تجاہل عارفانہ

حضرت لعل شہبازقلندر کے مزار پر خودکش حملے نے ان دھماکوں کی تلخ یادیں بھی تازہ کردی ہیں جو پچھلے بارہ برس میں کراچی، لاہور اور پشاور میں مزاروں پرکیے گئے اوران میں سینکڑوں عقیدت مند جاں بحق ہوئے۔اس خودکش حملے میں 83 زائرین شہید اور 343 افراد زخمی ہوئے
تاریخ گواہ ہے کہ تاریخ اسلام میں جتنا نقصان اہل اسلام کوبظاہر اسلام کے پیروکارں نے پہنچایا اتنا نقصان کسی دشمنان اسلام نے نہیں پہنچایا۔ تصوف اور اس کے مراکز اور صوفیوں کی درگاہوں یا مزارات کو ایک خاص نظریے کے تحت نشانہ بنانا یا انھیں منہدم کر دینے کا عمل بھی دو سو برس سے زیادہ پرانا نہیں اور یہ روایت جزیرہ نما عرب میں اٹھارویں صدی کے مبلغ ابن عبدالوہاب اور ان کے پیرو کاروں نے ڈالی اس کے نتیجے میں زندہ مخالفین کے ساتھ ساتھ قبروں کے مکین بھی لپیٹ میں آتے چلے گئے۔ اور8شوال 1344ہجری کا دن تاریخ اسلام کا وہ سیاہ ترین دن آیا کہ جب آل سعود حکومت نے جنت البقیع میں اہل بیت اور اصحاب رسول (ص) کے مزارات مقدسہ کو منہدم و مسمار کروایا، امت مسلمہ کی خاموشی نے آج دشمنان اسلام کواتنی جرات اور ہمت بخشی جس کے نتیجے میں اب متشدد انداز میں نظریے کو حلق سے اتارنے والی جدید مشین داعش اور اس کی حلیف مقامی تنظیموں کی شکل میں متحرک ہو چکی ہے۔اور نوبت جزیرہ نما عرب کے مقدس مقامات سے لیکر اب عراق، شام، لیبیا، مصر اور پاکستان کے مسلمانوں پر مظالم تک آن پہنچی ہے۔
اگر ہم مختصر جائزہ لیں اور مزارات پر ہونے والے موٹے موٹے حملے ہی گننے بیٹھیں تو عراق میں 3 جولائی 2016ء کو داعش نے بغداد میں رات گئے بھرے بازار میں دو دھماکے کئے، 165 سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے، آج تک مرنے والوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر چکی ہے۔25 اکتوبر 2015ء کو تکریت میں حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت یحی ٰ کے دو مزار دہشتگردوں نے حملے کر کے تباہ کر دیے۔ یہ مزارات عباسیہ دور میں تعمیر کئے گئے، داعش نے بارود لگا کر تباہ کئے۔اس سے پہلے داعش کے دہشت گردوں کی جانب سے مسجد امام محمد الدری جو امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں اور سید صالح النعیمی کے مزارجو جو شہرالدور کے جنوب مشرق میں واقع ہے، کو بھی تباہ کیا جا چکا ہے، قابل ذکر ہے کہ تباہ ہونے والے دیگر مزارات میں انبیائے کرام حضرت یونس، حضرت شیث، حضرت جرجیس اور حضرت دانیال (علیہم السلام) پیغمبر کا مزار شامل ہے۔
25 جولائی 2014ء کو داعش نے عراقی شہر نینویٰ میں جلیل القدر پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام کے مزار کو شہید کیا۔ عرب نیوز کے مطابق داعش کے جنگجووں نے عراق کے مشرقی شہر موصل میں حضرت یونس علیہ السلام کے مزار کو بارودی مواد رکھ کر اڑا دیا جبکہ مزار سے متصل 138 ھجری میں تعمیر کی گئی۔ جامع مسجد بھی منہدم کر دی گئی۔ داعش نے موصل میں جامع حسینہ اور امام ابوالعلی کا مزار بھی دھماکوں سے تباہ کر دیا، اس کے علاوہ الفیصلیہ کے مقام پر امام بارگاہ فاطمیہ اور جامع مسجد کو بھی دھماکوں سے تباہ کر دیا۔ اس سے قبل گزشتہ روز داعش کے جنگجووں نے موصل میں پیغمبر حضرت دانیال علیہ السلام کے مزار کو بھی دھماکوں سے تباہ کر دیا، بدھ کے روز مغربی موصل میں امام یحییٰ ابو القاسم کے مزار کو بھی دھماکا خیز مواد رکھ کر تباہ کیا گیا۔آئی ایس آئی ایل کے ترجمان العدنانی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ وہ بہت جلد نہ صرف بغداد پر قبضہ کرلیں گے بلکہ بغداد میں واقع سنّی عوام کی سب سے متبرک اور مقدس ہستی،سلسلہ قادریہ کے عظیم روحانی پیشوا اور غوث اعظم کے لقب سے مشہور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کو بھی تباہ کردیں گے جوکہ بقول العدنانی کے عراق سمیت پوری دنیا میں اہل شرک والبدع کے مسلسل گمراہی و شرک پھیلانے کا سبب بنا ہوا ہے
