ساختیات اور اس کے حدود

ساختیات درحقیقت زندگی کے تمام حوالوں واسطوں اور رابطوں کے بارے سوچنے اور ایک مخصوص انداز سے عمل کرنے کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساختیات زندگی اور اس کے جملہ معاملات کے بارے نہ صرف غور کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہے بلکہ اپنے انداز سے تجربات کا ڈھنگ بھی بتلاتی ہے۔ ہم جو دیکھ رہے یا سوچ رہے ہوتے ہیں ‘وہ وہی کچھ ہوتا ہے، سے زیادہ گمراہ کن بات کوئی نہیں۔ ہمارا سوچنا دیکھنا اور لکھنا ہمارا اپنا نہیں ہوتا۔اسی طرح ہم اپنے سوچے دیکھے اور لکھے پر کوئی حکم نہیں لگا سکتے۔ سوچنے دیکھنے اور لکھنے والے کی سوچتے، دیکھتے اور لکھتے وقت موت واقع ہو جاتی ہے۔ جس کے متعلق سوچا دیکھا یا لکھا جا رہا ہوتا ہے اور جو اس کا ملاحظہ کرتا ہے اس کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے یہ بھی کہ سوچنے دیکھنے اور لکھنے والے کے اندر کا ناظر اورقاری زندہ ہو کر متحرک ہو جاتا ہے۔ وہ تنہا نہیں ہوتا بلکہ ان گنت سماجی رشتوں سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ گریما کے مطابق :
ساختیاتی نظام ممکنہ انسانی رشتوں کے گوشواروں پر مبنی ہے۔‘‘ ۱)
اِس حوالہ سے ملاحظہ کندہ کی بھی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس مقام پر سماج کا اجتماعی شعور حرکت میں ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر ساختیات کے دو اصول سامنے آتے ہیں:
الف۔ تحریر خود کو لکھتی ہے مصنف نہیں لکھتا۔
ب۔ لکھنے کے بعد مصنف کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
پہلے اصول کا مطلب یہ ہے کہ لکھنے والا ان تحریروں سے (کسی نہ کسی حوالہ سے) آگاہ ہوتاہے‘ جو اس موضوع سے متعلق پہلے سے موجود ہوتی ہیں وہ ان ہی کی کسی نئے حوالہ سے تکرار کر رہا ہوتا ہے یا از سر نو اُن کی تشریح کر رہا ہوتا ہے یا ان کا پھر سے سماج سے رشتہ جوڑ یا نیارشتہ تلاش کر رہا ہوتا ہے۔ جب وہ یہ سب کچھ کر رہا ہوتاہے اس کا وجود نا پید ہو جاتاہے اور انسانی شعور، انسانی سماج کا روپ دھار لیتا ہے۔ اس مقام پر ’’میں‘‘ نہیں ’’تو‘‘ کی حیثیت باقی رہتی ہے۔ میں، تُو کے متعلق لکھتا بولتا اور سوچتا ہے۔ تصوف کے سوچنے کا بھی یہی انداز اور یہی وتیرہ ہے۔ اس لئے ساختیات کے اس اصول کو تصوف کے خلاف سمجھنا درست نہیں۔
دوسرے اصول کے مطابق مصنف محض ایک ذریعہ یا آلہ کار ہوتا ہے جو پہلے سے موجود معاملات کو شکل دینے کا سزا وار ہوتا ہے۔ جب وہ اپنا کام کر چکتا ہے تو اس کی موت واقع ہو جاتی ہے یعنی وہ تحریریں اس کی نہیں ہوتیں جسے وہ اپنا سمجھتا ہے اور نہ ہی ان تحریروں کو اس کے شخصی حوالہ سے دیکھا اور پرکھا جا سکتاہے کیونکہ ان تحریروں کا اس کے تشخص سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
مصنف چونکہ محض آلۂ کار ہوتاہے وہ تحریوں کو لکھتا نہیں بلکہ تحریریں خود کو لکھتی ہیں۔ اردو میں اس کو آمد کا نام دیا جاتاہے۔بقول حالیؔ :
’’ آمد سے مراد جو شعر شاعر کی زبان یا قلم سے بے ساختہ فوراً ٹپک پڑے۔‘‘ (۲)
گویا لکھتے وقت لکھنے والے کی مرضی ارادہ یا کوئی سوچا سمجھا منصوبہ نہیں ہوتا بلکہ پہلے سے موجود انسانی سماج کا اجتماعی شعور حرکت میں ہوتا ہے۔ لکھنے
سوچنے یا بولنے والے کا وجود عنقا ہوتا ہے۔ ہاں وہ اس بات یا معاملے کے اظہار کا ذریعہ ضرور ہوتاہے۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں ہاتھ قلم اور دماغ اس لمحے درحقیقت انسانی سماج کا اجتماعی شعور ہوتاہے۔
علامہ حالیؔ نے مقدمہ شعر و شاعری میں آمد کے نظریے کو ردّ کرکے آورد کا نظریہ دیا ہے۔ آورد کے حوالہ سے بھی دیکھا جائے تو تان اس پر ٹوٹے گی کہ مصنف یا شاعر اپنے لئے نہیں یا پھر اپنے متعلق نہیں لکھ رہا ہوتا۔ اس کی اپنی ذات کو اس کارگزاری میں ذرا بھر دخل نہیں ہوتا بلکہ وہاں بھی انسانی سماج کا اجتماعی شعور متحرک ہوتا ہے۔ ڈاکٹر محمد امین نے کیا خوب کہا ہے:
’’شاعری کسی بھی ثقافت کا موثرترین، لطیف ترین اور دلکش اظہار ہوتاہے ۔‘‘ (۳)
شاعری کسی شاعر کا لسانی اظہار نہیں بلکہ ثقافت کا لسانی اظہار ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ شاعری ثقافت کا لسانی اظہارہے تو شاعر کا شاعری میں وجود معدوم ہو جائے گا۔ شاعر درحقیقت ایک سماج کا نام ہے نہ کہ اس سے مراد کوئی متخلص شخص۔ اس لئے شاعری کا کسی متخلص شخص کے حوالہ سے مطالعہ کرنا نہایت گمراہ کن ہوگا۔
