۔ تب انسان کو زندگی بسر کرنے کا شعور و ہنر آتا ہے۔ عقل آتی ہے۔ گرنے سے پہلے ڈگمگاتے وقت ہی تجربہ کار سنبھل جاتے ہیں۔

کسی دانشمند کا قول ہے کہ''عقلمند شخص وہ ہے جو خود تجربات کرنے کی بجائے دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کرے''۔ دوسروں کے تجربات سے سبق سیکھنے کے دو ذرائع ہیں۔ اپنے واقف کاروں کے حالات کا مشاہدہ یا پھر مطالعہ!

مطالعہ ایک فرد کے رویئے پر بہت حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔ معیاری اور مثبت قسم کی تحریروں کے حامل رسائل و جرائد اور کتابوں کا مطالعہ فرد میں مثبت ذہنی رویے کا باعث بنتا ہے جبکہ غیر معیاری اور منفی مواد والی تحریروں کا مطالعہ فرد میں یاس و نا امیدی اور منفی طرز فکر کا سبب بنتا ہے۔

مطالعے کا مقصد وقت گزارنا نہیں بلکہ عمل کی قوت کو بیدار کرنا اور کسی حد تک معلومات کا حصول بھی ہے۔ اچھی تحریروں کا مطالعہ مثبت عمل کی بنیاد ہے۔

مطالعہ انسان میں جہاں ذہنی تبدیلی پیدا کرتا ہے وہیں اس کی جسمانی ہیت، لباس و خوراک اور نشست و برخاست میں بھی راہنمائی کرتا ہے۔ مطالعہ سے فرد میں فکر سلیم پیدا ہوتی ہے جو عزت و وقار میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

مطالعہ کی مستقل عادت سے علم و حکمت کے ایسے ایسے ہیرے، جواہرات اور موتی انسان کے ہاتھ لگتے ہیں جو اس کے ذہن کو تازگی، شعور کو بلندی، خیالات و نظریات میں پختگی اور فکر و نظر میں وسعت پیدا کرتے ہیں۔

مسٹر ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ ''سب سے پہلے بہترین کتابوں کا مطالعہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ پھر آپ کو یہ تمام کتابیں پڑھنے کا موقع نہ ملے''۔ یعنی جتنی کتابیں آپ کو میسر ہیں ان کی اچھی، بہتر اور بہترین کے لحاط سے درجہ بندی کریں اور پھر سب سے پہلے بہترین کتابوں کو پڑھیں۔ یا جو کتابیں ''بیسٹ سیلر'' ہیں ان کا مطالعہ کریں۔

مسٹر میکالے کا کہنا ہے کہ ''جلد بازی میں پوری کتاب پڑھنے سے بہتر ہے کہ ایک صفحے کو پڑھا اور ہضم کیا جائے''۔ حقیقت میں یہ طریقہ پوری کتاب پڑھ کر کچھ نہ حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ ایک صفحہ پڑھ کر اسے سمجھ لیا جائے۔

صرف کتاب پڑھنا کوئی مطالعہ نہیں اگر آپ اس سے کچھ پا نہ سکیں۔ بیشتر لوگ اوراق کو پلٹنے اور ان پر سیاہ روشنائی سے لکھے الفاظ پر نظر دوڑانے کو مطالعہ سمجھتے ہیں۔ صحیح مطالعہ کا حق تو یہ ہے کہ ایک تحریر کو کم از کم تین مرتبہ پڑھا جائے تاکہ کچھ حاصل ہو سکے۔ زیادہ کے حصول کے لیے انفرادی مطالعہ سے مجموعی مطالعہ بہتر ہے۔ مجموعی مطالعے اور اس پر ایک دوسرے سے بحث و تکرار اور مختلف خیال آرائیوں سے جو نقوش ذہن کی تحتی پر ثبت ہوتے ہیں وہ آسانی سے مٹتے نہیں۔

مطالعہ کا شوق ہی دراصل انسان کو لکھنے پر ابھارتا ہے۔ جس سے کوئی شخص اپنے خیالات و نظریات و تجربات اور تجویزات دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے ۔جس سے دوسرے افراد راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ لکھنے کے لیئے تحریر کے مختلف اجزا، عناصر اور محاسن کی واقفیت از حد ضروری ہے شناسائی مطالعے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ مطالعہ سے جہاں ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے وہیں زبان کے نقائص دور ہوتے ہیں اور تحریر میں شائستگی اور پختگی پیدا ہوتی ہے۔

مطالعہ کی عادت فرد میں احساس ذمہ داری کو اجاگر کرتی ہے۔ اپنے اور دوسروں کے حقوق و فرائض کے متعلق آگاہی ہوتی ہے۔ نیک اور بد میں تمیز کرنے کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔ کسی چیز کو قبول کرنے سے پہلے اس کے دونوں پہلو دیکھنے کی عادت مستحکم ہوتی ہے۔ مطالعہ انسان میں تحریک پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔ کچھ کر گزرنے کی خواہش بیدار ہوتی ہے۔ مطالعہ انسانی تحیّل کو وسعت عطا کرتا ہے جسکی بدولت نئے اور اچھوتے خیالات تجربات کی کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں۔ یوں انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔

مطالعہ انسان کی علمی تشنگی کی تسکین کرتا ہے۔ مطالعہ ذہن کے لیئے وہی اہمیت رکھتا ہے جو ورزش جسم کے لیئے۔ مطالعہ کی مستقل عادت فرد میں سنجیدگی، متانت اور ذہانت کو فروغ دیتی ہے ۔ مطالعہ فرد کو معاشرے کا باشعور اور کار آمد رکن بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ حق اور سچ کی حمایت کرنے، جھوٹ اور دجل کے خلاف احتجاج کرنے کی قوت بھی مہیا کرتا ہے۔ اثبت تحریروں کا مطالعہ کرنے کے بعد عمل کرنے سے انسانی شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے۔
saqi farooqi
About the Author: saqi farooqi Read More Articles by saqi farooqi: 2 Articles with 2317 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.