اسلام میں شوریٰ کا نظام

عربی زبان میں شوریٰ کے معنی، اشارہ کرنا، مشورہ کرنا، اظہار رائے کرنا اور غور و خوض کرنا اور عربی لغت میں شہد کو چھتے سے نکالنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے مثلا "شار العسل"اس نے چھتے سے شہد کو نچوڑا اس عمل کو شوریٰ کہتے ہیں۔

شہد کی مکھی کے چھتے سے جب شہد نکالا جاتا ہے تو اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ ہزاروں مکھیاں ہزاروں پھولوں پر جا کر ہزارہا قسم کے رس چوس لیتی ہیں، ایک پھول کی خوش بو ایک طرح کی ہے، دوسرے کی دوسری طرح کی ہے کسی ایک پھول میں ایک قسم کے طبی فوائد ہیں دوسرے پھولوں میں دوسرے قسم کے فوائد ہیں، کسی ایک پھول میں اللہ تعالیٰ نے ایک طرح کی شفا رکھی ہے اور دوسرے میں دوسرے قسم کی شفا رکھی ہے۔ یہ ہزاروں مکھیاں یوں ہزاروں قسم کا رس چوستی ہیں اور پھر سب مل کر شہد بناتی ہیں یہ سب مل کر ایک ایسا اجتماعی رزق بن جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے شفا رکھی ہے۔

گویا اس لفظ کے استعمال سے جو پیغام ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جب شوریٰ کا عمل اپناؤ تو اس طرح کی تدابیر اور طریقہ کار اختیار کرو کہ ہر فرد کے پاس جو حکمت وعقل اور دانائی ہے ایک ایک سے وہ دانائی حاصل کر لو پھر ان تمام انفرادی دانائیوں کو اس طرح سے ایک ملکی اور ملی شفا بنا دو کہ اس میں پوری امت کے لیے رہنمائی ہو۔(محاضرات فقہ ،ڈاکٹر محمود احمدغازی صفحہ ۳۸۰)

اصطلاحی تعریف :
جماعتی نوعیت کے جن امور کے متعلق قرآن وسنت میں واضح تصریح موجود نہ ہو امت مسلمہ ان پر آزادانہ رائے زنی کے ذریعے فیصلہ کرے۔

شوریٰ کی اہمیت ازروئے قرآن
مشورے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں "شوریٰ" نام کی ایک سورت ہے۔ اور حضور اکرم ﷺ کو صحابہ کرام ؓ کے ساتھ مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا ۔ ارشاد ربانی ہے " وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ ١٥٩؁(آل عمران ) اور شریک مشورہ رکھو ان کو ایسے (اہم اور اجتماعی) کاموں میں، پھر جب آپ (کسی معاملے میں) پختہ ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ کر(کے اس میں لگ )جاؤ ،بے شک اللہ محبت رکھتا (اور پسند فرماتا)ہے ایسے بھروسہ کرنے والوں کو ابن جریر طبری، امام جصاص حنفی، امام بغوی، ابن جوزی، رازی، قرطبی، ابن کثیر، آلوسی ؒ نے اپنی تفاسیر میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو مشورہ لینے کا حکم اس لیے دیا گیا کہ امت کے لیے شورائیت کی سنت قائم ہوجائے۔ (اسلامی سیاست صفحہ ۲۸۷،گوہر رحمان )

اور اسی طرح مومنین کے بارے میں ارشاد فرمایا "وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ 38؀ۚ(شوری ) اور جو اپنے (اہم) معاملات باہمی مشورے سے چلاتے ہیں۔

شوریٰ کی اہمیت ازروئے حدیث
1۔حضرت علی ؓ نے پوچھا کہ یارسول اللہ ﷺ "اگر ہمارے درمیان کوئی واقعہ پیش آجائے جس کے بارے میں نہ کوئی امر ہو اور نہ نہی تو ایسے واقعے کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا اس بارے میں عبادت گزار اور دیانت دار ماہرین شریعت سے مشوری کرلیا کرو اور انفرادی رائے اختیار نہ کرو "(مجمع الزوائد صفحہ ۱۶۸جلد اول ،اسلامی سیاست ،صفحہ ۲۹۶)
2۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں "میں نے ایسا شخص نہیں دیکھا جو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ لوگوں سے مشورہ کرنے والا ہو "(ترمذی شریف جلد اول ،اسلامی سیاست صفحہ ۲۹۷)
3۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مشورہ کرنے والا شخص کبھی حق سے محروم نہیں ہوتا اور اپنی ذاتی رائے کو کافی سمجھنے والا خود پسند شخص کبھی سعید نہیں ہوسکتا "(قرطبی جلد ۴،صفحہ ۲۵۱،اسلامی سیاست صفحہ۲۹۷)

