انڈیا میں کامن ویلتھ گیمز

1930میں کینیڈا کے شہر ہملٹن میں برٹش ایمپائر گیمز منعقد ہوئیں ان میں گیارہ ممالک نے حصہ لیا اور تب سے اب تک یہ مقابلے منعقد ہو رہے ہیں سوائے 1942اور 1946کے کہ جنگ عظیم دوم کی وجہ یہ کھیل نہ ہو سکے، تاہم اس کا نام بدلتا رہا۔ 1966میں انہیں برٹش ایمپائر اور کامن ویلتھ گیمز 1970اور 1974میں برٹش کامن ویلتھ گیمز اور 1978میں اس کو موجودہ یعنی کامن ویلتھ گیمز کا نام دیا گیا۔

مختلف اوقات میں مختلف ممالک میزبانی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ زیادہ تر آسٹریلیا، کینیڈا اور برطانیہ نے ان کھیلوں کی میزبانی کی اور کھلاڑی ہمیشہ بین الاقوامی معیار کے انتظامات سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس بار ان کھیلوں کی بدقسمتی کہیئے یا بھارت کی کہ 2010 کے کھیلوں کی میزبانی بھارت کو دی گئی اور جوں جوں کھیلوں کی تاریخ نزدیک آ رہی ہے توں توں "Rising India" اور "Incredible India"کی عظیم انتظامی صلاحیتوں کی قلعی کھل رہی ہے۔ وہ ممالک جو بھارتی پراپیگنڈے اور پھیلائے ہوئے فساد کی وجہ سے پاکستان آنے سے کتراتے تھے اور بھارت ان کو محفوظ لگتا تھا وہ بھی ان مقابلوں میں جانے سے خوفزدہ ہیں اور یہاں ان کے خوف کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں۔ دہشت گردی بھی صحت بھی اور چھتوں کے نیچے آ کر دب جانے اور پلوں کے اوپر سے گر کر مرنے ورنہ کم ازکم شدید زخمی ہونے کا خوف بھی اور سارے ممالک اور کھلاڑیوں نے برملا اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ آسٹریلیا جو کہ اب تک ہونے والی تمام سترہ کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کرتا رہا ہے اور سب سے زیادہ مرتبہ سر فہرست بھی رہا ہے وہ بھی ان کھیلوں میں شرکت سے شدید خوفزدہ ہے اور اس کی حکومت اور خود کئی کھلاڑی بھی اپنی حفاظت کے بارے میں تشویش رکھتے ہیں۔ کیونکہ اگر ان کی کرکٹ ٹیم کو دھمکیاں مل سکتی ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کے ایتھلیٹ، تیراک اور کوئی بھی کھلاڑی، کوئی بھی منتظم اپنی جان کو کیسے محفوظ سمجھے۔ اسی طرح انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، آئر لینڈ اور کئی دوسرے ممالک حفاظتی انتظامات کے بارے میں بالکل بھی مطمئین نہیں ہیں اور آسٹریلیا کے وفد کی حفاظت کے لئے تو شاید انہیں اپنی فیڈرل پولیس کو ساتھ لے جانا پڑے کیونکہ تجویز تو ایسی سامنے آ چکی ہے۔ RSS، بجرنگ دل، بال ٹھاکرے یہ سارے نام ہی کھیلوں کو بھارت سے دیس نکالا دینے کو کافی ہیں۔ اسی لیے تو انگلینڈ کے دفاعی چیمپئن سائیکلسٹ نے بھی کھیلوں میں جانے سے انکار کر دیا ہے تمغہ اپنی جگہ اہم لیکن زندگی کی قیمت پر نہیں کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔ وہ تمغہ اگلی بار بھی جیت لیں گے زندگی گئی تو گئی۔

