مردم شماری کا آغاز ، معذور افراد قومی دھارے سے آؤٹ

کفر ٹوٹا خد اخدا کرکے ، باربار عدالتی احکامات کے بعد حکومت وقت کو باامر مجبوری مردم شماری کرانی پڑی۔محکمہ شماریات پاکستان پاک فوج کے 2لاکھ جوانوں کی مدد سے پاکستان کی آبادی سے متعلق اعداد و شمار اکھٹے کریں گے ۔ پاکستان کا ہر کام فوج کی نگرانی میں ہی ہوتا ہے ۔ ہماری سول انتظامیہ عضو معطل کی طرح صرف اور صرف اپنی ذات کے حصار میں قید معاملات کو لٹکانے اور جیبیں بھرنا جانتے ہیں ۔ پاکستان کی بیوروکریسی اصلاح کے عمل سے صدیوں دور وہ بے لگام گھوڑا بن چکی ہے جسے کوئی نکیل نہیں ڈال سکا۔ ایک معمولی کلرک ، سپریڈنٹ سے لیکر ڈپٹی سیکرٹری اور سیکٹری تک کے افسران کے ٹھاٹھ باٹھ تو شاہانہ ہیں ہی لیکن ان کے رویے ، تکبر ، گھمنڈ بھی ناقابل بیان ہے۔ مردم شماری کے نتیجے میں حکومتیں یہ اندازہ لگاتی ہیں کہ ملک میں مردوں کی تعداد، خواتین کی تعداد، گھروں اور بے گھروں کی تعداد، برسرروزگار اور بے روزگار ، اَن پڑھ اور خواندہ، غریب اور امیر، تندرست اور بیمار، معذور اور فل فٹ افراد کتنے ہیں ۔ آئین کے مطابق ہر دس سال بعد مردم شماری کا اہتمام کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور آبادی کے تناسب سے حلقہ بندیاں، وسائل کی تقسیم اور ترقیاتی پروگراموں کا اجراء اور بجٹ کی تشکیل ہونی چاہئے۔ لیکن موجودہ مردم شماری اس لحاظ سے سمجھ سے بالاتر ہے کہ 50سے 60سوالات والا فارم معذور افراد کے خانے سے خالی ہے ۔ شماریات کے بقول اس حوالے سے سروے فیز 2میں کیا جائے گا لیکن یہ سب جھوٹ او رڈرامہ ہے ۔ معذور افراد کے نام پر NGO'sاوربیرونی حکومتیں اربوں روپے کے فنڈز دیتی ہیں بیت المال اور زکوٰۃ اکٹھی کی جاتی ہے لیکن رز گار، تعلیم و تربیت یا فلاح و بہبود کے لیے کوئی خاطر خواہ وفاقی یا صوبائی سطح کا پروگرام نہیں ۔ موجودہ مردم شماری سے کم از کم یہ امیدتھی کہ مختلف معذوری کا شکار افراد کے مسترد اعداد و شمار اکٹھے ہوجائیں گے جس سے شاید کوئی فلاح وبہبود کی صورت نکل سکے لیکن پانامہ میں الجھی حکومت بے لگام بیوروکریسی، گونگابہرہ میڈیا اس معاملے پر ایک ہی صف میں کھڑے ہیں کہ پاکستان کے 10فیصد طبقے کو دیوار سے لگا کر انہیں سڑکوں پر بھیک مانگنے کیلئے چھوڑدو۔ یہ صرف بخشش اور دعائیں کریں۔ لوگوں کے ٹکڑوں پر پلیں خدمت کارڈ کے نام پر بھیک لیتے رہیں ان کے نام پر بنے اسپیشل ایجوکیشن کے ادارے اور وزارت لوٹ مار کرتے رہیں او رخاموشی سے کروڑوں افراد کی حق تلفی کرکے انہیں پاکستانی معاشرے سے آؤٹ کردیا جائے ۔ ا س مجرمانہ غفلت کے خلاف معذور افراد صرف ایک دوسرے کو Massagesکرکے بھڑاس نکالتے رہے نہ کسی کو رٹ پٹیشن دائر کرنے کی ہمت ہوئی نہ کوئی مظاہرہ ہوا نہ کوئی پریس ریلیز جاری ہوئی اور حکومت نے چالاکی اور ہوشیاری سے اپنا کام کر دیا۔ ہمارا معاشرہ 70سال بعد بھی ذہنی پسماندگی اور فرسودگی کا شکار ہے ،لوگ اپنے معذور بچوں کو ظاہر کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں انہیں پڑھانا بے فائدہ سمجھتے ہیں ۔ والدین کے خیال میں ان کی تمام تر حسیں ختم ہیں کوئی دنیاوی خواہش ان میں نہیں صرف یہ ہماری بخشش کا ذریعہ ہیں ۔ یہاں تک کہ اہل خانہ دعوتوں اور فیملی فنکشنزز میں انہیں لے جانا تو درکنار ساتھ بیٹھ کر کھلانا بھی ناپسند کرتے ہیں ۔ وراثتی حقوق انہیں حاصل نہیں آبادی کاری ان کی نہیں کی جاتی ۔ یہاں تک کہ اگر تمام اہل خانہ کیلئے نئے کپڑے اور جوتے خریدے جائیں تو اس خریداری میں ان کا حصہ نہیں ہوتا لیکن اگر وہی معذور کسی طرح کمانے لگے یا اسے کچھ امداد مل جائے تو وہ تب تک آنکھ کاتارا بن جاتاہے جب تک اس کے پاس موجود پیسے ماں باپ یابہن بھائی ہڑپ نہ کر لیں ۔ بہت سے معذور افراد محض اس لیے قتل کر دیئے گے کہ وہ اپنی خاندانی وراثت کے اکلوتے حق دار تھے نہ پرچے کٹے نہ کوئی کارروائی ہوئی ۔ ٹاٹے پور سے تعلق رکھنے والے حسین اور اس کی بہن صغریٰ نابینا تھے اور حسین کو زہر دیکر ماردیا گیا اور آج اس واقعہ کو 22سال گزرگئے ۔ امیر آباد کے فیاض حسین اور بہاولپور کے محمد نعیم پھکی فروش نابینا عین ولیمے کے دن لوٹ لئے گئے کہ ان کیساتھ نکاح کرنے والی خواتین سب کچھ گھر سے لیکر اپنے بینا عاشق کے ساتھ بھاگ گئیں اور بعد ازاں فیملی کورٹ سے خلع کی ڈگری بھی حاصل کرلی۔ لیکن بے حس معاشرہ گونگا بہرہ ہی رہا کیونکہ جس قوم میں شاہزیب جیسے جوان بیٹے کا لہو دیت کے عوض ایک DSPفروخت کر دے وہاں انسان گاجر مولی سے بھی زیادہ سستے ہوتے ہیں اورہم پاکستانیوں کا خون تو سفید ہونے کے ساتھ ساتھ نیسلے سے بھی سستا ہو چکا ہے ۔ ہمیں یا د نہیں کہ آج تک سول سوسائٹی ، رائٹس آف ڈس ایبلز کیلئے اٹھی ہو کوئی ٹاک شو ہوا ہو ، کوئی کالم لکھا گیا ہو ۔ قائداعظم نے پاکستان بناتے ہوئے ہمارے حقوق عام شہریوں کے برابر متعین فرمائے لیکن پڑھے لکھے جاہلوں کا یہ عالم ہے کہ جیو کے مارننگ شو کی میزبان ہمامہر بلائنڈ Tٹوئنٹی ورلڈ کپ پر بات کرتے ہوئے نابینا کے بجائے اندھا اندھا کرتی رہیں ۔ سٹیج ڈراموں اور مزاحیہ شوز میں جگت باز ہم پر جملہ کستے ہیں ۔ یہ احمق اور جاہل لوگ نہیں جانتے کہ یہ کسی کی ہنسی کا سامان کرنے کے بجائے ہم معذور افراد کو اپنے جملوں کے نشتر چبھو کر کس اذیت میں مبتلا کررہے ہیں ۔ اور حکومت کی موجودہ مجرمانہ غفلت نے ہمارے اس خیال کو مزید تقویت دی کہ ہم یہاں اچھوت یا تھرڈ کلاس کی حیثیت سے تورہ سکتے ہیں عام پاکستانی شہری کی طرح نہیں ۔