تشریح و تفہیم میں شاعر کی شخصیت ‘اس کے ذاتی حالات اور اس کے ذاتی ماحول کو مد نظر رکھنا‘ تشریح کو اکائی تک محدود کر دینے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف مطالعہ کرنے والا دورانِ مطالعہ معدوم ہو جاتاہے۔ وہاں بھی اجتماعی سماجی شعور کے تحت مطالعہ ہو رہا ہوتاہے۔ تحریر‘ جسے سوسئیر نشان(sign) کا نام دیتاہے دو حصوں میں منقسم ہے I ۔دال (Signifier )II ۔مدلول (Signified)دال کوئی بھی با معنی لفظ اور مدلول، لفظ (Sign) سے وابستہ شے کا تصور۔ ہر دال کا ایک مدلول ہے اور ہر مدلول لچکدار ہوتاہے۔ دال اور مدلول کے درمیان رشتہ بن جاتا ہے جو کہ ثقافتی نظام کی پیداوار ہوتا ہے۔ لفظ ابا کے ساتھ ایک تصور وابستہ ہے۔ ابا ایک شخص کے متعلق ثقافتی نشان ہے۔ انسانی سماج میں تقریباًچھ ارب انسان بستے ہیں جو بناوٹ اور ہیئت کے حوالہ سے تقریباً ایک سے ہوتے ہیں۔ ان سب کے لئے یہ نشان نہیں، اس نشان کا تعلق کسی مخصوص شخص سے نسبی حوالہ سے جڑتا ہے گویا بہت سے ایک سے لوگوں میں کسی مخصوص شخص کی شناخت کی یہ علامت ہے۔ تایا ابا‘ دادا ابا۔ تایاا ور دادا کے سابقے کسی دوسرے سماجی رشتے کی شناخت واضح کرتے ہیں‘ جوابا اور سماج کے چار ارب انسانوں سے الگ تر ہیں۔ گائے کا ایک مدلول ہے جو دیگر جانوروں سے الگ تر تصور دیتاہے۔ گائے پڑھنے سننے سے کسی بیل، اونٹ‘ گدھے یا کسی اور چوپائے کا تصور ذہن میں نہیں ابھرتا۔ یہ لفظ(Sign) سنتے ہی:
الف۔ گائے جو ایک چوپایہ ہے اور دودھ دیتاہے کا تصور ابھر آتاہے۔
ب۔ لفظ گائے اور دوسرے جانوروں سے متعلق الفاظ اور ان سے وابستہ تصورات کی تفریق سامنے آ جاتی ہے کہ گائے، گدھا اونٹ بھینس کتا بلی وغیرہ نہیں ہے۔
تفریق کے ضمن میں سوسئیر کا کہنا ہے:
"The sound of a word is not itself important but the phonitic contract which allow us to distinguish the word from any other." (4)
اس اقتباس کی روشنی میں لفظ گائے چار اکائیوں سے مل کر ایک کلی وحدت بن سکا ہے:
۱۔ گائے کا دوسرے جانوروں سے اس لئے رشتہ ہے کہ وہ دوسروں کی شناخت کا ذریعہ بناہے۔
۲۔ دوسروں سے فرق کی بنا پر اس کی اپنی شناخت قائم ہے۔
۳۔ دال اور مدلول گائے کے نشان سے وابستہ ہیں۔
۲۱۶
۴۔ مصنف اور قاری اس کے ادراک کا آلہ اور گائے نشان کے حامل سماج میں یہ پہلے سے establish ہے۔
ساختیات کے مطابق کسی نشان کی کوئی آخری تشریح نہیں ہے۔ لفظ گائے ایک مخصوص اور دودھ سے وابستہ ہوکر بھی پھر سے دہرائے جانے کا محتاج ہے۔ اس سے کوئی طے شدہ معنی وابستہ نہیں کئے جا سکتے۔ قرآت اور تفاعل تہذیب کے اندر اور تاریخ کے محور پر ہے۔ یعنی معنوں میں تبدیلی آتی رہتی ہے اس لئے کوئی قرآت یا تشریح آخر نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ کسی نشان کو بھی استحکام نہیں۔ ایک ہی معاشرے میں اس کی اشکالی تبدیلیاں وقوع میں آتی رہتی ہیں۔ جیسے لاھو، لہو، تڑپھ، تڑپ، دوانا، دیوانہ، کھسم خصم، اوال، احوال، قفلی، قلفی وغیرہ ان سے ایک مدلوں ضرور وابستہ ہے۔ یہ بھی کہ بولے ہوئے الفاظ کی روایت لکھے ہوئے الفاظ سے بہت پہلے کی ہے۔
یہ معاملہ قرآن کے خلاف نہیں کہ نشان (قرآنی اصطلاح میں اسماء) نازلہ ہیں۔ بلاشبہ آدمؑ کو اسما سکھائے گئے اور وہ ان کے حوالہ سے دیگر مخلوقات سے معتبر اور محترم ٹھہرے۔ زمین پر آتے ہی نہ صرف جگہ میں تبدیلی آئی بلکہ ماحول اور حالات بھی الگ سے میّسر آئے۔ انسان گروہوں، طبقوں، کنبوں، قبیلوں اور نسلوں میں بٹ گیا۔ اس تقسیم کے سبب اظہار اور رابطے کے لئے اسے اپنے نشان تخلیق کرنا پڑے۔ اگر عطائیہ( نازلہ) نشان چلے آتے تو نہ صرف دال کو استحکام رہتا بلکہ مدلوں بھی غیر لچکدار ہوتا۔ اس طرح قرآ ت اور تشریح میں تبدیلی واقع نہ ہوتی۔
ایک سماج میں تفریق کے سبب ان گنت پیشوں، طبقوں، گروہوں اور کنبوں سے لوگ تعلق رکھتے ہیں۔ ایک ہی سماج میں بہت سے منی کلچرسانس لے رہے ہوتے ہیں۔ جو الگ سے اکائیاں ہو کر بھی ایک وحدت کا حصہ ہوتے ہیں اور وہ جال کے دھاگوں کی طرح آپس میں پیوستہ ہوتے ہیں انھیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کسی عظیم الشان عمارت کی ہر اینٹ اس عمارت کی ضرورت اوراس کے حسن اور عظمت کا لازمہ ہوتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود ہر اینٹ کی اپنی شناخت اور اس سے ایک مدلول کا تصور جڑا ہوا ہوتاہے۔ (۶) اہم وحدت کے حوالہ سے وہ معدوم ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ بھی کہ بطور اکائی ناظر اور قاری کو متحرک رہنا پڑتا ہے یہ اس اکائی کی انا کی مجبوری ہوتی ہے۔
جناب امیر(ع) سے یہ قول منسوب کیا جاتا ہے کہ کہنے والے کو مت دیکھو اس کے کہے کو دیکھو۔ یہ مصنف کی موت کا کھلا اعلان ہے۔ اس طرح قاری، ناظر، سامع کہنے یا لکھنے والے کی انگلی پکڑ کر قرآت اور تشریح کا فریضہ کیونکر سر انجام دیا جا سکتاہے اورنہ ہی وہ بطور ناظر قاری وغیرہ اس کی تشریح کر رہا ہوتا ہے۔ ایسا ممکن بھی نہیں کہ ایک وکیل جو شاعری کا ذوق رکھتا ہے غالبؔ کی شاعری پڑھتے وقت غالبؔ کی ذات‘ حالات اور ماحول کو سامنے رکھ کر اس کی شاعری سے حظ حاصل کرے گا۔ وہ اس کا پابند نہیں۔ غالبؔ اس کے عہد، کسی تاریخی بعد یا تسلسل یا کسی سیاسی جبر سے اس کا کیا تعلق یا اس کی دلچسپیِ ،لایعنی سی بات ہے۔ وہ جو پڑھ رہا ہوتاہے وہ بھی تو اس سے پہلے کی تشریح ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ کہی ہوئی بات کو اپنے انداز میں دہرائے گا۔ جب وہ دہرا رہا ہوگا وکیل کلچر حرکت میں ہوگا نہ کہ کوئی وکیل ہوگا۔ اس طرح غالبؔ بھی معدوم ہو چکا ہوگا۔ تاہم غالبؔ کے ساتھ ہی Identified وکیل کی موت واقع ہو چکی ہوگی۔ اس کی تشریح وکیل کلچر میں آخری تشریح نہ ہوگی کیونکہ کسی بھی سماج کے حوالےِ، محدود اور آخری نہیں ہوتے اورنہ ہی ان حوالوں کو استحکام حاصل ہوتاہے۔ تاہم ہر پرانا حوالہ نئی تشریح کا سبب ضرور بنتا ہے۔
