کشمیر کے شعلے آتش فشاں نہ بن جائیں

آج سے کوئی تین ماہ قبل کشمیر کے حالات ایسے نہ تھے۔ بلکہ یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ جلد ہی کشمیر میں پوری طرح سے امن لوٹ آئے گا اور کشمیر کے لوگ امن وسکون کی زندگی گزار سکیں گے۔ لیکن یہ کس کی نظر لگ گئی یا کس کی غلط پالیسی نے اچانک کشمیر کی سرد آگ کو ہوا دے دی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ شعلہ جوالہ بن گئی۔ گزشتہ تین ماہ کے حالات کے جائزے سے اندازہ ہوگا کہ آج کے یہ حالات اچانک نہیں پیدا ہوئے بلکہ کشمیری عوام کی بے اطمینانی کہیں نہ کہیں ان کے سینوں میں موجود تھی جس نے موقع ملتے ہی تشدد کے اس راہ کو اختیار کیا۔ کشمیر میں بے اطمینانی کسی اور سبب سے نہیں تھی بلکہ صرف وجہ یہ تھی کہ ایک منتخب جمہوری حکومت کے قیام کے بعد سے بھی عوام کو جمہوری حکومتوں نے مطمئین نہیں کیا۔ خواہ وہ موجودہ عمر عبد اللہ کی حکومت ہو یا گزشتہ مفتی سعید کی حکومت۔ ان دونوں حکومتوں سے کشمیری یوتھ کو کافی امیدیں تھیں۔ انھوں نے اپنی سیاست کو مضبوط کرنے کی تمام دیگر کوششیں تو کیں مگر انھوں نے ریاست کی تعمیر وتشکیل میں کوئی خاص کام نہیں کیا۔ اسی (80) کی دہائی میں جو نسل قتل وخون دیکھ کر جوان ہوئی، انھیں پورے طور پر نہ تو تعلیمی مواقع حاصل ہوئے اور نہ ہی انھیں ریاست کی جانب سے کوئی ایسی پہل نظر آئی کہ وہ کسی ذریعہ معاش سے جڑ جائیں۔ ان کی بیکاری نے بھی انھیں ریاستی جمہوری حکومت سے بیزار کر دیا۔ خاص طور پر عمر عبد اللہ سے لوگوں کو کافی امیدیں تھیں لیکن یہ ریاست کے سب سے کمزور وزیر اعلیٰ ثابت ہوئے۔ حالانکہ اس دوران مرکزی حکومت نے کئی فلاحی اسکیمیں جموں کشمیر کے لیے شروع کیں لیکن اس اطلاق نہیں کیا جاسکا۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ بےاطمینانی کی ایک بڑی وجہ سیاسی کمزوری اور ناکامی ہے ۔