قارئین محترم! کوئی ماں اپنے پیٹ سے صولت مرزا ، اجمل پہاڑی ، بابا لاڈلہ یا عزیز بلوچ جیسوں کو مجرم کی حیثیت سے جنم نہیں دیتی ہاں کچھ عادی مجرم ہوتے ہیں لیکن بہت سوں کو حالات و واقعات، ریاستی پالیسی اور جبر، ناانصافی باغی بنا دیتی ہے اور پھر وہی باغی انتقام کی آگ میں جل جل کر دہشت گرد بنتے ہیں پھر انہیں مارکر اس پر فخر محسوس کیا جاتاہے ۔ غیر ریاستی فتنہ پردازوں کا قلع قمع درست مگر جب تک حکومت اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرے گی سب کو ان کے حقوق نہیں دے گی تب تک بغاوت اور باغی ختم نہیں ہوں گے ۔ اورہم اسی ریاستی ناانصافی کا خمیازہ 1971ء میں بھگت چکے ہیں لیکن ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ وزیر اعظم پاکستان سمیت تمام سیاسی پارٹیاں اور لیڈرز بیک وقت حکومت کے مزے اور اپوزیشن کا کھیل کھیل رہی ہیں یہ سب رہنما خواتین کے حقوق کیلئے موم بتی مافیا کے ساتھ کھڑے ہونا فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کی مغرب میں ریٹنگ بڑھتی ہے لیکن معذور افراد کے صلب ہوتے ہوئے حقوق دراصل قدرت کے آگے ان کی ریٹنگ ڈاؤن کررہے ہیں اور ان حکمرانوں کو یوم حساب ہمارے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہونا پڑے گا۔ جب ہم پاکستانی ہی نہیں ہمارے اعداد و شمار کی کسی کو ضرورت ہی نہیں؟ ہمارے مسائل کی پرواہ نہیں ؟ ہماری فلاح کیلئے کسی کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ؟ کوئی قانون سازی نہیں ؟ کوئی آواز ہمارے حق میں بات کرنے والی نہیں ؟کوئی قلم ہمارے لئے لکھنے والی نہیں ؟ اور کوئی عدالت ہمیں از خود انصاف دینے کو تیار نہیں ؟ اور کوئی وکیل ہمارا مقدمہ لڑنے کو تیار نہیں؟ تو اس مردم شماری سے ہمارا کیا لینا دینا۔ ہاں یقین کام اور توکل ہے کہ جس حکومت نے ہمیں قومی دھارے سے آؤٹ کرنے کی کوشش کی ہے وہ جلد خود آؤٹ ہونے والی ہے وہ بھی پکی پکی۔ کیونکہ میاں صاحب کی پارٹی جب بھی بکھرتی ہے تو آندھی میں شاپر کی طرح سیاسی لوٹے مختلف بلوں میں گھستے ہیں اور یہی تاریخ ہے جو پھر دہرائی جانے والی ہے ۔ کیونکہ اﷲ کی دی گئی امانت یعنی اقتدار کا سہی استعمال نہ کرنے والے بعض دفعہ دنیاوی ایمپائر سے بچ بھی جائیں تو واحد و یکتا اور بے مثل منصف ایمپائر کے ہاتھ سے ہو جاتے ہیں آؤٹ ۔یہ اس بار کا کڑوا سچ۔

Qazi Naveed Mumtaz
About the Author: Qazi Naveed Mumtaz Read More Articles by Qazi Naveed Mumtaz: 28 Articles with 21624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.