زمانی و مکانی فاصلے اور تغیرات، غالبؔ سے متعلق وکیل کلچر کے پیرو نہیں ہیں۔ گائے کا مدلول ’’گائے کلچر‘‘ سے وابستہ ہے اس گاؤ کلچر یا برطانوی کاؤ کلچر‘‘ سے نتھی نہیں کیا جا سکتا ۔گویا ایک سے کلچر( نام کے لحاظ سے) میں مکانی و زمانی فاصلوں کے سبب قرآت اور تفہیم و تشریح کے تقاضے اور ضرورتیں بدل جاتی ہیں۔ مثلاً
* مقتول کی لاش کے ساتھ فلاں رنگ، قدر کاٹھ کی گائے ذبح کرکے گوشت مس کیا گیا۔ (۶ )تو وہ بولنے لگی ۔
* موسیٰ (ع) کی عدم موجودگی میں گائے کے بچھڑے کی بنی اسرائیل پوجا کرنے لگے۔ (۷)
* گاؤ ماتا کو ضرر پہنچانا پاپ ہے۔
ان حوالوں کو درج ذیل حوالوں سے کیسے اور کیونکر نتھی کیا جا سکتا ہے:
الف۔ وہ تو اللہ کی گائے ہے۔
ب۔ گائے ذبح کرکے گوشت غربا میں بانٹ دو۔
ج۔ اس نے بکر عید پر جوان اور صحت مند گائے ذبح کی۔
د۔ بوڑھی گائے کا دودھ پتلا اور زردی مائل ہوتاہے۔
درج بالا جملے گائے سے وابستہ تصور کے مختلف مدلول سامنے لاتے ہیں۔
ساختیاتی فکر کو البر کا میو کے ’’سسی فس‘‘ سے بھی مماثل قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ سسی فس تو لا یعنیت کی علامت ہے جبکہ ساختیات میں پھر سے دہرائے جانے کا عمل‘ مزید کھوج اور مزید معنویت کی تلاش سے عبارت ہے۔ ساختیاتی رویہ (تہ در تہ تلاش) سائنسی اور فلسفیانہ ہے۔ بعض لوگوں کو یہ رویہ ذہنی ورزش سے مماثل لگتا ہے-(۸) ماہر نفسیات ایک ہی سوال نفسیاتی مریض سے مختلف انداز سے اس لئے دہراتا ہے کہ وہ مدلول سے وابستہ زیادہ سے زیادہ کڑیاں جمع کر سکے۔اس فعل کے دوران، وال اور مدلول معدوم ہو چکے ہوتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک عظیم وحدت سے وابستہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ ’’شناختی کجی‘‘ کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی فن پارے میں نئے معنی تلاش کرنے کا عمل، بالکل ماہر نفسیات جیسا ہوتاہے۔ قاری بار بار دہرائے جانے کے عمل کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچ جانے کی سعی کرتا ہے۔ تاہم اس کا حتمی نتیجہ کبھی بھی ردّ (deconstruct) ہو سکتا ہے۔
نشان ریسرچ پر ہی غور فرمائیں۔ سرچ(search) کے لغوی معنی تلاش کرنا کے ہیں ۔ری (Re) دوبارہ دہرائے جانے سے متعلق سابقہ ہے۔ یعنی دوبارہ تلاش۔ لفظ یہ ظاہر کر رہاہے کہ تلاش پہلے سے کی جا چکی ہے۔ اب اسے دوبارہ تلاش کیا جا رہاہے یا دوبارہ سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کیلف فورڈ دوڈی اسے تلاش و جستجو کا نام دیتاہے۔ ’’ٹکسمین‘‘ اسے مسائل کے حل کے لئے ایک با ضابطہ منظم کوشش قرار دیتاہے۔ نائرسن کے نزدیک Research سچائی کی تلاش کا ذریعہ ہے جس کے ذریعے حقائق و افکار کی تلاش کی جاتی ہے۔ ان اہل دانش کی تعریفوں سے درج ذیل امور کی نشاندہی ہوتی ہے :
الف۔ تلاش دہرائے جانے کے عمل کا نام ہے۔
ب۔ دہرائے جانے کا عمل حقائق و افکار کی تلاش کے لئے اختیار کیا جاتاہے۔
ج۔ موجود سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
د۔ موجود تسلی بخش نہیں۔
ھ۔ اضافہ یا ترمیم وغیرہ کے لئے موجود سے آگے بڑھا جا رہاہے۔
و۔ موجود کو ردّ کرکے آگے بڑھا جا رہے۔
ساختیات میں آگے کے لئے Post کا لفظ استعمال کیا جاتاہے۔ بعض لوگ ردّ ساخت یا ساخت شکنی کو ساختیاتی فکر کی نفی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ درست نہیں۔ ردّ ساخت سے مراد موجودہ تشریح سے انحراف جبکہ ساخت شکنی (deconstruction) کے معنی پہلے سے موجود سے انکار کرکے اسی یا کسی اور زاویے سے آگے (Post) بڑھنا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتاہے کہ کوئی قرآت یا تشریح آخری نہیں۔ اسے کسی بھی وقت ردّ کیا جا سکتا
ہے بلکہ اس کی جگہ کوئی نئی قرآت یا تشریح پیش کی جا سکتی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتاہے۔ وقت حالات، ماحول، حاجات، امرجہ، ضرورتیں، نظریے وغیرہ ساکت و جامد شے نہیں ہیں۔ ان میں تغیرات آتے رہتے ہیں۔ قاری یا ناظر کسی غیر لچکدار زاویے یا اصول کے ماتحت نہیں ہوتا۔ اس کے پیشِ نظر صرف دو معاملے ہوتے ہیں:
الف۔ نشان کی قراٗت
ب۔ نشان سے وابستہ تصور
بہت سے رجعت پسندوں کا اصرار ہے کہ لفظ کی قرأت اہل زبان کے رویے کی پابند ہے۔ کسی بھی طبقے کو اہل زبان قرار دینا‘ در حقیقت انسانی سماج کی موجودگی سے انحراف کے مترادف ہے۔اہل زبان تو ایک اکائی ہیں لیکن جب وہ قرأت کا معاملہ طے کر رہے ہوتے ہیں معدوم ہوجاتے ہیں۔ناسخ ؔ نے جو اصول اردو کے لئے وضع کئے خود ان کے ہاں ان سے انحراف ملتاہے۔ اس صورتحال کے تحت کسی اکائی کو وحدت تسلیم کر لینا ساختیاتی مطالعہ سے انحراف کے مترادف ہے۔ یہ انحراف اپنی اصل میں ساخت شکنی ہے۔ اسی طرح لفظ یا نشان(sign) سے وابستہ تصور قرأت سے الگ نہیں اور نہ ہی قرأت‘ اس تصور سے کوئی الگ شے ہے۔