سعودی وہابی فاشزم کی آئیڈیالوجی سے لیس آئی ایس آئی ایل کے دھشت گردوں کو غوث اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی کا مزار بہت زیادہ تکلیف دیتا ہے کیونکہ یہ عراق،شام سمیت پورے مڈل ایسٹ،افریقہ،مشرق بعید،جنوبی ایشیا سمیت عالم اسلام کے سنی مکاتب فکر کا ایک عظیم روحانی مرکز ہے اور سنی اسلام کے ماننے والوں کے لیے عظیم روحانی،دینی اور مذہبی علامت ہے ۔شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ ارادت سے ہندوستان، پاکستان،بنگلہ دیش کے کروڑوں سنّی مسلمان وابستہ ہیں اور ان کا عرس مبارک بڑی گیارھویں شریف کے نام سے پاک وہند میں بڑے تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے جبکہ سلسلہ قادریہ سے وابستہ کروڑوں سنی مسلمانوں کے ہاں شیخ عبدالقادر جیلانی کا تذکرہ شب و روز ہوا کرتا ہے
شام میں ہونیوالے واقعات میں سرفہرست جناب حضرت رسول اکرم (ص) کی نواسی حضرت زینب بنت علی سلام اللہ علھیا کا مزار ہے جو دمشق کے نواحی علاقے الزینبیہ میں واقع ہے، پر دہشت گرد متعدد بارحملے کرچکے ہیں۔ دہشتگردوں نے اس مزار پر پہلا حملہ 15 جون 2012ء کو کیا، دوسرا حملہ 30 دسمبر 2012ء کو کیا، تیسرا حملہ راکٹوں سے20 جولائی 2013 ء کو کیا گیا جس میں رائیس الخدام سمیت تین افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ چوتھا حملہ 8 اگست 2013ء کو کیا۔ اس حملے میں حرم بی بی زینب (س) کو شدید نقصان پہنچایا گیا ان حملوں میں درجنوں افراد شہید اور زخمی ہوئے۔31 جنوری 2016ء حضرت زینب کے روضے کے باہر یکے بعد دیگرے دھماکوں سے 50 افراد جاں بحق 110زخمی ہوگئے۔9 فروری 2016ء حضرت زینب کے روضے کے باہر خودکش بم دھماکے سے 70 جاں بحق اور 100 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔25 اپریل 2016ء کو دہشتگرد نے حضرت زینب کے روضے کے اندر گھسنے میں ناکامی پر باہر ہی خود کو اڑا دیا جس سے 15 افراد شہید اور کئی زخمی ہوئے۔11 جون 2016 کو دہشتگردوں نے حضرت زینب سلام اللہ علھیا کے روضے کے باہر 2 دھماکے کیے جس کے نیتجے میں 15 افراد شہید اور کئی زخمی ہوئے۔
دمشق میں حضرت رقیہ بنت امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کے مزار پر دہشتگردوں نے 26 نومبر 2013ء کو حملہ کیا۔ آپ کے حرم پر راکٹ داغے گئے، جو مسجد کی متصل چھت پر گرے۔امام حسین (ع) کی صاحبزادی حضرت سکینہ (س) کے مزار پر حملے کی متعدد کوششیں کی گئیں اور مزار کی طرف مارٹر گولے پھینکنے گئے۔ روضے کے نیچے سرنگ کھود کر اسے بموں سے تباہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔مارچ 2014ء میں شام کے شہر رقہ میں صحابی رسولﷺ حضرت عمار یاسرؓ اور حضرت اویس قرنیؓ کے مزاروں کو دہشتگردوں نے تباہ کیا۔2 مئی 2013ء النصرہ نامی گروپ نے شام کے دارالحکومت اور صوبہ ریف کے شہر دمشق کے علاقے عذرا میں صحابی رسول ﷺ حضرت حجر بن عدیؓ کے مزار پر حملہ کیا، مزار کو مسمار کر کے میت نکالی جو 1400 سال گزرنے کے باوجود بالکل تازہ تھی حملہ آور میت کو نکال کر ساتھ لے گئے۔