عہد نبوی میں مجلس شوری کے اجلاس
1۔شورائے اذان سن ۱ھ:
"انس بن مالک ؓ اور ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ مدنی دور کے آغاز میں لوگ نماز کے اوقات اپنے اپنے اندازے سے متعین کرتے تھے ایک روز اس کے لیے مشورہ کیا گیا کسی نے یہود کے بوق(سینگ)کی تجویز پیش کی، اور کسی نے نصاریٰ کے ناقوس (چھوٹی لکڑی کو بڑی لکڑی پر مارنا )کی، مگر حضرت عمر ؓ نے تجویز پیش کی کہ ایک شخص کو مقرر کیا جائے جو نماز کے اوقات میں بلند آواز سے لوگوں کو بلائے، چنانچہ اسی پر فیصلہ ہوا اور رسول اللہ ﷺ نے اس کام پر حضرت بلال ؓ کو مقرر فرمایا "(بخاری شریف ،بدء الاذان ،صفحہ ۸۵،اسلامی سیاست صفحہ ۲۸۹)

حضرت بلال بلند آواز سے یہ کلمات فرمایا کرتے تھے بعد میں عبداللہ بن زیدؓ نے خواب میں اذان کے مروجہ الفاظ سے اور پھر آپ ﷺ نے انہی کلمات کے ساتھ اذان دینے کا حکم دیا۔

2۔بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ سن ۲ھ:
کہ ان قیدیوں کو فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے جیسا کہ حضرت ابو بکرؓ کی تجویز تھی یا قتل کردیا جائے جیسا فاروق اعظم ؓ کی تجویز تھی۔

3۔غزوہ احد کے بار ےمیں مشورہ سن ۳ھ:
شہر کے اندر مورچے بنائے جائیں جو کہ بعض اکابر صحابہ کی رائے تھی یا کھلے میدان میں مقابلہ کیا جائے جیسا کہ نوجوانوں کی رائے تھی چنانچہ کوہ احد کے دامن میں (باہرنکل کر) محاذ قائم کیا۔

4۔شورائے خندق سن ۵ھ:
غزوہ خندق (احزاب) کے موقع پر مشورہ ہوا کہ باہر جاکر محاذ آرائٰی ہو یا شہر کے اندر مورچے ہوں، سلمان فارسی ؓ نے خندقیں کھودنے کا مشورہ دیا اور یہ رائے پسند کی گئی۔ (مزیدمثالوں کے لیے دیکھیے اسلامی سیاست صفحہ ۲۸۹،۲۹۰،۲۹۱،گوہر رحمان)

شوریٰ کے بارے میں خلفائے راشدین کا طرز عمل
خلافت راشدہ کے دور میں اہل علم کی مجلس شوریٰ موجود تھی جن سے مختلف امور اور غیر منصوص مسائل کے سلسلے میں مشورہ کیا جات اتھا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو جب تصفیہ طلب کوئی معاملہ درپیش ہوتا تو پہلے وہ اللہ کی کتاب میں دیکھتے اگر اس میں مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے اور اگر کتاب اللہ میں نہ ملتا تو رسول اللہ ﷺ کی سنت میں تلاش کرتے اس میں مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے اگر خود تلاش نہ کرپاتے تو لوگوں سے سوال کرتے کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے اس میں ایسا ایسا فیصلہ فرمایا ہے اگر کسی طرح ان کو رسول اللہ ﷺ کی سنت نہ ملتی تو اہل علم کے رؤساء کو جمع کر کے ان سے مشورہ چاہتے جب وہ کسی رائے پر متفق ہوجاتے تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ اجہتاد کا تاریخی پس منظر صفحہ ۴۴،مولانا تقی امینی ؒ)

حضرت عمرفاروق ؓ کا بھی یہی طرز عمل تھا فرق صرف اس قدر ہے کہ اگر کتاب وسنت میں کوئی حکم نہ ملتا تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے فیصلوں کی طرف رجوع فرماتے پھر مشورہ واجہتاد کرتے تھے ۔(ایضا)

اس سلسلے میں حضوراکرم ﷺ کی وفات کے بعد عراق کی زمین کی تقسیم وتنظیم کا مسئلہ کہ اس کو فوجیوں میں تقسیم کردیا جائے یا انہی کے قبضے میں رہنے دیا جائے دونوں قسم کی آراء موجود تھیں اور کئی دن تک مشورہ ہوتا رہا دیکھئے (اجتہاد کا تاریخی پس منظر صفحہ ۴۷،تقی امینی )

حضرت عثمان ؓ نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا" کہ کتاب وسنت کے بعد میں اس فیصلے کا پابند رہوں گا جس پر تمہارا اتفاق رائے ہوچکا ہو "(تاریخ طبری جلد ۵،صفحہ ۱۵۹،اسلامی سیاست ،صفحہ۳۰۱)