نشان کوئی خود کار اکائی نہیں۔ دال اور مدلول ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی دال اور مدلول کا حیات کے دوسرے شعبوں سے تعلق نہ ہو۔ تصنیف کا انفراسٹرکچر(Infrastructure) کوڈ اور کنونشنز (conventions) پر مشتمل ہوتاہے۔ یہ کوڈز اور کنونشنز تصنیف کو حدود سے آزادی دلاتے ہیں۔ ہر کوڈ اور کنونشن، قرآت اور تشریح کواپنی حدود کے جبر میں لے لیتا ہے اور اسی کے مطابق قرأت اور تشریح کے وقت اس کوڈ کا قاری یا شارح معدوم ہو جاتا ہے اس کی موت انسانی سماج کو زندہ رکھتی ہے۔ لفظ sign/ traces اظہار تک ہی محدود نہیں ہوتے بلکہ وہ تو اظہار کے لئے محرک صورت بننے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ (۱۰ )اس کی یہ محرک صورت جوں جوں سفر طے کرتی ہے construction اور اس کے بعد deconstruction کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ پس ساخت نے مصنف کو متن سے الگ کرکے اس کی جگہ شعریات Poetic جو کہ ثقافتی کوڈ زاور کنونشنز پر مبنی نظام ہے، کو دے دی ہے۔ یوں ثقافتی نظام کو اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ تنقید، مصنف کی سوانحی حیثیت کی بجائے اس کی تخلیقی حیثیت کو اجاگر کر رہی ہوتی ہے۔ ۱۱؂ یہ بات یقیناًبڑی عجیب لگتی ہے کہ مصنف کو نظر انداز کرکے اس کی تخلیقی حیثیت کو اجاگر کیا جا رہا ہو، لیکن حقیقت یہی ہے۔
مصنف کی تخلیقی حیثیت ذات پات رنگ نسل، علاقہ وغیرہ ایسی کثافتوں سے پاک ہوتی ہے وہ مصنف جو ایک اکائی ہے‘ کی محتاج ہوتی ہے۔ مصنف کی تخلیقی حیثیت بہت آگے تک پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ کہا جاتاہے کہ اگر سچائی تک رسائی کی خواہش ہو تو اتنا آگے Post بڑھا جائے کہ صحابہ کی صف میں شامل ہو جائیں، یہی ترقی قرار پاتی ہے۔ پس ساخت کیاہے یہی تو ہے اور یہ عمل ساخت شکنی کے بغیر کیونکر ممکن ہے۔ سیدعا بد علی عابدؔ کا کہنا ہے:
’’ مطالب کے اظہار و ابلاغ کے مختلف علوم (۱۲)پرانے الفاظ کو ایسے معنی پہنا دیتے ہیں کہ وہ اس علم کی خاص اصطلاحات بن جاتے ہیں اور ان میں لغوی معنی سے کہیں زیادہ وسعت اور نئی دلالتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔‘‘ ( ۱۳)
اس اقتباس پر ذرا توجہ دیں یہ ساختیاتی فکر کی نمائندگی کر رہی ہے۔ یعنی
۱۔ نشان اور اس کی قرآت کو استحکام نہیں
۲۔ اظہار و ابلاغ کا عمل، ساخت شکنی کا سبب بنتا ہے۔
۲۱۹
۳۔ تشریح کا عمل ٹھہراؤ کا شکار نہیں ہوتا بلکہ ہر تشریح کے ردّ ہونے کا خدشہ باقی رہتا ہے۔
۴۔ دال سے وابستہ مدلول وسعت اختیار کرتا ہے اور اس میں نئی دلالتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
ادب ایک سماجی قوت کا نام ہے اسے کسی مخصوص اکائی (مصنف) سے جوڑا نہیں جا سکتا۔ عبدالقادر سروری کا کہنا ہے:
’’شاعری بغیر تخیل کے پیدا نہیں ہوتی ۔‘‘ ( ۱۴)
تخیل، شاعر کے ذاتی حوالوں کا پابند نہیں اور نہ ہی وہ شاعر کی ذات تک محدود ہوتاہے۔ اس کا شاعر کی ذات سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ شاعر تو ایک ذریعۂ اظہار ہے۔ ساختیات ادب کی اس شعریات کے نظام کا تعین کرنا چاہتی ہے جس کی رو سے ادب سماجی تشکیل کی جمالیاتی سطح کے طور پرا ظہار پذیر ہوتاہے اور بطور ادب کے پڑھا اور سمجھا جاتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ متن اور قاری (شاعری کی تخلیق کے بعد اور اس کی قرآت کے وقت تک) ایک دوسرے کا سامنا فاعل اور مفعول کی حیثیت سے نہیں کرتے بلکہ دونوں کی تقسیم خود قاری کے اندر جنم لیتی ہے۔ دوسرے کے خیالات کو سوچنے اور سمجھنے کے دوران خود قاری کی اپنی انفرادیت پس منظر میں چلی جاتی ہے کیونکہ اس کی انفرادیت کی جگہ خارجی خیالات لے لیتے ہیں اور اب یہی موضوع ہوتا ہے جس پر اس کی توجہ ہوتی ہے۔ سید عابد علی عابد کہتے ہیں:
’’غالبؔ نے کثرت سے صنعتیں استعمال کی ہیں لیکن ایسی خوبی سے استعمال کی ہیں کہ محلِ معنی کے بجائے معاون مقصد ہوتی ہیں اور جب ان کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو ایک خاص قسم کا تحیر انبساط اور استعجاب حاصل ہوتا ہے ۔‘‘ (۱۵)
غور فرمائیے:
۱۔ یہ صنعتیں غالبؔ کی تشکیل کی ہوئی نہیں ہیں۔ غالبؔ کے ہاں ان کا استعمال ہوا ہے۔
۲۔ غالبؔ سے پہلے ان صنعتوں کا استعمال ہوتا رہا ہے پھر سے استعمال کے معنی یہ ہیں کہ نئی تشریح نئی قرآت
اور نئے معنی تشکیل پائے ہیں۔
۳۔ غالبؔ کی صنعتیں محلِ معنی کی بجائے معاون مقصد ہوتی ہیں۔
ایک بار پھر غور فرمائیں:
۱۔ غالبؔ پہلے سے موجود کا نیا استعمال دریافت کرنے کے لئے پہلے استعمال کو deconstruct کر رہے ہیں۔
