گدھے بڑھ گئے

پاکستان میں گدھوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ ایک سال کے دوران ملک میں مزید ایک لاکھ گدھے زیادہ ہو گئے ہیں جبکہ گھوڑوں اور خچروں کے لئے ملک کا ماحول سازگار نہیں رہا۔ حکومت کی جانب سے جاری کئے اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ سال کی طرح رواں مالی سال کے دوران بھی گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں 43 لاکھ گدھے ہیں جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد 42لاکھ تھی۔ ملک میں گھوڑوں اور خچروں کی تعداد تین، تین لاکھ ہے اور گزشتہ دو سال سے ان کی تعداد نہیں بڑھی۔ دوسری جانب انسانوں کی آبادی میں 34لاکھ 90ہزار نفوس کا اضافہ ہوا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کی مجموعی آبادی اس وقت 15کروڑ 38لاکھ 60 ہزار ہے ۔

امریکہ میں گدھے کو عقل مندی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور ہمارے ہاں بےوقوفی کی۔۔۔ روزانہ کسی نہ کسی گھر میں، کسی ہوٹل میں، کسی پارک میں گدھا موجود نہ ہونے کے باوجود گدھے کی بے عزتی ہوتی ہے۔ کسی بڑے ہوٹل میں اگر ویٹر سے پانی کی ایک بوند بھی کسی معزز بندے پر گر گئی تو اسے بے وقوف، گدھا بننا پڑتا ہے۔ گدھا ایک مسکین جانور ہے۔ جہاں باندھ دو، بندھا رہتا ہے۔ جو مرضی کھانے کو دو۔ اس کی طبیعت چاہے نہ چاہے، چپ چاپ کھا جاتا ہے۔ اپنی ہمت سے زیادہ وزن اٹھاتا ہے۔ قصور چاہے مالک کا ہو تب بھی اس کی مار چپ چاپ سہہ جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس کی ڈھینچوں ڈھینچوں اور دولتی زیادہ تر اپنی گھر والی پر ہی برسانے کے کام آتی ہے۔ مالک کا غصہ، وزن کا غصہ، بھوک کا غصہ اپنی زوجہ محترمہ پر اتارتا ہے۔

ایک مزاح نگار کے مطابق حکومت جاپان نے پاکستان سے گدھے منگوانے کے لئے حکومت پاکستان کو خط لکھا تو پاکستانیوں نے دھڑا دھڑ پاسپورٹ بنوائے اور ویزے کے لئے جاپان ایمبیسی میں جمع کروانے شروع کر دئیے۔ اس کے جواب میں حکومت جاپان کو ایک وضاحت جاری کرنا پڑی کہ ہمیں گدھے جاپان میں کام کرنے کے لئے نہیں بلکہ چڑیا گھر میں بچوں کو دکھانے کے لئے چاہئیں۔

ایک دور تھا جب دیار غیر میں پاکستانی گدھوں بہت مانگ تھی۔ امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ان کے جفاکش جثے اور کم مارکیٹ ریٹ کی وجہ سے ان کو اپنے ملک لے جاتے تھے اور اس وقت تک ان کی جان نہیں چھوڑتے تھے جب تک گدھے کے”ہڈ پیر“ جواب نہیں دے جاتے تھے۔ اب وہ دور ختم ہو چکا ہے۔ دنیا 9/11 اور7/7 جیسے واقعات میں الجھ کر سیانی ہو چکی ہے۔ ان جیسے واقعات نے پاکستانی گدھوں کی مانگ گھٹا دی ہے اور اس کی کمی دوسرے غریب ممالک پوری کر رہے ہیں کیونکہ گدھا تو آخر گدھا ہی ہوتا ہے، چاہے کسی ملک کا بھی ہو۔