مصر کے قابل ذکر واقعات میں مصر کے ایک قصبے قلیوب میں ایک انتہا پسندگروہ نے2011ء میں صوفی بزرگ بابا عبدالرحمان (رح) کے مزار پر حملہ کرکے اسے ہتھوڑوں اور آہنی سلاخوں سے منہدم کرنے کی کوشش کی۔ حملہ آوروں کا کہنا تھا کہ اسلام میں مزار حرام ہیں۔اپریل 2011ء کے پہلے ہفتے کے اختتام تک قاہرہ کے اطراف میں واقع قصبے قلیوب میں اولیاء کرام اور آل رسول (ص) سے تعلق رکھنے والے 5 بزرگوں کے مزارات تباہ کیے گئے۔شدت پسندوں نے قاہرہ میں سیدہ نفیسہ (س) کے مزار کو منہدم کرنے کا اعلان بھی کیا۔ سیدہ نفیسہ (س) خاندان اہل بیت (ع) کی نہایت محترم اور بلند مرتبہ خاتون ہیں، جن کا تمام مکاتب فکر کے مسلمان بہت احترام کرتے ہیں۔2011ء میں ہی عسکریت پسندوں کے بم حموں کے نتیجے میں شمالی سینائی کے علاقوں بیرالعبد اور المغیرہ میں 2 مزاروں کو شدید نقصان پہنچا۔
اسی طرح لیبیا2011ء میں زلتین نامی علاقے میں معروف ترین دینی بزرگ عبدالاسلام الاسمرؒ کا روضہ تباہ کیا گیا۔ یہ بزرگ امام حسن مجتبیٰ (ع) کی اولاد میں سے ہیں۔ حملہ میں 30 مسلمان شہید اور 212 زخمی ہوئے۔ یہ مزار 800 سال پرانا ہے۔ حملہ آور تکفیریوں نے قبر کھود کر حضرت عبدالاسلام الاسمر کی لاش کو باہر نکال کر بیحرمتی بھی کی۔لیبیا میں ایک اور بزرگ الشعاب الدھمانی (رح) کی قبر کو بھی تباہ کیا گیا۔ آپ بھی امام حسن مجتبیٰ (ع) کی اولاد میں سے تھے۔ کرنل قذافی کے قتل کے بعد ایسے دسیوں مزارات تباہ کیے جاچکے ہیں۔
انیسویں صدی کے وسط میں جنم لینے والے دیوبندی اور پھر بریلوی مکاتیب فکر کے مابین بدعت و شرک کی تشریحات کے مسائل پر مناظروں کی حد تک تو تکرار ہوتا رہا مگر ابھی اس اختلاف نے جان لیوا انتہا پسندی کی شکل اختیار نہیں کی تھی۔ گولی نے دلیل کی جگہ نہ لی تھی۔ حتیٰ کہ افغانستان پر سوویت قبضے کے بعد اگلے دس پندرہ برس میں سعودی حمایت یافتہ افغان مجاہدین کے عروجی دور میں بھی درگاہوں اور مزاروں کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ مگر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جب مقامی طالبان نے زور پکڑا اور دیوبند مدارس سے فارغ التحصیل یا ان مدارس کے اساتذہ سے متاثر ہونے والے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا نے نہ صرف شدت پسند دھڑے تشکیل دیے بلکہ تکفیریت کو فروغ دیتے ہوئے گولی کو دلیل سے بدلنے کی کوشش کی اور اس کے جواز کے لیے نظریاتی لٹریچر کی تیاری اور اشاعت کا کام شروع کیا۔
بجائے اس کے کہ مختلف مکاتبِ فکر کے با اثر علماء کرام جنکی کی اہمیت اور مرتبہ و مقام کے لئے اللہ تعالیٰ کی سند کافی ہے کہ ’’میرے بندوں میں مجھ سے زیادہ ڈرنے والے علماء ہیں‘‘ (فاطر۔ 28) اور حضورﷺ کا یہ ارشاد کہ’’بلا شبہ علماء انبیاؑ ء کے وارث ہوتے ہیں‘‘(ترمذی)علماء کی اہمیت جاننے کے لئے اس سے بڑی اورکسی دلیل کی حاجت نہیں ہے معاشرے کو جوڑتے اور تکفیریت پسند رجحانات کو پھیلنے سے روکنے کی بروقت فکری کوشش کرتے۔ الٹا انہوں نے یا تو خاموشی میں عافیت جانی یا پھر خود بھی نئی ہوا کے ساتھ چل پڑے۔ اسی وجہ سے حملہ آور اس کو اسلام سے جوڑ کر ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘کے زمرے میں لا کر مرنے اور مارنے پر کمربستہ نظر آتے ہیں جیسا کہ کچھ دن پہلے ایک و ڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے جو پاکستان کے ’’جیو ٹیلی ویژن نیوز چینل‘‘کے پروگرام ’’جرگہ‘‘میں سلیم صافی صاحب کے ساتھ گفتگو میں ایک اسی ذہنیت کے شخص کے انٹرویو پر مشتمل ہے جو اپنی تمام تر کارروائیوں کو جہاد اور ان کے حملوں میں ’’ننھے منھے بچوں‘‘ کی ہلاکت کوجائز قرار دیتے ہوئے انتہائی سنگدلانہ انداز میں یہ تک کہتا ہے کہ وہ بچے بے گناہ کیوں اور کیسے ہیں؟
