ہم کہاں کے سچے ہیں

"الحمد للہ رب العالمین ۔"تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔"الرحمن الرحیم "۔ جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ "مالک یوم الدین"۔ قیامت کے دن کا مالک ہے۔ "ایاک نعبد وایاک نستعین"۔ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔"اھدنا الصراط المستقیم "۔ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔"صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین "ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے اپنا انعام کیا ناکہ ان کا جن پر تیر ا غضب ہوا۔"جب نماز ادا کرنا شروع کرتے ہیں تو ابتدائے نماز میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اگر "واقعی "نماز پڑھ رہے ہو تو سورۃ فاتحہ سے بڑھ کر کوئی دعا نہ ہو۔
"قاری صاحب ! دعا کریے گا ، نوکری کے لیے جا رہا ہوں اللہ تعالی کامیابی عطا فرمائے۔"عدنان نے نماز پڑھنے کے بعد مسجد کے امام سے اپنے لیے دعا کرنے کے لیے کہا۔پوری نماز میں عدنان کا ذہن انہیں خیال میں مگن تھا کہ آج اس کا انٹرویو ہے،اس سے کس طرح کے سوالات پوچھے جائیں گے؟انٹرویولینے والا کیسا ہو گا ؟اس کا لہجہ کیسا ہوگا؟وہاں پر اور کتنے امیدوار ہوگے؟ان کی قابلیت تو میرے سے زیادہ ہوگی یا کم ؟انہیں خیالات میں گم اس نے امام کے پیچھے نماز ادا کی تھی۔ اس کے امام صاحب سے کہا کہ دعا کریے گا۔
٭٭٭
"بخدمت جناب گورنمنٹ آفیسر محکمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔حکومت پنجاب جناب عالی! نہایت ادب و احترام سے گزارش ہے کہ بندہ کو بذریعہ اخبار پتہ چلا ہے کہ آپ کے ہاں آسامیاں خالی ہیں۔ بندہ ایک اس آسامی کے موزوں ہے۔ بندہ ایک غریب فیملی سے تعلق رکھتا ہے ۔بندہ بے روزگار ہے۔ اس لیے بندہ کو نوکری عطا کر کے احسان مند ہو۔آپ کی عین نوازش ہوگی۔ بندہ آپ کی عمر دراز کے لیے دعا گو رہے رہے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ "ایسی تمام درخواستیں نوکری کے حصول کے لیے سرکاری و پرائیویٹ دفتر میں جمع کروائی جاتی ہیں۔ ایسی درخواستوں میں خود کو انتہائی کمتر ظاہر کیا جاتا ہے۔ جن حضرات کو درخواست دی جاتی ہے۔ ان کو خدا کا درجہ دیا جاتا ہے۔ مثلا بندہ غریب ہے، بندہ بیروزگار ہے۔ اگر درخواست دینے والا بندہ ہے تو جس کو درخواست دینی ہے تو وہ بھی بندہ ہے۔ ادب و احترام لازم ہے۔یہ بات ٹھیک ہے۔ مگر نوکری کی ضرورت عوام کو ہے ،یہ تصویر کا ایک رخ، مگر گورنمنٹ کو بھی بندوں کی ضرورت ہے۔مگر ایک فانی شخص یا ادارے آگے گھٹنے ٹیکنے کا فائدہ؟
٭٭٭
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں ۔"اے انسان! تجھے کس چیز نے رب کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔"یہ دنیا عام اور خاص لوگوں کا مجموعہ ہے۔عدنان کی سوچ کہتی تھی کہ جس انسان نے اعلی لباس پہن رکھا ہے ، ہاتھ میں انتہائی قیمتی گھڑی اور پاؤں میں اعلی قسم کے جوتے پہن رکھے ہو تو وہ اعلی شخص ہے۔ اس لیے عدنا ن کے لیے وہ شخص بھی بہت اعلی تھا جس نے اس کا انٹرویو لینا تھا۔ اس لیے نماز میں بھی اس کا دھیان نوکری حاصل کرنے کی جدو جہد میں تھا۔
٭٭٭