گدھوں میں ذات پات، اونچ نیچ، رسم ورواج نہیں ہوتے۔ ساری دنیا میں گدھے ایک ہی ذات برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی عادات بھی ایک جیسی ہوتی ہیں حتیٰ کہ ان کی زبان بھی ایک جیسی ہی ہے۔ امریکہ کا گدھا بھی پاکستان کے گدھے سے بغیر کسی مترجم کے گفتگو کر سکتا ہے۔ گدھے جہاں کے بھی ہوں ان کی خوراک بھی یکساں ہے۔ انہیں گھوڑوں کی طرح سیب کھانے کی عادت نہیں۔ گدھے کی کھانے کے لئے کوئی ڈیمانڈ نہیں ہوتی۔ جو دو کھا لیتا ہے حتیٰ کہ یوٹیلٹی سٹور کی دالیں، گھی، اور گیلی چینی بھی کھا جاتا ہے جن کے قریب اگر اشرافیہ چلی جائے تو ان کو مختلف نوح کی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ ملک میں جو بھی دو نمبر، تین نمبر مال بنتا ہے اس کا نشانہ یہی غریب گدھا ہوتا ہے۔ گرمی ہو چاہے پچاس ڈگری اور سردی چاہے رگوں میں لہو جما دے، اس کی برداشت بہت ہے۔ گدھا منرل واٹر نہیں پیتا۔ اس کو چاہے واسا کا پانی پلا دو، چاہے کسی جوہڑ میں اتار دو، چپ چاپ لہو کے گھونٹ کے ساتھ پانی کے گھونٹ پی لیتا ہے۔

گدھے کے ہاں اگر گدھا پیدا ہو (گدھے کے ہاں گدھا ہی پیدا ہوتا ہے)تو وہ شروع دن سے ہی ماں باپ کے ساتھ کام پر نکل جاتا ہے اور بچپن سے ہی اس تربیت مستقبل کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔ آپ نے اکثر ریڑھی میں جتے گدھے کے ساتھ ایک چھوٹا گدھا بھی بھاگتا دیکھا ہوگا۔ بعض اوقات ماں کی ممتا گدھے کو انسان بنانے پر تل جاتی ہے، اس کو پڑھانا چاہتی ہے۔ ماں کے آنسوﺅں سے متاثر ہو کر باپ اس کو” کھوتی اسکول“ میں داخل کروا دیتا ہے جہاں پانچ سال گزارنے کے باوجود وہ گدھا ہی رہتا ہے انسان نہیں بن سکتا اور ”کھوتی اسکول“ کے استاد صاحبان ہاتھ جوڑ کر اس کے باپ سے کہتے ہیں گدھے پر جتنی مرضی کتابیں لاد دو، وہ گدھا ہی رہے گا۔ اس کھوتے کو لے جائیں، یہ دوسروں کو بھی ورغلا رہا ہے۔

گدھے کی ”اڑی“ مشہور ہے۔ اگر کہیں یہ اڑ جائے تو پھر ڈنڈوں کی کوئی طاقت اس کو اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتی مگر نہ جانے کیوں پاکستان میں گدھوں کی یہ نسل ناپید ہو چکی ہے۔ اب جو نسل آرہی ہے، شائد وہ کلوننگ شدہ ہے۔ اس کے جینز میں تبدیلی اس کی ”اڑی “کو مار دیا گیا ہے۔

بجلی جائے واپس نہ آئے، گیس دیوا بن جائے، آٹا نایاب ہو جائے، گھی ساشے پیک کے بعد ماشے پیک میں بکنے لگے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ گدھوں کی قوت خرید بالکل بھی ختم ہو جائے تو بھوکے رہ جائیں گے، مار سہتے جائیں گے، چپ چاپ چلتے جائیں گے۔ زبان حال سے کچھ نہ کہیں گے، ارباب اختیار سے کوئی شکوہ نہ کریں گے۔ مگر اے کاش! کوئی ان کی آنکھوں میں محبت سے جھانک کر تو دیکھے۔۔۔۔اقتصادی رپورٹ کے شائد اعداد وشمار غلط ہیں۔ اگر اس رپورٹ کو صحیح پڑھا جائے تو اس وقت پاکستان میں 43 لاکھ انسان اور 15کروڑ 38لاکھ60ہزار گدھے ہیں۔
Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 32485 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.