۲۔ پہلے سے موجود مفاہیم کو رد کرکے نئے زاویوں کا اہتمام کر رہے ہیں۔
۳۔ محلِ معنی کی بجاے معاونِ مقصد بنا کر پہلے سے موجود مفاہیم کی کائنات سے انحراف کر رہے ہیں۔
۴۔ یہ کام موجودہ سماجی و ادبی سیٹ اپ سر انجام دے رہا ہے نہ کہ مرزا غالبؔ سرانجام دے رہے ہیں وہ تو محض ایک وسیلہ ہیں۔
۵۔ وہ نہ صرف ساخت شکنی کر رہے ہیں بلکہ پھر سے دہرانے کے عمل پر عمل پیرا ہیں۔
سید مشکور حسین یادؔ کے ہاں میری ان معروضات کی واضح تصدیق موجود ہے۔ فرماتے ہیں:
’’ہر لفظ پر اس کے عام سے آگے بڑھ کر سوچئے تب جا کر گنجیۂ معنی کا طلسم آپ پر کھلے گا۔ پہلی نظر میں عام معنی سے عام مفہوم ہی نکلے گا۔ خاص معنی تو ذرا غور کرنے کے بعد ہی معلوم ہوتے ہیں۔ ( ۱۶)
گویا :
۱۔ پہلے سے موجود مفاہیم کو رد کرکے آگے) (post بڑھ کر سوچا جا سکتا ہے۔
۲۔ ایک بار پہلے سوچا گیا ہے جو موجود سے ردّ ہو کر پھر سے سوچا جائے گا۔
۳۔ بار بار سوچنے ہی سے گنجینۂ معنی کا طلسم کھل سکتاہے۔
۴۔ کوئی بھی سوچ حتمی اور آخری نہیں۔
فکری اعتبار سے مفکر محض سوچنے کا ایک ایما ہے جس میں وہ کچھ نہیں۔ فکر ایک فاعل کو جانتی ہے اور اس کی شخصیت کو بھی۔ اس سوچ سے آگاہی حاصل کرنے والا اس سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا کہ آخر سوچا کیا گیا ہے۔ اس میں اگر سوچنے والے کو رکھ لیں تو وہ سوچ کی محض ایک اکائی ہوگی۔ کسی اکائی سے آگاہی حاصل کرنے والے کو کل سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ آگہی حاصل کرنے والا سوچ سے وابستہ مدلول سے دلچسپی رکھتا ہے۔ اس کی یہ دلچسپی فردِ واحد کی دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ دلچسپی لینے والا اس وقت معدوم ہو چکا ہوتاہے۔ اس کو ذر آگے Post بڑھ کر دیکھیں تو عیاں ہوگا کہ موجود سوچ کے حوالہ سے پہلی سوچ Sign اور اس سے وابستہ تصور) (Signified معدوم ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ نئی سوچ دینے والا محض آلہ کار ہے۔ اس سوچ میں اس کی اپنی شخصیت کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہ نئی سوچ (تشریح) پر غور کرنے والا (بطور شخص) معدوم ہو چکا ہوتاہے۔ گویا اکائیاں معدوم ہو کر وحدت بن جاتی ہیں۔شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں:
’’ہر مومن اس چیز کا مکلف بنایا گیا ہے کہ قسمتوں کی موجودگی کے وقت ان کے حصول واخذ کے سلسلے میں اس تک توقف سے
کام لے جب تک اس کی قبولیت کا حکم نہ مل جائے اور یہ نہ معلوم ہو جائے کہ یہ شے اس کا مقسوم ہے۔ ‘‘ (۱۷)
حضرت شیخ صاحب کے فرمان پر غور فرمائیں تین امور کی واضح طور پر نشاندہی ہو رہی ہے:
اول۔ چیزوں کی قسمت موجود ہوتی ہے۔
دوم۔ حصول واخذ کے معاملہ میں توقف اور تفتیش سے کام لیا جانا چاہیے۔
سوم۔ شے کے مقسوم تک پہنچنا ہی اصل اور حقیقی کام ہے۔
پہلی بات کا مطلب یہ ہے کہ ہر دال کا ایک مدلول ہوتاہے۔ دوسری کا مطلب یہ ہے کہ جو مدلول ہم سمجھ رہے ہوں وہی کسی دال کا حقیقی اور اصل مدلول ہو،ضروری نہیں۔ تیسری بات کے معنی یہ بنتے ہیں کہ مدلول بار بار ردّ ہوتے ہیں اور یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔ اس عمل کے متواتر اور مسلسل جاری رہنے سے شے کے حقیقی مفہوم‘ جو خالصتاً اس سے وابستہ ہو تک رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔
کسی شخص پر قاتل ہونے کا بلا تحقیق فتویٰ صادر کر دینا مبنی بر انصاف نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ضروری نہیں جو ہم دیکھ رہے ہوں‘ سمجھ رہے ہوں یا ہمیں بتایا جا رہا ہو سچ ہو یا وہی ہو جو ہم دیکھ سن یا سمجھ رہے ہوں۔ ہمارے حواس حقیقت تک رسائی کا ذریعہ ضرور ہیں لیکن وہ بذات خود حقیقت نہیں ہوتے۔ دوسرا حواس جب کام کر رہے ہوتے ہیں ان کی ذاتی حیثیت صفر ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ان پر بطور اکائی یقین کر لینا غلط بات ہوگی۔ اسی طرح جس معاملے کو دیکھا یا سنا جا رہا ہوتاہے‘ بھی اکائی نہیں۔ معاملے کو بطور اکائی ملاحظہ کرنا یا اس کا بطور اکائی ملاحطہ ہونا نتائج سے دور رہنے کے مترادف بات ہوگی۔ ملاحظہ ہونے اور ملاحظہ کرنے میں دونوں اکائیاں ایک وحدت ہوتی ہیں۔ دال اور مدلول کی موت سے وحدت جنم لیتی ہے۔ اور اسی حوالہ سے تشریح و تعبیر کا مسئلہ طے ہو سکتا ہے۔
ملاحظہ کرنا اور ملاحظہ ہونا کو حقیقت تسلیم کر لینے سے وال اور مدلول سے نا انصافی جنم لے گی۔ یہ طرز فکر یا طرز عمل بے گناہ کو پھانسی کے پھندے تک لے جائے گا۔
پھر سے غور کرنے کا عمل غیرفطری نہیں۔ قرآن مجید غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ غور کرنا نشان کی بار بار قرآت کرنا ہے۔ نشان کو مختلف