یہی وجہ بنی کہ پاکستان میں پچھلے بارہ سال میں جتنے مزاروں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا گیا ان کی تعداد گزشتہ آٹھ سو برس کی برصغیری تاریخ میں نشانہ بننے والی درگاہوں سے بھی زیادہ ہے۔ اگر بڑی درگاہوں پر ہونے والے موٹے موٹے حملے ہی گننے بیٹھیں تو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں 13 نومبر 2016 کو دربار شاہ نورانی میں ہونے والے ایک دھماکے میں 54 افراد شہید ہوئے تھے۔حضرت سخی سرور کے مزار پر چار اپریل 2011 کو ہونے والے دو خود کش حملوں میں 43 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ حملے کے وقت عرس میں شرکت کے لیے ہزاروں زائرین دربار پر موجود تھے۔کراچی میں صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں آٹھ اکتوبر 2010 کو دو خودکش حملوں کے نتیجے میں دس افراد شہیداور 55 سے زائد زخمی ہوئے ۔لاہور میں داتا دربار پر دو جولائی 2010 کو ہونے والے خود کش حملوں میں کم سے کم 35 افراد شہیدہوئے ۔نوشہرہ میں واقع بہادر بابا کے مزار کو نامعلوم افراد نے چھ مارچ 2009 کو بموں سے نقصان پہنچایا۔ تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور کے مضافات میں چمکنی کے علاقے میں پانچ مارچ 2009 کو نامعلوم افراد نے مشہور صوفی شاعر رحمان بابا کے مزار کو تباہ کر دیا تھا۔خیبر ایجنسی میں لنڈی کوتل سب ڈویژن میں 11 مئی 2009 مقبول پشتو شاعر امیر حمزہ خان شنواری کے مزار کی بیرونی دیوار کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا گیا۔پشاور سے ملحق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں مارچ 2008 کو سرگرم لشکر اسلام نے صوبائی دارالحکومت کے قریب شیخان کے علاقے میں چار سو سال پرانا ابو سید بابا کا مزار تباہ کرنے کی کوشش ناکام بنانے کے دوران ایک جھڑپ میں دس افراد شہیدہو گئے تھے۔18 دسمبر 2007 کو عبد الشکور ملنگ بابا کے مزار کو دھماکے سے نقصان پہنچایا گیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں مارچ 2005 میں معروف بری امام کے مزار پر پانچ روزہ سالانہ عرس کے اختتامی دن ایک خودکش حملے میں 20 افراد شہید جب کہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ضلع جھل مگسی میں فتح پور کے مقام پر ایک مزار پر ہونے والے ایک حملے میں 30 سے زائد افراد شہید ہوئے ۔ اس پورے عرصے میں محرم اور دیگر بیسیوں مذہبی جلوسوں اور اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ جس میں سینکڑوں بے گناہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
مگر یہ ہستیاں اپنے لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں کے لیے شائد اس لیے آج بھی زندہ ہیں۔کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں کسی عقیدے سے نفرت نہیں کی اور نہ ہی کسی کو قتل کرنے کا فتویٰ جاری کیا۔میں ذاتی طور پر مزار پرست نہ بھی ہوں مگرمجھے یہ حق حاصل نہیں کے میں کسی عقیدت مند کو درگاہ پر جانے سے روکوں۔اگر میں کسی کو کھانا نہیں کھلا پا رہا اور ہزاروں بھوکوں کا ان درگاہوں پر صبح شام پیٹ بھر رہا ہے تو میں کیوں جلوں؟یہ ہستیاں جنہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے سیکڑوں برس ہو گئے اگر آج بھی دکھ کی ماری خلقت کسی زندہ پرہیزگار عالمِ دین سے زیادہ ان قبر میں لیٹے ہوؤوں کو اپنے دکھ کا مداوا سمجھ رہی ہے تو ذرا سوچئیے کہ اس خلقت کا دکھ کتنا بڑا ہے؟
