ڈیجیٹل دور کی پاکستانی عورت

میری دوست پر ایک دن انکشاف ہوا کہ فیس بک پر ان کی فیک آئی ڈی بنائی گئی ہے، جس کے ذریعے غیراخلاقی تصاویر اور دیگر مواد شیئر کیا جارہا ہے۔ میری یہ دوست یونی ورسٹی میں تدریس کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ سو خاتون ہی نہیں استاد کی حیثیت سے بھی ان کی عزت اور وقار خطرے میں تھے۔ پریشان خاتون نے متعلقہ ادارے سے رابطہ کیا، تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ حرکت کرنے والا کوئی اور نہیں ان کے ادارے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص تھا جو ادارہ میری خاتون دوست کچھ عرصہ پہلے چھوڑ چکی تھیں۔بہرحال معاملہ سامنے آنے کے بعد باقاعدہ کاروائی کا ارادہ کیا گیا۔ جس کے بعد ایف آئی اے سے رابطہ کیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ کیس بنتا بھی ہے یا نہیں۔ سال بھر بعد ان کی محنت رنگ لائی، کیس درج ہوا، وہ شخص پکڑا گیا اور اس کے خلاف کارروائی عمل میں آئی۔

میری دوست تو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک معزز پیشے سے وابستہ خاتون ہیں، انھوں نے بہت پریشانی کے ساتھ ہی سہی صورت حال کا سامنا کرلیا۔ لیکن اگر کسی عام عورت کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو وہ کیا کرے گی؟ وہ کیسے سامنے آکر اپنے مسئلے پر بات کرسکتی ہے؟ یہ صرف مفروضہ نہیں ایک تلخ حقیقت ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھنے کے ساتھ خواتین کی سیکیوریٹی کا مسئلہ ایک نئی صورت میں سامنے آتا ہے۔ خواتین کو ہراساں کرنے، بلیک میل کرنے اور بدنام کرنے کے لیے اب سیاہ کردار لوگ موبائل فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ان کا انحصار ہمارے معاشرے کے رویے اور مائنڈ سیٹ پر ہوتا ہے اور اسی بنا پر وہ اپنے مکروہ مقاصد میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا چلن یہ ہے کہ اگر کسی لڑکی کو یونی ورسٹی جاتے ہوئے راستے میں کوئی اوباش شخص تنگ کرے اور وہ اس بارے میں گھر پر بتائے تو اس کی تعلیم چھڑوا کر گھر بٹھا دیا جاتا ہے، اگر کسی ملازمت پیشہ خاتون کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے تو ہدایت ملتی ہے کہ نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھ جاؤ، اگر کسی عورت کو فون پر تنگ کیا جارہا ہے تو اس مسئلہ کا حل عورت کے فون اٹھانے پر پابندی لگاکر نکالا جاتا ہے۔ موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی یہی مائنڈسیٹ اپنا کام کرتا ہے۔ مردوں کی طرح خواتین کو بھی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا پورا حق ہے، لیکن اگر کسی خاتون کو ہراساں یا پریشان کیا جائے تو اسے ٹیکنالوجی سے دور کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی عورت یا لڑکی کو بلیک میل کیا جارہا ہو اور وہ یہ مسئلہ سامنے لائے تو سب سے پہلے وہ مجرم قرار پاتی ہے۔ یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ اس نے کچھ کیا ہوگا، اس کی غلطی ہوگی۔ ایسے میں وہ بہت سے لوگوں کے سامنے ذلت اور شرمندگی سہنے کے بہ جائے ایک شخص کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کو ترجیح دیتی ہے۔ اگر کوئی خاتون ایسے کسی مسئلے کے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتائے تو اس پر اعتماد کیا جانا چاہے، اسے تسلی دینی اور اس کی مدد کرنی چاہیے ، مگر اس کے لیے مائنڈسیٹ بدلنے کی ضرورت ہے۔
یہ مسئلہ صرف عام خواتین تک محدود نہیں۔ ہمارے یہاں ہوتا یہ ہے کہ اگر آپ کو کسی عورت سے اختلاف ہے، اس کی کوئی بات پسند نہیں،

اس سے بدلہ لینا ہے تو اس کی عزت اور وقار کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پروفیشنل لکھنے والی خواتین کو اس صورت حال کا سامنا روز کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ آن لائن اپنی بات کرے، اپنا موقف پیش کرے، کسی سے اختلاف کرے، تو اسے چپ کرانے کے لیے رکیک الفاظ کا استعمال، ذاتی حملے اور کردار کشی کے گندے ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ ماننے کی ضرورت ہے کہ عورت کا احترام لازم ہے اور سوشل میڈیا کا استعمال اس کا بھی حق ہے۔

ہراسمنٹ کا عمل ہو، بلیک میلنگ یا سوشل میڈیا پر رکیک حملے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کے مائنڈسیٹ اور نظام انصاف کم زور ہونے کی وجہ سے خواتین شکایت کرنے اور آواز اٹھانے سے قاصر رہتی ہیں۔ چناں چہ ضروری ہے کہ اس اہم مسئلے سے نمٹنے کے لیے ادارے کیا کرسکتے ہیں اور کس طرح کے قوانین بنائے جاسکتے ہیں جو خواتین سے مخصوص ہوں۔

ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی دست یاب نہیں جس کی مدد سے موبائل فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر خواتین کو ہراساں، بلیک میل اور پریشان کرنے والوں تک فوری پہنچا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے متعلقہ اداروں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔

جہاں تک خواتین کا تعلق ہے تو انھیں خود بھی محتاط طرز عمل اپنانے اور ٹیکنالوجی کی زیادہ سے زیادہ سمجھ بوجھ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم مختلف رشتوں میں بندھے ہوتے ہیں، نہایت قابل اعتماد رشتوں کے ساتھ دوست، منگیتر اور کولیگز کے رشتے بھی ہمارے لیے اہم ہوتے ہیں، لیکن ان رشتوں کو برتتے ہوئے حدود قائم اور اس بات کا پوری طرح خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ کس پر کس حد تک اعتماد کیا جائے۔

خواتین کو کچھ باتوں کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے: اپنے اینڈرائڈ فون کی لوکیشن ہمیشہ آف رکھیں تاکہ کسی کو پتا نہ چلے کہ کس وقت آپ کس مقام پر ہیں، موبائل فون پر پاس ورڈ ڈالیں تاکہ اگر وہ کسی کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اسے غلط طور پر استعمال نہ کرسکے اور اس میں سے معلومات حاصل نہ کرسکے، اسی طرح اپنے ای میل ایڈریس، سوشل میڈیا سائٹ وغیرہ کا پاس ورڈ کسی کو نہ دیں، اپنا پاس ورڈ محفوظ رکھنا آپ کا بنیادی حق ہے، کسی کو حق نہیں کہ وہ آپ سے آپ کا پاس ورڈ مانگے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم ڈیجیٹل عہد میں داخل ہوچکے ہیں، ہمیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال اور اس کے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا۔ اس سے دور رہ کر یا کسی کو دور رکھ کر ہم مسئلے حل نہیں کر سکتے الجھنیں بڑھا ضرور سکتے ہیں۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 282426 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.