زاویوں سے پرکھنا اس کے ساتھ انصاف کرنا ہے۔ ہر وال کے ساتھ پہلے سے وابستہ مدلول کوئی اٹل اور نا قابلِ تغیر چیز نہیں۔ تفتیش کے دوران قتل سے وابستہ ملزم کو قاتل نہیں سمجھا جا سکتا۔ جائے واردات کا بار بار ملاحظہ کرنا۔ گواہوں کے بار بار بیان حاصل کرنا۔ قتل سے وابستہ ا شیاء سے متعلق بار بار سوال اٹھانا اور معلومات حاصل کرنا، جو بات سمجھ میں آ رہی ہو اس کے مفاہیم پر بار بار غور کرنا ضروری ہوتاہے۔ ہو سکتا ہے جسے قاتل سمجھا جا رہا ہو سرے سے قاتل ہی نہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے مقتول بھی حقیقی مقتول نہ ہو۔ جائے واردات اور اشیاء موقعہ کا مدلول سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ ساسیئر کے مطابق:
‘‘ جو معنی ظاہر ہو رہے ہوں وہ معنی وہی نہیں ہوتے جو ظاہر ہو رہے ہوں کیونکہ غائب یا التوا میں ڈالے ہوئے
معنی بھی ہوتے ہیں۔ اسی سلسلے میں (ہی) دریدانے نظریۂ افتراق کو وسعت دی۔‘‘ ( ۱۸)
اشیاء اضداد کے اثر شناخت کا باعث بنتی ہیں۔ کرسی اس لئے کرسی ہے کہ وہ میز، چارپائی دروازے وغیرہ سے مختلف ہے۔ رات دن کے حوالہ پہنچانی جاتی ہے۔ دن نہ ہو تو رات کی شناخت نہ ہو سکے گی اور نہ ہی رات کو رات کا نام دیا جا سکے گا۔ قتل کی تفتیش میں افترا کی عناصر جمع کرکے نتائج اخذ کرنا انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ قتل میں قاتل اور مقتول کا ہونا فطری سی بات ہے۔ تحریر تو فطری طور پر موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح دال کا مدلول ہونا نئی بات نہیں۔ جھگڑا صرف اس بات کا ہے کہ دال کا وہی مدلول ہے جو سمجھا جا رہا ہے۔ مقتول کا وہی قاتل ہے، قسمت کا وہی حصول واخذ ہے‘ کسی معاملے کے متعلق جو سوچا جا رہاہے وہی درست ہے‘ ضروری نہیں۔ دریافت اور حصول واخذ کے لئے لازم ہے کہ دہرانے کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ سول جج کے فیصلے کے خلاف سیشن کورٹ،سیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ، ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی جاتی ہیں۔ یہ دہرانے کا عمل ہی تو ہے۔ پولیس تھانے سے سپریم کورٹ تک کسی دال کا حقیقی مدلول دریافت کرنے تک کی کوشش ہی تو ہے۔ ساختیاتی نقطۂ نظر سے تفتیشی و تحقیقی کارروائی کے اندر مدلول (قاتل) تلاش کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ تاہم وال سے وابستہ مجوزہ مدلول حرفِ آخر نہیں۔ اگر کہا جائے زبان کے اندرادب ہوتا ہے تو کونسی غلط بات ہوگی۔ تفتیش / تشریح ایک وحدت کانام ہے۔ دہرائے جانے کے عمل سے ایسی ہی ایک اور وحدت تک پہنچا جا سکتاہے۔
ساسئیر نے مختلف سماجوں اور ان کے باہمی رشتوں اور اسی طرح ان کے تہذیبی و لسانی مشترک رویوں کے ذریعے ایک طرح کی ’’لسانی تفہیمی وحدت‘‘ سگینفائیڈ کے ذریعے تلاشنے کی کوشش کی ہے اور یہ سب ادراک کے حد کی چیز ہے:
’’عمومی اور رشتہیاتی تناظر میں زبان کی شناخت کا نام ہے اور کوئی ایسا لسانی عمل بھی جو فکر بھی رکھتا ہے اسی طور کچھ تخلیق ہو سکتاہے
یا ہو تو یہ بھی اس کا حق ہو سکتا ہے اور رشتے بھی گویا اسی طور اس سے کچھ نہ کچھ وجود میں آتے رہتے ہیں۔‘‘ ( ۱۹)
معروضاتِ بالا کو ڈاکٹر وقار احمد رضوی کے اس اقتباس کے تناظر میں ملاحظہ فرمائیں‘ معاملہ صاف ہو جائے گا:
’’ادب حقیقتِ خارجی بھی اور حقیقتِ داخلی بھی (ہے) وہ زندگی کو مثالیت کی ان بلندیوں پر لے جاتاہے
جہاں عملی قوتیں شکست و ریخت سے دوچار ہوتی ہیں شاید یہی وہ مقام ہے جب مادہ شعور سے’وجود تصور
سے‘ روح جسم سے اور عمل فکر سے پہلے وجود میں آتا ہے۔ (۲۰)
حقیقت خارجی اور داخلی کیا ہے مشکور حسین یادؔ کی زبان میں ملاحظہ ہو:
’’جو پہلی نظر (قرآت) میں سمجھ میں آ جائے جبکہ حقیقت داخلی جو ذرا آگے بڑھ کرنظر آئے ۔‘‘ ( ۲۱)
پہلی نظر میں سمجھ میں آنے والے اور ذرا آگے بڑھ کر سمجھ میں آنے والے کو بھی مدلول ہی کہا جائے گا۔ دونوں ایک ہی دال کے مدلول ہوں گے۔ درست اور صحیح کی دریافت پھر سے دہرانے کے عمل سے ممکن ہو سکتی ہے یعنی ایک دال سے کئی مدلول وابستہ ہو سکتے ہیں اور ایک مدلول سے کئی
افتراق منسلک ہوتے ہیں۔ افتراق کے پھیلتے حلقوں کے بیچ/ بالمقابل کسی دال کا اصل مقسوم نظر آسکے گا۔ بصورت دیگر سب کچھ غلط یا پھر غلط فہمی پر مبنی ہوگا۔
نظریہ شونیہ اور سائنس کے حوالہ سے ساختیات کے ضمن میں کچھ نہ درج کیا گیا تو یہ مطالعہ ادھورا رہے گا۔ ڈاکٹر گوپی چند کا کہنا ہے:
’’ حقیقت کا اصل الاصول اگر کچھ ہے تو شونیہ ہے۔ شونیہ ہی حقیقتِ کلی ہے۔ حقیقتِ مطلقہ، یہی تتھاہے۔ اسی کی
منزل نروان ہے یا کلی مطلیقت کی منزل۔ اس کے بغیر نہ تو گیان ممکن ہے اور نہ ہی گیان کی ترسیل اور نہ ہی سنسار
کی ترسیل اور نہ ہی سنسار کی سچائی کو اس کے بغیر جانا جا سکتاہے۔ اپنی مطلق حیثیت سے شونیہ فطری انسانی وجود
میں عدم وجودیت کا احساس ہے۔ بدھ نے تمام مابعد الطبعیاتی سوالوں کاجواب خاموشی، شونیہ سے دیا ہے۔ خاموشی
ایک زبردست حرکیاتی تصور ہے آواز سے کہیں زیادہ طاقت ور اور اصوات اور معنی کے ان گنت امکانات سے
بھر پور غیر اصل (سوال) کے ذریعے اصلیت کو جاننا اور سمجھنا نا ممکن تک پہیم مسلسل۔‘‘ (۲۲)
