اللہ کی عدالت میں گواہیاں اور شہادتیں

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات بس تغیر کو ہے زمانے میں

اسی اصول پہ اللہ نے اس ہر دم بدلتی دنیا کو تخلیق کیا ہے اور اس کا سفر اپنی منزل کی طرف جاری ہے۔ وقت گزرتا جاتا ہے، جو لمحہ گزر گیا وہ ماضی ہوگیا کبھی لوٹ کر نہ آنے کے لیے اور آنے والا لمحہ مستقبل ہے جو ہمارے بس میں نہیں۔ اور وقت کی اسی گردش میں ہمارا چند سالہ آزمائشی زندگی کا سفر جاری ہے اور ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم اسے عمر میں اضافہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ کمی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ برف گھلتی جا رہی ہے۔۔۔۔ بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا اس سفر کی منزلیں ہیں اور ہم میں سے ہر ایک انہی منزلوں سے گزرتا ہوا چارو ناچار اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے۔

سورة الإنشقاق ( 84 )
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ {6}
اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے۔

پھر ایک دن وہ ہوگا جب ہمیں اللہ دوبارہ زندہ فرمائے گا اور ہمیں اس کی عدالت میں کھڑا ہونا ہوگا اور اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا پڑے گی۔ یہ وہ دن ہوگا جب:

سورة الطارق ( 86 )
يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ {9}
جس روز پوشیدہ اَسرار کی جانچ پڑتال ہوگی۔

تمام معاملات کا حتمی فیصلہ وہیں ہونا ہے اور اُس عدالت میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ وہاں ایسی گواہیاں اور شہادتیں پیش کی جائیں گی کہ جن کا انکار کسی کے لیے بھی ممکن نہ ہوگا اور کوئی راز راز نہ رہ سکے گا:

سورة الحاقة ( 69 )
يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَى مِنكُمْ خَافِيَةٌ {18}
وہ دن ہوگا جب تک لوگ پیش کیے جاؤ گے، تمہارا کوئی راز بھی چُھپا نہ رہ جائے گا۔

ساری خلقت کے سامنے ایسے ثبوت پیش کیے جائیں کہ مجرموں کے غلط اور قابل سزا ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے۔ جرم کچھ اس طرح سے ثابت کر دیے جائیں گے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب گنہگار خود اپنے گناہوں کا اعتراف(فَاعْتَرَفُوا بِذَنبِهِمْ) کریں گے۔ یہ اعلیٰ ترین عدالت ہے جس کا فیصلہ حتمی ہوگا جو کہیں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکے گا۔ کیونکہ اللہ صرف فیصلہ سنانے والا اعلیٰ ترین جج ہی نہیں بلکہ فیصلہ کو نافذ کرنے والا حاکم اور بادشاہ بھی وہی ہے:

سورة الحج ( 22 )
الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ {56} وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأُوْلَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ {57}
اُس روز بادشاہی اللہ کی ہوگی، اور وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔ جو ایمان رکھنے والے اور عملِ صالح کرنے والے ہوں گے وہ نعمت بھری جنتوں میں جائیں گے، اور جنہوں نے کفر کیا ہوگا اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہوگا اُن کے لیے رُسوا کن عذاب ہوگا۔

اور اُس دن تمام معاملات کے حتمی فیصلوں کا کلی اختیار صرف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہوگا۔

سورة الإنفطار ( 82 )
وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ {17} ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ {18} يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ {19}
اور تم کیا جانتے ہو کہ وہ جزا کا دن کیا ہے؟ ہاں تمہیں کیا خبر کہ وہ جزا کا دن کیا ہے؟ یہ وہ دن ہے جب کسی شخص کے لیے کچھ کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا، فیصلہ اُس دن بالکل اللہ کے اختیار میں ہوگا۔