دوسری بڑی وجہ حالات کو عین وقت پر سمجھا نہیں گیا اگر آج سے تین مہینہ قبل جب سری نگر میں تین نوجوانوں کی مبینہ موت سے ہنگامہ کھڑا ہوا، اگر اس وقت ہی اسے سنجیدگی سے لیا گیا ہوتا تو شاید آج یہ نوبت نہیں آتی۔ فوج نے بھی جلد بازی میں ایسی کاروائیاں کیں کہ لوگ بھڑک اٹھے۔ عین اسی وقت ہندوستان میں دنتے واڑا کا واقعہ پیس آیا تھا جہاں نکسلیوں نے 72 فوجیوں کو گولیوں سے بھون دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد بھی ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں نے وہاں فوج کی تعیناتی سے انکار کیا اور وہاں فوج نہیں بھیجی گئی ۔ اس واقعے کو مثال بنا کر کشمیری عوام کو یہ کہہ کر بھڑکایا گیا کہ جہاں فوج کی ضرورت تھی وہاں فوج نہیں بھیجی گئی اور جہاں بغیر فوج کے حالات سنبھل سکتے تھے وہاں فوج بھیج کر حالات خراب کیے گئے۔ اس تناظر میں بار بار یہ بات کی گئی کہ کیونکہ یہ مسلم اکثریت کی ریاست ہے اس لیے مرکزی حکومت نے ایسی کاروائی کی۔ حالانکہ اس پس منظر کو غلط تناظر میں ہیش کیا گیا۔ ہند ومسلم مسئلے کو اٹھا کر اس مزید ہوا دی گئی۔ ادھر امریکہ کے ایک پادری نے دہشت گردانہ رویہ اپناتے ہوئے قرآن کریم کے نسخے کو جلانے کی بات کی۔ اس پادری کے دہشت گردانہ اعلان نے بھی فضا کو گرمایا شکر ہے کہ وہاں اجتماعی طور پر کچھ نہیں ہوا ورنہ حالات کچھ اور ہوتے، مگر اس کے باوجود کئی ممالک میں قرآن کی بے حرمتی ہوئی۔ اس کے خلاف کشمیر میں بڑے پیمانے پر لوگوں نے احتجاج کیا لیکن اس کو آخر کار آزادی کشمیر کے نعرے میں تبدیل کر دیا گیا جس کے سبب بھی کشمیر میں تازہ ترین واقعات سامنے آئے۔ اور اب 30 ستمبر کو بابری مسجد کا فیصلہ آنے والا ہے۔ اس فیصلے کی آمد سے قبل ہی پورے ملک کی فضا حساس ہو گئی ہے۔ اس لیے اس موقعے سے بھی انتظامیہ کو باخبر رہنا ہوگا تاکہ اس حوالے سے کشمیر میں کوئی تشدد کا نیا واقعہ سامنے نہ آجائے۔ حالانکہ مرکزی حکومت کشمیر کے معاملے میں سنجیدگی سے کام کر رہی تھی اسی لیے کشمیر کو کئی پیکیج بھی دیا گیا۔ ریلوے لائن سے لے کر سڑک کی تعمیرات پر بھی کام کیا گیا۔ اور وزیر اعظم کی جانب سے ریاست کو خود مختاری دئے جانے کی پیش کش بھی ہوئی۔ اس پیشکش سے علیحدگی پسند عناصر کو یہ لگنے لگا کہ اس کے بعد ان کی اجارہ داری اور سیاسی بازار ختم ہوجائے گا تو انھوں نے سرے سے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔اور حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے وہ کسی ایسے موقع کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ چند واقعات ایسے ہوئے جس کا فائدہ اٹھا کر پورے خطے میں تشدد کی لہر کو ہوا دی گئی۔ اب حالات یہ ہیں کہ اتنی آسانی سے اسے نہیں سدھارا جاسکتا۔ جس کشمیر میں امن و امان بحال کرنے کے لیے اتنی کوششیں ہوئی تھیں وہ سب کے سب رائیگاں ہو رہی ہیں۔

مرکز میں آل پارٹی مٹینگ سے بھی کوئی نتیجہ نہیں بر آمد ہوسکا۔ اس کے علاوہ اس واقعے سے وہاں کی علیحدگی پسند عناصر کو موقع ملا اور انھوں نے بر وقت اس اشتعال کو اپنی جانب موڑ لیا۔ لوگوں کے غم و غصے کو بڑھانے کے لیے انھوں نے طرح طرح کے الزامات فوج اور ریاستی انتظامیہ پر لگائے۔ حریت پسند لیڈروں نے بھی اس آگ کو ہوا دی اور اب تک وہ رہنما جو اعتدال پسند کہے جاتے رہے تھے وہ بھی اس آگ میں کود پڑے اس طرح کل ملا کر دیکھتے ہی دیکھتے پورے کشمیر میں احتجاج کی ہوا پھیل گئی۔ لیکن ریاستی حکومت سمیت مرکز نے بھی اس نزاکت کو نہیں سمجھا اور اب تک کوئی تدبیر بھی نکل کر سامنے آئی ہے۔ کہنے کو تو آل پارٹیز کا ایک ہائی لیول ڈیلگیشن سری نگر گیا مگر اس طرح کہ پورے کشمیر میں کرفیو لگا رہا۔ عام لوگوں سے رابطہ ان کےایجنڈے میں تھا ہی نہیں اور نہ انھوں نے ایسا کوئی لائحہ عمل بنایا جس سے عوام کو اعتماد میں لیا جاسکے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ احتجاج کی لہر پوری ریاست میں پھیل چکی ہے اگر بر وقت اس کا تدارک نہ کیا گیا تو کہیں یہ آتش فشاں کی صورت نہ اختیار کر لے۔ ہندستانی سیاستدانوں کو چاہیے کہ کشمر میں بھڑکتے شعلوں کو آگ نہ بننے دیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر کشمیر کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔
Honey Ahmad
About the Author: Honey Ahmad Read More Articles by Honey Ahmad: 10 Articles with 10926 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.