خاموشی عدم وجودیت کا اظہار ہے تاہم اس کے بطن میں معنی کا طوفانِ بلا خیز موجود ہوتا ہے یعنی یہ معنویت سے لبریز ہوتی ہے۔ جس کو تلاشنا اور بیان کرنا باقی ہوتاہے۔ جو دریافت کئے جا رہے ہوتے ہیں یا دریافت کئے جائیں گے جو دریافت ہو چکے ہیں ان پر قطعیت کی مہر ثبت نہیں۔ انسانی ذہن میں یہ بات ودیعت ہے کہ وہ موجود (جس کے متعلق ادراک کے لئے سوال اٹھتے ہیں) پر اختراعات کا ایک عالی شان محل تعمیر کر دے۔ فرعونوں کے مقبروں سے ملنے والی اشیاء اور تحریریں خاموش ہیں۔ ان کی خاموشی کو دریافت کرنے کے لئے فکر کے عالی شان محل تعمیر کر دئیے گئے ہیں۔ دماغ رشتوں سے منسلک ہونے کے سبب باہر کی کائنات کو بھی رشتوں کے مآل کے طور پر دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ اس سیناریو میں ہی اختراعات کا عظیم الشان محل بطور مدلول سامنے آتاہے۔ لیکن یہ مدلول حرف آخر نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ اسے زیر حوالہ دال کا حقیقی مدلول کہلائے جانے کے لئے دہرائے جانے کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔ خاموشی سے وابستہ اختراعی تصور اپنی ذات میں محض اختراع کے سوا کچھ نہیں signification کے دوران نہ جانے کون سا رشتہ نظر انداز ہو گیا ہو۔ جال تبھی مکمل جال ہوگا جب اس کا ہر دھاگہ موجود ہوگا۔ ڈاکٹر ویزر آغا کے بقول :
’’ساختیات مرکز ایک نقطے پر مرتکز ہونے کے بجائے ربط باہم کی حامل ایک صورت میں سامنے آ گیا ہوتاہے ۔‘‘ ( ۲۳)
اس حوالہ سے پھر سے دہرائے جانے کی حاجتِ زندہ رہتی ہے۔
مرکنٹائل تھیوری کے مطابق در آمدات کم کرنے کیلئے ہمہ وقت اور ہر شعبہ میں حکومتی مداخلت ضروی ہے ۔(۲۴)
۱۸ ویں صدی میں یہ نظریہ رد کر دیا گیا ۔(۲۵ ) فرائڈ مین نے ہر شعبہ میں مداخلت کو غلط قرار دیا۔ (۲۶)
اسکارتھ کا کہنا ہے:
'' They must also admit that it is utility and production function
that are independent of government policies." (27)
غور فرمائیے ایک دال (تھیوری) کے کتنے مدلول سامنے آگئے ہیں اور نہ جانے اور کتنے مدلول سامنے آئیں گے۔ تاہم یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ موجودہ ساخت کی deconstruction سے ہی پسِ ساخت معنی کی تلاش کی جا سکتی ہے۔ نشان خصم ،احوال یا جلوس کے موجودہ مفاہیم اور تشریح کو آخری قرار نہیں دیا سکتا۔ اس کے لئے پس ساخت دیکھنے کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔ اس قضیے کو ایک ڈایا گرام کے ذریعے سے واضح کرنے کی سعی کرتا ہوں:
۲۱۵۰میں مرکز سے ۸۰۰ سال کا فاصلہ ہوگا جبکہ ۷۵۰ میں بھی مرکز سے ۸۰۰ سال کا فاصلہ ہوگا۔ ۵۰ ۷ سے آغاز کی صورت میں ۸۰۰سال بالا سوچنا پڑے گا۔ ۷۵۰ سے ۱۴۴۹ تک دال کا وجود نہیں ہے جبکہ ۲۱۵۰ میں دال کا تصور ۸۰۰ سال آگے بڑھ گیا ہے۔ گویا ۱۴۵۰ تک آٹھ صدیوں کے چھلکے اتار کو مدلول تک اپروچ ہو سکے گی۔ ۲۰۵۰، ۱۹۵۰، ۱۸۸۰، ۱۷۵۰، ۱۵۵۰ میں ساخت شکنی یا ان سین سے متعلق دال کی ساخت کو deconstruct کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ۲۱۵۰ کے مدلول ۱۹۵۰ کے مدلول سے مختلف ہوں گے۔ ۱۹۵۰ کے ۱۸۵۰ کے مدلول الگ ہوں گے اور یہ سلسلہ ۲۱۵۰ تک پھیلا ہوا ہے۔ ہر صدی کے بعد نشان سے وابستہ تصور آگے بڑھ جاتا ہے۔ ۱۵۵۰ میں کم فرق پڑا جبکہ ۲۱۵۰ میں فرق میں اضافہ ہوا ہے۔ ۱۴۵۰ کے نشان ’’گائے‘‘ اور اس سے وابستہ تصور کو ۲۱۵۰ کے تصور سے مماثل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مرکز تک رسائی کے لئے مرکز پر سے آٹھ صدیوں کے چھلکے اتارنا پڑیں گے تب جا کر ابتدا میں قائم ہونے والا تصور سامنے لایا جا سکے گا۔ جبکہ ۷۵۰ سے ۱۴۴۹ تک عدم وجود کا تصور اور دال کو اس کی تمدنی جال کے مرکزے کی تشریح کے لئے مدّ نظر رکھناپڑے گا۔ ۱۴۵۰ سے ۲۱۵۰ آگے بڑھنے کا عمل ہے۔ اس کے برعکس ۲۱۵۰ سے ۱۴۴۰ تک کا سفر پسِ ساخت کا سفر ہوگا۔ ۷۵۰ سے ۱۴۵۰ تک مرکزے کے وجود پکڑے کا سفر ہے۔ اس میں ساختیاتی مطالعہ کوئی پروگرام نہیں دیتا کہ یہ کرو یہ نہ کرو۔ اس سفر میں ساختیات نوعیت، ہیت ماہیت اور قرآت کے تفاعل سے بحث کرتی ہے اور معاملہ فہمی کی سرحدیں نزدیک تر کرتی چلی جاتی ہے۔
اس کا بنیادی مطمعِ نظر یہی ہوتا ہے کہ صدیوں کا مرکز کے حوالہ سے رشتہ جوڑا جائے اور sign سے مرکزیت اور ایٹمز کو ختم کر کے مرکزے سے وابستہ کائنات تشکیل دی جائے۔ نشان اور صدیوں کو مظاہر کے حوالہ سے ادراک کی بنیاد بنایا جائے۔ کیونکہ ۲۱۵۰ سے ۱۴۵۰ تک کے سالوں کا فاصلہ بے ترتیبی کے جبر کا شکار ہے۔