کوئی اور عدالت ایسی نہیں جو اس سے بالاتر ہو۔ جسے وہ سزا دینا چاہے اسے بچانے والا کوئی نہیں اور جسے وہ نوازنا چاہے اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ وہاں یہ ممکن نہ ہوگا کہ جج تو سزا دے اور حاکم وقت معاف کر دے یا کہیں قید خانے کے کارندوں اورذمہ داران سے میل ملاپ کرکے کوئی سہولت حاصل کی جا سکے۔

دنیا میں تو ہر شخص عدالت میں نہیں جاتا لیکن آخرت کی عدالت وہ عدالت ہے جہاں ہم میں سے ہر ایک کو جانا ہے اور فرداً فرداً رب کے سامنے حاضر ہونا ہے:

سورة مريم ( 19 )
إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا {93} لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا {94} وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا {95}
زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں۔ سب پر وہ محیط ہے اور اس نے اُن کو شمار کر رکھا ہے۔ سب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔

اور وہیں ہماری ساری زندگی کے مقدمے کا فیصلہ ہونا ہے کہ ہم کامیاب ہوئے یا ناکام۔اُس عدالت میں کامیابی کا ایک ہی معیار ہے اور وہ یہ کہ جس نے اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی اتباع کی وہی سلامتی اور نجات کے راستے پر چلا اور جس نے اس کے برخلاف کیا وہ بھلے دنیا میں جو بھی کما لے آخرت میں بری طرح ناکام رہے گا۔ آج ہم اُسی عدالت میں پیش کی جانے والی گواہیوں اور شہادتوں کے بارے میں قرآن حکیم سے جاننے کی کوشش کریں گے۔

•پہلی حقیقت: اللہ ہر معاملے کا گواہ، قیامت کی عدالت کا اکیلا بااختیار جج، حاکم اور بادشاہ

سورة سبأ (34 )
۔۔۔وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ {47}
اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

سورة الأعراف ( 7 )
فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ {6} فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِم بِعِلْمٍ وَمَا كُنَّا غَآئِبِينَ {7}
پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے باز پرس کریں، جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے پوچھیں (کہ انہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا) پھر ہم خود پورے علم کے ساتھ ساری سرگزشت ان کے آگے پیش کر دیں گے، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے۔

اُس اعلیٰ ترین عدالت کا اکیلا با اختیارجج خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہے اور وہی ہر معاملے کا باخبر گواہ بھی ہے۔ دنیا کے ججوں کی طرح وہ عدالت اس لیے نہیں لگا رہا کہ اسے حقیقت معلوم نہیں اور وہ سچ جاننا چاہتا ہے بلکہ اس لیے برپا کر رہا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کر دیے جائیں۔ اُس کا علم راسخ ہے اور اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ کون جنت اور کون جہنم کا مستحق ہے لیکن وہ عدالت لگا رہا ہے تاکہ برسر عدالت انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، انسانوں میں ہونے والے اختلافات کا فیصلہ کر دیا جائے اور تمام انسانیت کی موجودگی میں ثابت کردیا جائے کہ کون صحیح تھا اور کون غلط، کون سچا تھا اور کون جھوٹا، کس نے عزت پائی اور کسے ذلت ملی، کون فائدے میں رہا اور کس نے خسارہ اٹھایا، کون جیتا اور کون ہارا۔

•اتمام حجت کے لیے انبیاء اور رسولوں علیھم السلام کی گواہی

اُس عدالت میں پیش کی جانے والی ایک گواہی، انبیاء اور رسولوں علیھم السلام اور صدیقین و شھداء و صالحین کی ہے۔ آیات ملاحظ فرمائیے:

سورة الزمر ( 39 )
وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَآء وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ {69} وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُونَ {70}
زمین اپنے رب کے نور سے چمک ‎ اُٹھے گی، کتابِِاعمال لا کر رکھ دی جائے گی، انبیاء اور تمام گواہ حاضر کر ديے جائیں گے، لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا، اُن پر کوئی ظلم نہ ہو گا اور ہر متنفس کو جو کچھ بھی اُس نے عمل کیا تھا اُس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ لوگ جو کچھ بھی کرتے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔

سورة النحل ( 16 )
وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ثُمَّ لاَ يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ وَلاَ هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ{84}
(انہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ اُس روز کیا بنے گی)جب کہ ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے، پھر کافروں کو نہ حجتیں پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا نہ اُن سے توبہ و استغفار ہی کا مطالبہ کیا جائے گا۔

سورة القصص ( 28 )
وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ {74} وَنَزَعْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا فَقُلْنَا هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ فَعَلِمُوا أَنَّ الْحَقَّ لِلَّهِ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ {75}
(یاد رکھیں یہ لوگ)وہ دن جب کہ وہ اِنہیں پکارے گا پھر پوچھے گا" کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے؟"اور ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ نکال لائیں گے پھر کہیں گے کہ "لاؤ اب اپنی دلیل۔"اُس وقت انہیں معلوم ہو جائے گا کہ حق اللہ کی طرف ہے، اور گم ہو جائیں گے اِن کے وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے گھڑ رکھے ہیں۔

سورة النحل ( 16 )
وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَـؤُلاء وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ {89} (اے محمدﷺ انہیں اُس دن سے خبردار کردو) جب کہ ہم ہر اُمت میں خود اُسی کے اندر سے ایک گواہ اُٹھا کریں گے جو اُس کے مقابلہ میں شہادت دے گا، اور اِن لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لیے ہم تمہیں لائیں گے اور (یہ اسی شہادت کی تیاری ہے کہ) ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کردی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے اور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے سر تسلیم خم کردیا ہے۔

سورة النساء (4)
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاء شَهِيدًا {41} يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَعَصَوُاْ الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّى بِهِمُ الأَرْضُ وَلاَ يَكْتُمُونَ اللّهَ حَدِيثًا {42}
پھر سوچو کہ اُس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اِن لوگوں پر تمہیں (یعنی محمدﷺ کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔ اُس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے رسول ﷺ کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے، تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں۔ وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے۔

سورة النساء (4)
رُّسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا {165}
سارے رسول خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ اُن کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے۔

درج بالا آیات سے یہ بات واضح ہوئی کہ انسانوں پر اپنی حجت تمام کرنے کے لیے اللہ نے اپنے پیغمبر مبعوث فرمائے جنہوں نے اللہ کے پیغامات انسانیت تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا،واضح طور پر صحیح راستہ کو غلط سے الگ کر کے انسانوں کے سامنے پیش کیا، ماننے والوں کو خوشخبری دی اور نہ ماننے والوں کو برے انجام سے خبردار کیا۔ قیامت میں اُن سے بھی اور دیگر مومنین صدیقین، شھداء اور صالحین سے بھی یہ گواہی لی جائے گی تاکہ برسر عدالت یہ ثابت ہو جائے کہ ہدایت کا راستہ واضح کر دیا گیا تھا۔ یہ گواہ ہر امت میں سے اٹھائے جائیں گے اور ہمارے اوپر یہ بڑی گواہی حضرت محمدﷺ دیں گے-انہوں نے تو اپنا فریضہ انجام دے دیا۔ آج قرآن ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ہم تک خدا کا پیغام نہیں پہنچایا؟اگر کوئی اللہ کے پیغام کو جاننا چاہے تو آج قرآن کس کی پہنچ میں نہیں؟ کیا ہمارے پاس اس ضمن میں اللہ کے سامنے پیش کرنے کو کوئی حجت ہے؟ قرآن کو ترک کر دینے والوں اور اس پر نقطہ چینی کرنے والوں کو آخرت کا یہ منظر اور وہاں نبی ﷺ کا یہ کہنا کبھی نہ بھولنا چاہیے:

سورة الفرقان ( 25 )
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا {27} يَا وَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا {28} لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءنِي وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا {29} وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا {30}
اُس روز ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گا اور کہے گا" کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔ ہائے میری کم بختی، کا‎ش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اُس کے بہکائے میں آ کر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی، شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بے وفا نکلا۔" اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا۔"

•کتاب اعمال ایک دستاویزی ثبوت

انہی شہادتوں میں سے ایک بڑی شہادت نامہ اعمال ہے جو ہماری پوری زندگی کا ایک ریکارڈ ہے جو تیار کروایاجا رہا ہے۔ ہماری زبان سے نکلنے والا کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو محفوظ نہ کیا جارہا ہو، ہماری کوئی حرکت اور کام ایسا نہیں جو ریکارڈ نہ کیا جارہا ہو حتیٰ کہ ہمارے اعمال کے اثرات بھی محفوظ کیے جا رہے ہیں۔ اور یہ ریکارڈ محفوظ کرنے والے فرشتے ہیں جو خود ہمارے اعمال کے گواہ بھی ہیں اور اپنے کام میں کوئی غلطی نہیں کرتے، دیکھیے قرآن عظیم میں اس بارے میں کیا فرمایا گیا ہے:

سورة الإنفطار ( 82 )
وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ {10} كِرَامًا كَاتِبِينَ {11} يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ {12}
اور بے شک تم پر نگراں مقرر ہیں، ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں۔

سورة الزخرف ( 43)
أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُم بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ {80}
کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور ان کی سرگوشیاں سُنتے نہیں ہیں؟ ہم سب کچھ سُن رہے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں۔

سورة ق ( 50 )
إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ {17} مَا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ {18}
دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو ۔

سورة يس ( 36 )
إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ {12}
ہم یقیناً ایک روز مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں۔ جو کچھ افعال اُنہوں نے کیے ہیں وہ سب ہم لکھتے جا رہے ہیں، اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم ثبت کر رہے ہیں۔ ہر چیز کو ہم نے ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے۔

سورة الأنبياء ( 21 )
فَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ {94}
پھرجو نیک عمل کرے گا، اِس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو اس کے کام کی ناقدری نہ ہوگی، اور اسے ہم لکھ رہے ہیں۔

یوں سمجھ لیجیے گویا خفیہ کیمرے لگے ہوئے ہیں اور ہماری پوری زندگی کا ریکارڈ مرتب کیا جا رہا ہے۔ پوری فلمیں بنائی جا رہی ہیں اور ساتھ میں فرشتے ساری سرگزشت لکھ رہے ہیں اور یہ فلم اور یہ دستاویز آخرت میں ہمارے خلاف ثبوت کے طور پر موجود ہو گی اور یہ فلم تمام گواہوں اور خلقت کی موجودگی میں برسر عدالت چلا دی جائے گی۔ کیا کوئی انکار کی جرات کر سکے گا؟ دنیا میں جو لوگ کیمرے کے سامنے بیٹھتے ہیں وہ اس کے لیے کتنی تیاری اور اہتمام کرتے ہیں اور حقیقت تو یہ ہے ہماری زندگی کا کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جو ریکارڈ نہ کروایا جا رہا ہو۔ کتنی احتیاط کی ضرورت ہے؟آج جب انسانوں کے پاس سپر کمپیوٹرز ہیں اور کروڑوں انسانوں کا کمپیوٹرائزڈ شناختی ریکارڈ انسانوں ہی کے پاس موجود ہے تو(فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ)اللہ رب العالمین کے بارے میں آپ کیا گمان کرتے ہیں اس کے انتظامات کیسے اعلیٰ ہوں گے؟ کیا انسانوں کی ایجاد کردہ چیزوں اور اللہ کی تخلیق میں کوئی نسبت ہے؟(اللہ سے دعا کریں کہ ہمارا پردہ رکھے۔ آمین)