ایک بچہ جب سکول میں آتا ہے تو سب سے پہلے اس کی حاضری (attendance) لگتی ہے۔ مگر حاضری کے بعد پڑھائی کا اصل دور شروع ہوتا ہے۔ مختلف پیریڈز میں مختلف مضامین پڑھائے جاتے ہیں ۔ جو بچہ سارا دن دھیان سے سکول میں علم حاصل کرے گا، وہی امتحان میں اعلی مارکس حاصل کر سکے گا۔ جو صرف خالی حاضری لگوائے گا وہ بس پاسنگ مارکس ہی حاصل کر سکے گا۔کچھ ایسی حالت بھی عدنان کی نماز کی تھی۔ جو صرف نماز کی حاضری لگوانے کے لیے مسجد میں آیا تھا۔
٭٭٭
"الحمد للہ رب العالمین ۔"تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔"الرحمن الرحیم "۔ جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ "مالک یوم الدین"۔ قیامت کے دن کا مالک ہے۔ "ایاک نعبد وایاک نستعین"۔ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔"اھدنا الصراط المستقیم "۔ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔"صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین "ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے اپنا انعام کیا ناکہ ان کا جن پر تیر ا غضب ہوا۔"جب نماز ادا کرنا شروع کرتے ہیں تو ابتدائے نماز میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اگر "واقعی "نماز پڑھ رہے ہو تو سورۃ فاتحہ سے بڑھ کر کوئی دعا نہ ہو۔
٭٭٭
عدنان نے انٹرویو دیا لیکن نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ذہن میں وہ تمام نمازیں اور دعائیں اورلوگوں سے کروائی گئی دعائیں چل رہی تھی۔میں کتنی دنوں سے نمازیں ادا کر رہا ہوں۔ تہجد بھی اٹھ کر پڑھتا ہو۔ اب تو میں راہ چلتے فقیر کو بھی دس بیس روپے دے دیتا ہو۔ لیکن اللہ تعالی نے میرے اوپر ترس نہیں کھایا۔ میرے ساتھ ہی ایسا ہونا تھا؟ ہمیشہ میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟ اللہ تعالی مجھے کیوں نہیں نوازتے حالانکہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں۔ غریبوں کی مدد بھی کرتا ہوں ۔لیکن حقیقت کیا ہے ؟
٭٭٭
عدنان نے" اللہ اکبر" پڑھتے ہوئے سب کی طرح امام کے پیچھے نماز ادا کرنا شروع کر دی۔ "اللہ اکبر"کا کیا مطلب ہے۔اس بات کا تصور بھی ذہن میں نہیں آیا کہ "اللہ اکبر "کا مطلب کیا ہے؟بچپن میں جیسےمولوی صاحب نے نماز یاد کروائی ۔ویسے ہی ہم سب نے رٹ لی۔ بچپن کا سنہری دور گز ر گیا۔ ہم نے باقی تمام علوم کو حاصل کرنے میں حاتم تائی کی قبر کو لات مارنے کی کوشش کرتے رہے۔ والدین نے پیار، لاڈ اور سختی سے بھی سکول بھیجا۔ ہمارا بیٹا پڑھ لکھ کر ہمارا سہارا بنے گا۔ جب نوجوانی میں پہنچے تو خاندان والوں کو انگلش بول کر سنائی تو والدین کا سیروں کے حساب سے خون بڑھ گیا۔ مگر دینی تعلیم وہی کی وہی سٹاپ ہو گئی۔ اب عدنان چوبیس سال کا گھبرو جوان ہے۔ جیسی بچپن میں نماز پڑھتا تھا ، آج بھی ایسی نماز پڑھتا ہے۔ بچپن سے بلوغت تک قدم تو رکھ دیا مگر اللہ کی عبادت کا معیار بچپن میں ہی کہیں کھو گیا۔
٭٭٭
"الحمداللہ رب العالمین۔"تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔نماز ادا کرتے وقت ہم اس ہستی کے سامنے ہاتھ باندھے عاجزی سے کھڑے ہوتے ہیں ۔ جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔ تمام تعریفات ، تسبیحات ، بڑائی کا حقدار صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے۔ دنیاوی مثال لے لیجیے۔ جب ہم اپنے کسی سینئر یا اپنے باس کی تعریف کرتے ہیں تو وہ خوشی سے پھولے نہ سماتا ہے۔ یہاں پر ہم پوری کائنات کے مالک کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں ۔ لیکن ہماری سوچ کا دائرہ ابھی تک کائنات میں گھوم رہا ہوتا ہے۔ ہم دنیاوی جھوٹے خداؤں کی خوشآمد کی سوچ ، اپنی خواہشوں کی سوچ بھی اپنی ذہن میں لیے نماز کی ادائیگی میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ ہمارا دل میں یہ تصور بھی نہیں ہوتا کہ ہم کس کو راضی کرنے کے لیے نماز ادا کر رہے ہیں۔ ہم کس کی تسبیحات بیان کر رہے ہیں۔ ہمارے ذہن میں تو یہ خیال چل رہا ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے کے بعد ہم نے فلاں فلاں کام کرنا ہے۔ فلاں شخص کو کال کرکے کام سے جان چھڑانی ہے۔ "الرحمن الرحیم "۔جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ لیکن اس پروردگار ِ دو جہاں کے بے انتہا مہربانیوں کو بھول کر فانی دنیا کی بھول بھلیوں کی سوچ میں مگن ہو تے جا رہے ہوتے ہیں۔ ہم اس بات کو ذہن سے یکسر بھلا دیتے ہیں دنیا میں جہاں بھائی بھائی ایک دوسرے کے مخالف بنے ہوئے ہیں ۔ وہی پر اس کائنات کا مالک اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ لیکن حقیقی مالک کے رحم کو بھول جاتے ہیں اور دنیا کے رحم و کرم کو تلاش کرتے ہیں ۔ جب دنیا میں کوئی رحم نہیں مل پاتا تو پھر اللہ یاد آتا ہے ، مگر جب جب اس ہستی کے آگے جھکنے کا موقع آتا ہے ہم پھر وہی دنیا کی سوچ میں مگن ہو جاتے ہیں۔"مالک یوم الدین۔"قیامت(روز ِ جزاء) کے دن کا مالک۔ لیکن ہم روز ِ جزا کو بھول چکے ہیں۔ اس آیت مبارکہ کو دن میں پانچ نمازوں میں دہراتے ہیں لیکن ہمارے کانوں تک جوں نہیں رینگتی ہے۔ کیونکہ ہم نے جزاء و سز ا اس دنیا کو سمجھ لیا ہے۔ ہم نے اس نظریہ کو ذہن نشین کر لیا ہے ۔ کل کا کیا پتہ ہے،بعد میں جو ہوگا ، دیکھا جائے گا۔بس زندگی بار بار نہیں ملتی ، تو جو بھی لوٹ کھسوٹ کرنی ہے کر لیں، جو بھی موج مستی کرنی ہے کر لیں۔ ہم نے اپنا مقصد حیات ہی کھیل تماشا سمجھ لیا ہے۔ جب کبھی اللہ تعالی ہمیں نوازتا ہے تو ہم فخر اور تکبر سے اپنی گردن کو بلند کر لیتے ہیں ۔ جب اللہ آزمائش دیتا ہے تو ہم دنیاکے سب سے ہمدردی کے قابل بن جاتے ہیں ۔ "ایاک نعبد وایاک نستعین۔"ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں ۔اگر ہمیں کسی ایم ۔ این ۔ اے کی یا کونسلر کی سپورٹ حاصل ہو تو ہم خود کو بہت پاور فل سمجھتے ہیں۔ لیکن دنیا میں نظام ہے جب مفاد نکلتا ہے پیٹھ پر لات پڑتی ہے۔ ہم جب بھی کسی مسئلے سے دو چار ہوتے ہیں تو اللہ تعالی سے مد د مانگنے کی بجائے غیروں کے در پر دھکے کھانا شروع کر دیتے ہیں ۔ "اھدنا الصراط المستقیم ۔" ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔نماز پڑھتے ہوئے کبھی اس آیت مبارکہ پر غور کیا جائے تو ہمیں واقعی صراط مستقیم کا راستہ حاصل ہو جائے۔ لیکن ہم طوطے کی طرح رٹے ہوئے لفظوں کی طرح ان مقدس اور مبارک آیت مبارکہ کو پڑھتے جاتے ہیں ۔ ہم نے کبھی ان آیت مبارکہ کے مفہوم اور معنی کو سمجھنے کی کوشش نہیں ۔ پھر ہم نماز کے بعد کہتے ہیں مولوی صاحب دعا کرنا فلاں کام میں اللہ تعالی آسانیاں فرما دیں ۔
Abdul Kabeer
About the Author: Abdul Kabeer Read More Articles by Abdul Kabeer: 25 Articles with 38039 views I'm Abdul Kabir. I'm like to write my personal life moments as well social issues... View More