مجلس شوریٰ کی صفات
مشورہ ایک امانت ہے حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "المستشار موتمن "جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ معتمد ہوتا ہے۔ ارشادربانی ہے "اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا" ۙ58؀(نساء ) بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے (اے ایمان والوں) کہ تم حوالے کرو امانتوں کو ان کے حقداروں کے۔

لہٰذا جو لوگ اہلیت اور معیار نمائندگی پر اترتے ہونگے ان کو شوریٰ کا رکن بنایا جائے گا بنیادی شرائط یہ ہیں۔

1۔ایمان:
اسلامی ریاست کی مجلس شوریٰ کا کام اسلامی قوانین کی تشریح وتعبیر بھی ہے نئے مسائل میں اجتہاد کرنا بھی ہے اور اسلامی نظام کے عملی نفاذ کے لیے تدابیر سوچنا بھی اس کا کام ہے تو جو شخص سرے سے اسلام پر عقیدہ ہی نہ رکھتا ہو اسے یہ اہم ترین ذمہ داری کیسے دی جاسکتی ہے۔

2۔فقاہت:
اسلامی ریاست کا دستور اساسی کتاب وسنت ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کے ارکان کتاب وسنت اور اسلامی تعلیمات میں گہری بصیرت رکھتے ہوں۔

3۔عدالت ودیانت:
قرآن کریم میں فساق وفجار کی کی اطاعت سے منع کیا گیا ہے،فاسق وفاجر شخص جب گواہ اور قاضی نہیں بن سکتا تو قانون ساز ادارے کا رکن کیسے بن سکتا ہے؟ جو شخص نماز، روزے کا پابند نہ ہو، فحاشی اور اخلاقی جرائم کا عادی ہو وہ نہ مسلمانوں کو معتمد بن سکتا ہے اور نہ مخلصاً نہ مشورہ دے سکتا ہے لہٰذا ارکان مجلس شوریٰ میں عدالت ودیانت کا پایا جانا ضروری ہے۔

4۔عاقل وبالغ ہونا:
دماغی طور پر مریض اور نابالغ اپنے مال میں بھی تصرف نہیں کرسکتا تو قومی امور کا ذمہ دار کیسے بن سکتا ہے؟

5۔عرف عام سے با خبر ہونا:
علامہ شامی ؒ اور سیوطی ؒ نے لکھا ہے کہ :"عرف اور رواج شریعت میں معتبر ہے اور غیر منصوس امور میں عرف وعادت (رسم ورواج )پر فیصلے کا دارومدار ہوتا ہے۔

6۔امت مسلمہ کا معتمد ہونا:
مذکورہ صفات کے حامل تو کئی افراد ہوسکتے ہیں اور سب کو جمع کرنا مشکل ہے لہٰذا مذکورہ شرائظ کے ساتھ ساتھ وہ ارکان مسلمانوں کی اکثریت کے معتمد بھی ہوں تاکہ دوسروں پر ان کو ترجیح حاصل ہوجائے۔(اسلامی سیاست صفحہ۳۱۳،۳۱۴)

شوریٰ کے مقاصد
1۔اصابت رائے:
مختلف آرا کے سامنے آنے پر صحیح رائے اخذ کرنے میں مدد ملے گی۔

2۔ملوکیت کا خاتمہ:
اسلام میں ملوکیت کا کوئی تصور نہیں، باہمی مشاورت سے، مطلق العنانی اور تعصب ختم ہوجائے گا۔

3۔ندامت سے حفاظت:
بعض اوقات انسان انفرادی طور پر ایسا فیصلہ کردیتا ہے جس سے اس کو شرمندگی ہوتی ہے اور مشاورت سے ندامت سے بچ جاتا ہے۔

4۔آزادی رائے اور محاسبہ:
مشاورت سے آزادی رائے اور محاسبہ بھی ہوتا ہے جب مشاورت کا اجلاس ہوتا ہے تو رعایا بلاخوف وخطر اپنے امیر کے کردار اور گفتار پر اعتراض کرسکتی ہے جس سے حکمرانوں کا محاسبہ ہوتا ہے۔

5۔کتاب وسنت پر عمل:
سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کو سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے اور غیر منصوص مسائل کو بغیر مشاورت کے سمجھنا دشوار ہے۔
ghazi abdul rehman qasmi
About the Author: ghazi abdul rehman qasmi Read More Articles by ghazi abdul rehman qasmi: 31 Articles with 260305 views نام:غازی عبدالرحمن قاسمی
تعلیمی قابلیت:فاضل درس نظامی ،الشہادۃ العالمیہ،ایم اے اسلامیات گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان،
ایم فل اسلامیات بہاء الدی
.. View More