سورة الكهف ( 18 )
وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا {49}
اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اُس وقت تم دیکھو گےکہ مجرم لوگ اپنی کتابِِزندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گےاور کہہ رہے ہوں گےکہ"ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج ہونے سے رہ گئی ہو۔"جو جو کچھ اُنہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔

سورة الزلزلة ( 99 )
يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ {6} فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ {7} وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ {8}
اُس روز لوگ متفّرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ اُن کے اعمال اُن کو دکھائے جائیں۔ پھر جس نے ذرہّ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہّ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

اور یہ کہا جائے گا کہ:

سورة الإسراء ( 17 )
اقْرَأْ كَتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا {14}
پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔

سورة الجاثية ( 45 )
هَذَا كِتَابُنَا يَنطِقُ عَلَيْكُم بِالْحَقِّ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ {29}
یہ ہمارا تیار کرایا ہوا اعمال نامہ ہے جو تمہارے اُوپر ٹھیک ٹھیک شہادت دے رہا ہے، جو کچھ بھی تم کرتے تھے اُسے ہم لکھواتے جاتے تھے۔

•اعضاء کی گواہی

اُس عدالت میں ایک اور ناقابل تردید گواہی کا ایک منظر قرآن عظیم یہ بھی پیش کرتا ہے جب ہمارے اپنے ہی جسم کے اعضاء ہمارے خلاف گواہی دینا شروع کر دیں گے۔ کس میں اتنی قدرت و طاقت ہوگی جو انہیں یہ گواہی دینے سے روک سکے یا ان کی گواہی کا انکار کر سکے؟

سورة النور ( 24 )
يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ {24}
اس دن ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پاؤں ان کے کرتُوتوں کی گواہی دیں گے

سورة يس ( 36 )
الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ {65}
آج ہم اِن کے منہ بند کیے دیتے ہیں،اِن کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں۔

اس بات پرغور فرمائیے کہ ہماری زبان کو گویائی کس نے دی؟ اللہ نے ہی ناں۔ کیا اس میں ہماری بھی کوئی کارسازی ہے۔ وہ جب چاہے اور جس عضو کو چاہے بولنے کی قوت دے دے ۔ کیا یہ اُس کی قدرت سے بعید ہے؟ آخر یہ سارے اعضاء ہماری خدمت میں کس نے لگا رکھے ہیں؟ اور آج بھی ہم جو انہیں استعمال کرتے ہیں تو کس کے حکم نے انہیں ہمارے تابع کیا ہے؟ حقیقتاً یہ کس کے فرمانبردار ہیں؟ تو ایک دن وہ آئے گا جب یہ اپنےرب ہی کے حکم سے مجرموں کے خلاف بولیں گے:

سورة فصلت (41)
وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْدَاء اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ {19} حَتَّى إِذَا مَا جَاؤُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ {20} وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ {21} وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ {22} وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنْ الْخَاسِرِينَ {23}
اور ذرا اُس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے۔ اُن کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا، پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے۔"تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی"؟ وہ جواب دیں گی" ہمیں اُسی خدا نے گویائی دی جس نے ہر چیز کو گویا کردیا ہے۔ اُسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اُسی کی طرف تم واپس لائے جا رہے ہو۔ تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمھارے جسم كی کھالیں تم پر گواہی دیں گی بلكہ تم نے تو یہ سمجھا تا كہ تمہارے بہت سے اعمال كی اللہ كو بھی خبر نہیں ہے۔ تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا، تمہیں لے ڈوبا اور اسی کی بدولت تم خسارے میں پڑ گئے"۔

•زمین کی گواہی

یہ زمین جس پر ہم رہتے بستے ہیں، جس پر ہم چلتے پھرتے ہیں اور جہاں ہماری زندگی گزرتی ہے۔ ہمارے اعمال کے نقش اس پر نجانے کہاں کہاں ثبت ہیں۔ یہ بھی اللہ ہی نے پیدا فرمائی ہے، اللہ نے ہی اس کو ہمارے لیے مسخر کیا اور بچھایا ہے، آج بھی یہ اُسی کے حکم کے تابع ہے اور کل قیامت کے دن بھی یہ اللہ کے حکم سے اپنی گواہی پیش کرے گی:

سورة الزلزلة ( 99 )
إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا {1} وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا {2} وَقَالَ الْإِنسَانُ مَا لَهَا {3} يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا {4} بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا {5}
جب زمین اپنی پُوری شدّت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی،اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی، اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہو رہا ہے، اُس روز وہ اپنے (اُوپر گزرے ہوئے)حالات بیان کرے گی، کیونکہ تیرے رب نے اُسے (ایسا کرنے کا) حکم دیا ہوگا۔

سورة الإنشقاق ( 84 )
وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ {3} وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ {4} وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ {5}
اور جب زمین پھیلا دی جائے گی اور جو کچھ اس کے اندر ہے اُسے باہر پھینک کر خالی ہوجائے گی اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اُس کے لیے حق ہی ہے (کہ اس کی تعمیل کرے)۔

• مجرموں کا اعتراف اور اپنے خلاف گواہی
اور اب وہ منظر سامنے آتا ہے جب مجرموں کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ رہے گا کہ وہ اعتراف جرم کریں، اپنے آپ کو ہی ملامت کریں، پچھتائیں اور اپنے ہی خلاف گواہی دیں:

سورة الفرقان ( 25 )
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا {27}
اُس روز ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گا اور کہے گا" کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔

سورة المؤمنون ( 23 )
أَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ {105} قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ {106} رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ {107} قَالَ اخْسَؤُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ {108}
(جہنمیوں سے پوچھا جائے گا)“کیا تم وہی لوگ نہیں ہو کہ میری آیات تمہیں سنائی جاتی تھیں تو تم انہیں جھٹلاتے تھے؟” وہ کہیں گے “ اے ہمارے رب، ہماری بدبختی ہم پر چھا گئی تھی۔ ہم واقعی گمراہ لوگ تھے۔ اے پروردگار، اب ہمیں یہاں سے نکال دے۔ پھر ہم ایسا قصور کریں تو ظالم ہوں گے۔” اللہ تعالیٰ جواب دے گا“دور ہو میرے سامنے سے، پڑے رہو اسی میں اور مجھ سے بات نہ کرو۔”

سورة الأعراف ( 7 )
۔۔۔وَشَهِدُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَافِرِينَ {37}
اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم واقعی منکرِ حق تھے۔

سورة الأنعام ( 6 )
يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَـذَا قَالُواْ شَهِدْنَا عَلَى أَنفُسِنَا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَافِرِينَ {130}
(آخرت میں اللہ ان سے یہ بھی پوچھے گا کہ) "اے گروہِ جن و انس، کیا تمہارے پاس خود تم ہی میں سے وہ پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو میری آیات سناتے اور اِس دن کے انجام سے ڈراتے تھے؟" وہ کہیں گے "ہاں ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں۔" آج دنیا کی زندگی نے اِن لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے، مگر اُس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔

دنیا میں تو اعتراف جرم، پچھتاوا، شرمندگی اور معافی مانگنا مفید ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا دار عمل ہے اور موت تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ لیکن آخرت دار جزا ہے وہاں معذرت پیش کرنا اور پچھتانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اور ظالموں وہاں ان کا معافی مانگنا کوئی فائدہ نہ دے گا:

سورة الروم ( 30 )
فَيَوْمَئِذٍ لَّا يَنفَعُ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ {57}
پس وہ دن ہو گا جس میں ظالموں کو ان کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی اور نہ ان سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا۔

سورة التحريم (66)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ {7}
(اُس وقت کہا جائے گا کہ)اے کافرو، آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمہیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے۔

اور یوں سارے جرم ثابت کر کےوہ جہنم میں ڈال دیے جائیں گے اور وہاں بھی جہنم کے کارندے ان سے یہ پوچھیں گے اور ان سے پیغمبروں کو جھٹلانے کے گناہ کا اعتراف کروائيں گے۔ پچھتاوے پر پچھتاوا:

سورة الملك ( 67 )
وَلِلَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ{6}إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا وَهِيَ تَفُورُ {7} تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ {8} قَالُوا بَلَى قَدْ جَاءنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ {9} وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ {10} فَاعْتَرَفُوا بِذَنبِهِمْ فَسُحْقًا لِّأَصْحَابِ السَّعِيرِ {11}
جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے اُن کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور وہ بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔ جب وہ اُس میں پھینکے جائیں گے تو اس کے دھاڑنے کی ہولناک آواز سنیں گے اور وہ جوش کھا رہی ہو گی، شدّتِ غضب سے پھٹی جاتی ہوگی۔ ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا، اُس کے کارندے اُن لوگوں سے پوچھیں گے”کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟“ وہ جواب دیں گے”ہاں، خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کيا ہے، تم بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔“اور وہ کہیں گے”کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اِس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزاواروں میں نہ شامل ہوتے۔“ اس طرح وہ اپنے قصور کا خود اعتراف کر لیں گے، لعنت ہے ان دوزخیوں پر۔

قارئین کرام !اللہ کے پیغامات اور انبیاء کی تعلیمات کو جھٹلانا کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ اس کا انجام انتہائی ہولناک ہے اللہ نہ کرے کہ ہم ان پچھتانے والے ظالم جہنمیوں میں شامل ہوں۔

مختصر یہ کہ آخرت کی عدالت وہ اعلیٰ ترین عدالت ہے جہاں ہماری زندگی کا مقدمہ پیش کیا جائے گا اور ہماری حقیقی کامیابی یا ناکامی کا اصل فیصلہ وہیں ہونا ہے۔ وہاں فیصلہ کرنے کا تمام تر اختیار اللہ ہی کے پاس ہے اور وہاں کا فیصلہ حتمی فیصلہ ہے جسے بدلنے والا خود اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ اور اللہ خود ایک ایسا گواہ ہے کہ کسی کا کوئی بھی معاملہ اس کی نگاہ اور اس کے علم سے پوشیدہ نہیں، انبیاء بھی اللہ کا پیغام پہنچا کر اتمام حجت کر چکے ہیں اور وہاں بھی اس کی شہادت دیں گے، اعمال نامہ ہماری تمام زندگی کی ریکارڈنگ اور ایک دستاویزی ثبوت ہے جو فرشتے مرتب کر رہے ہیں اور وہ ہمارے اعمال کے گواہ بھی ہیں، زمین بھی گواہی دے گی اور ہمارے جسم کے اعضاء بھی ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے۔ آج موقع ہے اپنی آخرت کی تیاری کر لیجیے جو اصل زندگی کا گھر ہے۔جیسے ہم موت سے نہیں بھاگ سکتے اور بے بس ہیں اسی طرح ہمیں ہر حال میں اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے اور اس سے بچنے کے لیے کہیں کوئی راہ فرار نہ ہوگی۔ اور آج ہمارے لیے وہاں کی کامیابی حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ حضرت محمدﷺ کی تعلیمات پر ایمان لا کر ان کی پیروی اختیار کرلیں۔

اگر ہمارا سخت حساب لیا گیا اور ایک ایک چیز کے بارے میں باز پرس کی گئی تو سمجھ لیجیے کہ شامت ہی آ گئی۔ اللہ سے دعا کیجیے کہ ہماری بس پیشی ہو، اللہ ہمارا پردہ رکھے(اللهم استر عوراتنا) اور ہم سے آسان حساب لے:

اللهم حاسبنا حسابا يسيرا
اے اللہ ہمارا آسان حساب لینا۔
Aurangzeb Yousaf
About the Author: Aurangzeb Yousaf Read More Articles by Aurangzeb Yousaf: 23 Articles with 45672 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.