حقیقی حکمران

لوگوں کو اس تحریر سےیہ اندازہ ہوگا کہ خلفائے راشدین کی حکومت اور کی حکومت کے حکمران میں بنیادی فرق کیا ہے اور آج کا مسلمان اور پاکستانی کیوں پریشان ہے ( یہ تحریر علامہ ثاقب رضا مصطفائی ) کے بیان سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے-
میرے عزیز بزرگوں ,دوستوں,بھائیوں اور بچوں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت کا وقت تھا آپ روزانہ ایک مسجد کی چٹائی پر بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سنا کرتے تھے وہ عمر جو 23 مربع میل کا حاکم تھا لیکن کسی عا لیشان تخت پر بیٹھ کر کبھی حکمرانی نہیں کی بلکہ مسجد کی چٹائی پر بیٹھ کر لوگوں کی باتیں سنتے تھے اور سورج غروب ہوجاتا تو رات کو بھیس بدل کر گلیوں میں گھومتے رہتے ان کا کہنا تھا کہ اگر عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ) کی حکومت میں ایک کتا بھی بھوکا رہ گیا تو بروز قیامت اس کی پکڑ بڑی سخت ہوگی -

ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ ایک گھر سے دھواں نکل رہا ہے آپ نے پوچھا کیا بات ہے یہ دھواں کیسا تو عورت بولی میں عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ) کو رو رہی ہوں تین دن ہوگئے گھر میں کھانے کو نہیں ہے روزانہ پتیلی میں پتھر ڈال کر اسے چولہے پر رکھدیتی ہوں بچے انتظار کرکر کے سوجاتے ہیں یہ سن کر حضرت عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ) وآپس لوٹے اور بیت المال سے ایک گھی کا کنستر ایک آٹے کی بوری اور کچھ مصالحاجات لیکر آرہے تھے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے ایک غلام اسلم نے دیکھ لیا اور عرض کیا حضرت یہ کیا مجھے دیں میں اٹھا لیتا ہوں تو فرمایا اسلم قیامت میں میرا بوجھ اٹھاؤ گے ارے وہاں تو ہر کوئی اپنا اپنا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہوگا -

آپ سیدھے اس عورت کے گھر پہنچے ہنڈیا جلائی عورت نے آٹا گوند کر روٹیاں بنانی شروع کردی اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ سبزی کاٹ کاٹ کر ہنڈیا میں ڈال رہے ہیں جب آگ بجھنے لگتی تو پہونک مار مار کر اس آگ کو جلا رہے ہیں اور یوں کھانا تیار ہوگیا جب بچے کھانا کھارہے تھے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ رو رو کر بچوں کے آنسوں بھی خشک ہوگئے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ پاؤں کے گھٹنے اور ہاتھوں کی کہنیوں سے زمین پر چل چل کر بچوں کو خوش کرنے کی کوشش کرنے لگے اور جب بچے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس طرح چلتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوکر مسکرانے لگے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہوئے اور عورت سے فرمایا کہ تو عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ) کو معاف کردینا تو وہ بولی نہیں ہرگز نہیں قیامت کا دن ہوگا اور میرا ہاتھ اس کے گریبان میں ہوگا یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے -

آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس طرح روتا ہوا دیکھ کر بولی کہ آپ کو اس سے اتنی ہمدردی کیوں ہے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے رہا نہ گیا اور فرمایا کہ جو سزا دینی ہے برا بھلا کہنا ہےآج کہہ دے تیرے سامنے تیرا مجرم کھڑا ہے لیکن بروز قیامت مجھے معاف رکھنا تو اس عورت نے عرض کیا کہ تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہے تو فرمایا ہاں میں عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہوں -

کیا آپ کو آج اس دنیا کسی خطے میں ایسے حکمران اور ان کی ایسی حکومت کہیں نظر آتی ہےیاد رکھو ہماری اور ہمارے ایمان کی بقا صرف اور صرف دین محمدی پر عمل کرنے سے ممکن ہے
محمد یوسف راهی
About the Author: محمد یوسف راهی Read More Articles by محمد یوسف راهی: 5 Articles with 3216 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.