ان دنوں لوکانہ

اس بچی کا اصل نام ارشاد تھا لیکن سیاہ رنگت کے سبب کالی ماتا نام عرف عام میں آ گیا تھا۔ خصوصاً بچے اسے چھیڑنے کے لیے شاداں کالی ماتا کہہ کر پکارتے۔ وہ اس نام پر پٹ پٹ جاتی۔ اکثر نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی۔ وہ تو چڑتی تھی ہی لیکن اس کی ماں اس سے زیادہ تاؤ میں آ جاتی اور چھیڑنے والے کو اگلے گھر تک پہنچا کر آتی۔

اس روز ہمسائے کا لڑکا جو عمر میں شاداں کے برابر کا تھا۔ شاداں کو کالی ماتا کہہ کر اپنے گھر بھاگ گیا۔ شاداں نے اپنی ماں کو آ کر شکایت لگائی۔ شاداں کی ماں نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ ان کے گھر جا کر اس لڑکے کو دو تین زوردار جڑ آئی۔ پھر کیا تھا میدان لگ گیا۔ اس لڑکے کی ماں نے اونچی اونچی بولنا شروع کر دیا۔ شاداں کی ماں بھی نیچے چونکی رکھ کر دیوار کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ پہلے سادا گرم کاری ہوئی اس کے بعد آلودہ لفظوں کے دھارے کھل گئے۔ دونوں بیبیاں تھکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے نئے پرانے راز اگل کر رکھ دیے۔ بہت سی پس پردہ باتیں اور حقائق کھل گئے اور دونوں کی کردای شرافت پر برسوں کا پڑا پردہ اٹھ گیا۔

ابھی زور دار بمباری کا سلسلہ جاری تھا کہ شاداں کا دادا گھر آ گیا۔ بہو کو گرجتے برستے دیکھ کر ماجرہ پوچھا۔ شاداں کی ماں نے بہت سی پاس سے لگا کر سسر کو کہانیاں سنائیں۔ یہ بھی بتایا کہ کافٹین کا بیٹا میری شاداں کو کالی ماتا کہہ کر چھیڑتا ہے۔

بندہ سیانا تھا۔ اس نے بہو سے پوچھا شاداں کدھر ہے۔ شاداں کی ماں نے گھر میں ادھر ادھر اسے تلاشا وہ گھر پر نہ تھی۔ شاداں کا دادا کہنے لگا اسے نہ تلاشو وہ گھر میں نہیں ہے باہر بچوں کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ اس کی پارٹی میں ہمسائی کا لڑکا ہے۔ پھر اس نے اونچی آواز میں ہمسائی سے کہا بیٹا بچوں کی وجہ سے نہ لڑو‘ تم ادھر لڑ رہی ہو باہر یہ ہی بچے آپس میں مل کر کھیل رہے ہیں۔ بچوں کے لیے لڑنا کھلی حماقت ہے۔

بلڑے کی باتیں سن کر دونوں بیبیاں بڑی شرمندہ ہوئیں اور شرم سے اندر گھس گئیں۔ بچوں نے تو ان کے پلے کچھ نہ چھوڑا تھا۔

کئی دنوں تک بول بلارے کے نتیجہ میں ان کی باہمی رنجش چلتی رہی اور پھر ماضی گئی گزری کی قبر میں دفن ہو گیا۔ وقت پر لگا کر محو سفر رہا۔ بچے جوان ہو گئے۔ شیداں اور کافٹین کا لڑکا جیرا آپس میں سٹ ہو گئے۔ ان کی یہ باہمی ہیلو ہائے دو سال تک چلی۔ عزت بچانے کی خاطر دونوں کے مائی باپ کو راضی ہونا پڑا اور ان کی شادی طے کر دی گئی۔

ان دنوں جیرا اور شیداں ایک چھت تلے رہ رہے ہیں اور جیرے کے لیے شیداں حسینہ عالم ہے۔ وہ اس کی بات ٹالنے کو بھی پاپ سمجھتا ہے۔
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 193696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.