اس امت کی عمر چودہ سو برس ہے۔اسلاف پرآپ نگاہ ڈالیے تو علماء نے اس امت کو کبھی بھی ذلیل نہیں ہونے دیا، چاہے انہیں اپنے جان کی بازی لگانا پڑی۔کبھی کسی کی عبادت گاہ یا مزار پر حملہ نہیں کیا۔آج کے علماء کے فتویٰ بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عالم طاغوت نے لبرل اور سیکولر مسلمانوں کے ساتھ مل کر عالم اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔مغربی عیاروں کو اس جنگ کے لئے ’’انسانی مواد‘‘کی ضرورت تھی،جو انہیں عالم اسلام میں صرف اسلام پسندوں سے ہی دستیاب ہو سکتا تھا۔ہمارے مذہبی طبقے نے’’شیعہ کفار‘‘اور’’ملحد سنی‘‘کے فتوے اس شدت اور تسلسل کے ساتھ دے رکھے تھے کہ ان فتووں سے متاثر عام مسلمان نوجوان ’’شعلہ آتش‘‘بن کر ’’مرنے مارنے‘‘پر کمر بستہ انتہائی بے صبری کے ساتھ’’سراپا منتظرِ موت‘‘ نظر آتا ہے۔دو عالمی طاقتوں کی ہتھیار بیچنے اور مسلم ممالک پر کنٹرول کی رسہ کشی اور مسابقت میں حالات نے ایسی کروٹ لی یا اس سطح تک پہنچا دیے گئے کہ پورا عالمِ اسلام اس جنگ میں کود پڑا۔اس کے لیے انہیں اپنی فوجوں کے برعکس غیر ریاستی فوج کی ضرورت تھی جو اسلامی تنظیموں نے پوری کردی۔ اسلام پسندوں نے بصیرت کا مظاہرا کرنے کے بجائے اپنے فتووں سے یہ بھٹی اتنی بھڑکا دی کہ ایک درجن مسلم ممالک کی تباہی کے باوجود بھی یہ جنگ رکنے کا نام نہیں لیتی ہے۔
ہم میں سے ہر انسان اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ یہ مرحلہ یک دم پیش نہیں آیا بلکہ اس صورتحال تک پہنچنے کے لئے بڑا عرصہ درکار ہوتا ہے۔یہ صورتحال کیسے پیدا ہوئی؟یہ آپ سے آپ پیدا ہوئی یا پیداکردی گئی؟اس صورتحال میں کیا کیا عوامل کارفرما رہے؟کن کن راستوں سے یہ صورتحال تخلیق کی گئی؟اس میں دوستوں کی سادگی کتنی ہے؟اس میں دشمنوں کا کیا رول رہا ہے؟ اس میں دوست نما دشمنوں کا کردار کتنا موثر رہا اور دشمن نما دوستوں کا کتنا؟د ین کے نام پر پورے عالم اسلام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے پر وہ اسلام نہیں، جو نبی کریمﷺ لیکر آئے تھے، اور جس سے غیر مسلم متاثر ہو کر اس کے سایے میں پناہ لینے پر آمادہ ہو گئے۔جو وحشتناک چہرہ مسلمانوں نے ’’غیر مسلم دنیا‘‘کے سامنے پیش کیا ہے، اس سے پوری غیر مسلم دنیا خوفزدہ ہو چکی ہے۔ان سفاکانہ کارروائیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری دنیا میں’’دعوتِ دین‘‘ کا ’’نبویؐ کام‘‘جہاں کہیں بھی جاری تھا وہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بنتا جا رہا ہے۔غیر مسلم عوام خوف زدہ ہیں یا مثالیں دے دے کر انہیں خوف زدہ کیا جاتا ہے۔حکمران مسلمانوں کو ایک مہلک مرض کی طرح اپنے ممالک کی سرحدوں سے باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں جومسلمان مقیم ہیں وہ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے سخت پریشان ہیں۔ان کی عائلی زندگی پر سوالات کھڑے کئے جا رہے ہیں۔ انہیں غدار تصور کیا جاتا ہے۔مغربی ممالک میں اب اس شک اور مسلمانوں کے اخراج کی مہم کی سپہ سالاری خود امریکی صدر نے اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے۔عام غیر مسلم اور مسلمان دونوں برابر خوف زدہ ہیں۔ کیاموجودہ ایمان اسلاف کے ایمان سے زیادہ طاقتور ہے؟

 

engr.sakhawat ali
About the Author: engr.sakhawat ali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.