اس سارے معاملے میں جو دلچسپ بات پیش آئی وہ یہ الزام تھا کہ آئی ایس آئی دولت مشترکہ کھیلوں میں دہشت گردی کروا سکتی ہے۔ وہی بات ہوئی نا کہ ممبئی کی کسی سڑک پر رات کو کھلے آسمان کے نیچے سوئے ہوئے بے گھر مزدور کی دل کے دورے سے موت واقع ہوئی تو ذمہ دارآئی ایس آئی ہے۔ اسی اصول کے پیش نظر دہلی کی وزیر اعلٰی مسز شیلا ڈکشٹ نے یہ بات کہی اور اپنے ہر جرم پر پردہ ڈالنے کے لئے آئی ایس آئی کا نام لینے کے رہنما اصول کو اپنا کر ہی بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نارائن نے بھی گڑبڑ کے لئے آئی ایس آئی کو ہی ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آئی ایس آئی اور پاکستان کے کہنے پر کامن ویلتھ گیمز ویلج کو اس قدر ناقص تعمیر کیا گیا کہ پہلے ہی اس کی حالت مخدوش ہو گئی۔ بی بی سی نے 21ستمبر کو کھیلوں کے انتظامات کے بارے میں ایک رپورٹ نشر کی جس میں بتایا گیا کہ چونتیس رہائشی ٹاورز میں سے بہت سے ابھی تکمیل سے بہت دور ہیں جن کمروں کا بین الاقوامی ٹیموں نے معائنہ کیا بہت سے پانی سے بھرے ہوئے تھے اور بقول بی بی سی کے انسانی رہائش کے لئے ناموزوں تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دہلی میں منتظمین کی کمیٹی کے صدر سریش کالماری نے اسی ویلج کو بیجنگ اولمپک ویلج کے معیار کا قرار دیا تھا۔ دراصل منتظمین نے اس حقیقت کو سراسر نظر انداز کر دیا تھا کہ ویلج جمنا کے سیلابی علاقے میں واقعہ ہے اور ساتھ ہی اس علاقے میں بھی جو دارلحکومت کے کسی بھی حصے سے زیادہ زلزلے کی زد میں آ سکتا ہے یہ بھارت کی تکنیکی مہارت کا ایک عظیم ثبوت ہے اور اپنی تعمیراتی مہارت کا ثبوت بھارت نے تب فراہم کیا جب جواہر لال نہرو سٹیڈیم کے نزدیک پیدل چلنے والوں کے لئے بنایا گیا پل زمین بوس ہو گیا اور ستائیس مزدور زخمی ہو گئے جن میں پانچ شدید زخمی بھی شامل تھے۔ یاد رہے کہ افتتاحی اور اختتامی تقریبات اسی سٹیڈیم میں ہونی ہیں۔

جگہ جگہ بلکہ ہر جگہ کھڑے پانی میں مچھروں کی افزائش سے ڈینگی وائرس کا خطرہ الگ موجود ہے جبکہ بھارت کے دوسرے حصوں کی طرح ملیریا اور پیٹ کے امراض سے بچاؤ تو یقیناً خارج از امکان ہی ہے۔ جغرافیائی حالات اپنی جگہ لیکن منصوبہ بندی کی اہمیت اپنی جگہ مستحکم ہے۔ بھارت ان کھیلوں کی میز بانی حاصل کرنے میں تو کامیاب ہو گیا لیکن اس کے بعد خود کو اس کا اہل ثابت کرنے کے لئے اس نے کسی کوشش کی ضرورت نہ سمجھی کیونکہ وہ "Rising India" اور "Incredible India"کہتا ہے تو دنیا مان لیتی ہے خود کو اکنامک ٹائیگر کہتا ہے تو بھی دنیا تسلیم کر لیتی ہے اور وہ وہاں سرمایہ کاری شروع کر دیتی ہے۔ ہاں اس بار اس نے سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا اچھا ثبوت فراہم کیا ہے اور کام کرنے والے ٹھیکیداروں کو کھلی چھٹی دی کہ جو چاہے کریں، جیسا چاہے بنائے، گرے یا جما رہے بھارت کے خیال میں جتنا مالی فائدہ وہ اٹھا سکتا تھا اٹھا چکا۔ دراصل اس کے ذہن میں ایک ہی منصوبہ تھا جس کا اظہار اس کے عہدیدار کر بھی چکے ہیں کہ کھیلوں میں کسی بھی دہشت گردی کے لئے آئی ایس آئی ذمہ دار ہوگی شاید بھارت اب یہ بھی کہہ دے کہ خراب مٹیریل آئی ایس آئی کے کہنے پر لگایا گیا ہے۔ چلیں مان لیا لیکن پھر یوں کیوں نہ کیا جائے کہ بھارت کی حکومت آئی ایس آئی کے حوالے کر دی جائے کیونکہ وہاں کے عوام اپنی حکومت سے زیادہ اس پاکستانی ادارے کے تابع فرمان ہیں۔

اگرچہ بہت سے ملکوں نے اپنے وفود کی بھارت آمد موخر کر دی ہے لیکن بھارت کا اصل چہرہ اب بھی شاید دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے اور ہمارے کچھ بزعم خود غیر جانبدار لکھاری اور تجزیہ نگار جو بھارت کی مدح سرائی اور ترقی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں، کے لئے بالخصوص اور دنیا کے لئے بالعموم اپنی آنکھیں کھولنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ بھارت کی سازش پر پاکستان سے 2011 کے کرکٹ ورلڈکپ کی میزبانی چھینی گئی جس کے لئے اس نے سری لنکا کی ٹیم پر حملہ کرایا۔ لیکن اب سر پر آئے ہوئے دولت مشترکہ کے کھیلوں کی میزبانی کے لئے وہ مشکلات کا شکار بھی ہے اور دنیا کے اعتراضات کی زد میں بھی اور کھیل شروع ہونے سے پہلے کے یہ اعتراضات جہاں انتظامی اور منصوبہ بندی کے امور سے تعلق رکھتے ہیں وہیں بھارت میں ہر شعبے میں پھیلی ہوئی کرپشن کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 511458 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.