نرگسیت کے استعارے میں انسان نے خود سے پیار کرنے کا مفہوم لیا جبکہ لاکاں نے اس سے اس مفہوم کی قطعیت چھین کر ایک نئی فکر دی ہے۔ اس کے مطابق جب بچہ سب سے پہلے اپنا چہرہ آئینے میں دیکھتا ہے تو پہچان کا تصور اس کے ذہن میں ابھرتا ہے۔ دوبارہ غور کرتا ہے تو اسے اپنے بکھر ہوئے بے ترتیب جسم میں ایک وحدت نظر آتی ہے۔ اسے ایک طرح کے خیالی تصوراتی اور مثالی ’’میں‘‘ کا احساس ہوتا ہے اسے وہی ’’میں‘‘ کا مرائی دور یا mirror stage کہتا ہے۔ بچے کو خوشی ہوتی ہے کہ وہ ایک وحدت ہے۔ ۱۴۵۰ مرکزے کی mirror stage ہے۔ جبکہ ۲۱۵۰ تکمیل کی stage ہے۔ mirror stage سے تکمیلِ وحدت تک ۸۰۰ سال کا عرصہ لگا لیکن دوسری طرف mirror stage تک بھی ۸۰۰ سال کا عرصہ صرف ہوا۔ قاری کو ۲۱۵۰ میں ۱۴۵۱۰ کے متعلق جاننا ہے۔ ایسی صورت میں وجود سے بے ترتیبی کی طرف بڑھنا ہے جبکہ ۷۵۰ سے ۱۴۵۰ کی طرف بڑھنا ،پہچان کی طرف سفر کرناہے۔ اس مقام پر یہ امر رد نہیں کیا جا سکتا کہ ۱۴۵۰ دراصل ۷۵۰ کی تکمیل ہے جو کہ mirror stage ہے۔
۱۴۵۰ ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے۔ ۱۴۵۰ وسیع تر سماجی رشتوں میں منسلک ہو کر اکائیوں کو وحدت کا شعور عطا کرتا ہے۔ ۲۱۵۰ سے ۱۴۵۰ تک، تشریح و تفہیم کے حوالہ سے التوا میں پڑے معنوں کو بھی دیکھا جائے گا۔ انھیں تہ در تہ کریدنے اور دہرانے کا عمل حرکت میں لائے گا۔ انہی بنیادوں پر ساختیات کو پرت در پرت کھولنے کا عمل کہا جاتا ہے۔ جب وقت کے ساتھ ساتھ ایک اصطلاح دوسری کی جگہ لیتی ہے تو زبان میں مطلق ٹھہراؤ نہیں آتا۔ زبان کے تمام اجزا تغیر پذیر ہوتے ہیں۔ وہ جلدی جلدی بدلتے ہیں اور یہ اصول ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ لسانی دریا کا بہاؤ کبھی نہیں رکتا۔ قفلی سے قلفی، تڑپھ سے تڑپ، دوانا سے دیوانہ، کھسم سے خصم ،اوال سے احوال، سرج سے سورج لسانی تغیرات ہی تو ہیں۔
ساختیات صحت مند طرز فکر کا نام ہے۔ اس کے نزدیک کوئی نشان لا یعنی یا بے معنی نہیں ہوتا اس کے مکمل یا کوئی نا مکمل معنی ضرور ہوتے ہیں اور اس سے کوئی تشنہ مدلول وابستہ ہوتاہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ معاون/ عامل نشان ہو۔ اس کے بارے یہ کہنا کہ وہ معنی نہیں رکھتا درست بات نہیں۔ ہاں یہ تو کہا جا سکتاہے کہ کسی نشان کی حتمی اور آخری تشریح نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
کسی چیز کسی معاملے یا کسی دریافت کو حرف آخر کا درجہ حاصل نہیں ہوتا۔ موجود پر آگے بڑھنے کی بنیاد رکھی جاتی ہے آگے بڑھنے کی صورت میں موجود کو قطعی ردکرناپڑے گا ۔ بالکل اسی طرح جس طرح دریدہ کسی حتمی معنی کی موجودگی کے تصور کو رد کرتاہے اور ہر تشریح کی ایک اور تشریح کو ممکن قرار دیتاہے (۲۸)
عموماً کہا جاتا ہے کہ ساختیاتی فکر مغرب کی دین ہے۔ یہ نقطہ نظر درست نہیں۔ اہل اسلام کے پاس یہ تھیسیز بہت پہلے سے موجود ہے۔ صرف نام کا فرق ہے۔ مسلمان اسے اجتہاد کا نام دیتے ہیں۔ کسی مجتہد کا حکم ہر جگہ، ہر دور اور ہر کسی کے لئے قابل قبول ہو، ضروری نہیں۔ اس میں ردو بدل کے امکانات ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ اجتہاد کبھی ٹھہراؤ کا شکار نہیں ہوتا بلکہ معاملے میں معنویت پیدا کرتا رہتاہے۔
جہاد سے انکار کفر کے زمرے میں آتا ہے۔ ۱۸۵۷ء میں علمائے ہند نے جہاد کے خلاف فتویٰ دیا۔ ان علما کے لئے اچھی رائے نہیں رکھی جاتی۔ میرے دوست پروفیسر ڈاکٹر محمد عبداللہ قاضی کا موقف ہے کہ علمانے مسلمانوں کو بچانے کے لئے یہ فتویٰ دیا ورنہ انگریز مزید مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا۔ انھوں نے زمینی اور مادی حقائق کو مد نظر رکھ کر فتویٰ دیا تھا۔ قاضی صاحب کے موقف سے ہر کوئی اتفاق کرے، ضروری نہیں لیکن معاملے کی ایک مثبت اور صحت مند تشریح ضرور ہے۔ بالکل اسی طرح ساختیات کسی ایک تشریح کو آخری تشریح نہیں مانتی۔
ساختیات اشخاص، اشیاء معاملات وغیرہ کو مخصوص دائروں اور کروں تک محدود نہیں رہنے دیتی بلکہ ان کا رشتہ اور تعلق جملہ دریافت کائناتوں سے جوڑتی ہے۔ یہی نہیں ان سے متعلق کئی اور کائناتیں تلاشتی ہے ۔ان کائناتوں کے متعلقات سے بھی ان کے تعلق اور رشتے دریافت کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساختیات کو باغیانہ طرز فکر کا نام دیا جاتاہے۔ یہ رشتے اور تعلق توڑنے کو فعل حرام قرار دیتی ہے۔ رات اور دن کے اصول و ضوابط اور معاملات الگ سہی لیکن ان کا یہ تضاد ہی ان کی شناخت ہے۔ اگر ضدین موجود نہ ہوں تو ہم تمیز و امتیاز کی حس کھو دیں گے۔ دوسرا ضدین سے تخلیق و تشریح کا عمل وابستہ ہے۔ آسمان اس لئے آسمان ہے کہ زمین اس کی شناخت ہے۔ سایہ درخت کا نتیجہ ہے اور درخت کی پہچان ہے ان کا وجود الگ سہی لیکن ان کے تعلق اور رشتے سے انکارکیونکر ممکن ہے۔ پھول اپنی ہیت میں درخت سے الگ ہے لیکن یہ ایک دوسرے کی شناخت ہیں۔ گویا موجودات جال کے دھاگوں کی طرح ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں انھیں اکائیوں میں بانٹ کر نتائج کا حصول احمقانہ سی بات ہے۔
ساختیات زندگی اور اس کی اقدار کو مخصوص دائروں تک محدود نہیں رہنے دیتی۔ وہ زندگی اور اس کی جملہ اقدار کو موجود کائناتوں کے تناظر میں ملاحظہ کرتی ہے یہی نہیں مزید کائناتوں کی تلاش میں نکلتی ہے اوران سے اس کا رشتہ جوڑتی چلی جاتی ہے۔ نئے کی تلاش میں پرانے کو مسترد کر دیتی ہے یہ پانی، اس کے ابال تک ہی محدود نہیں رہتی ،بلکہ بھاپ کا تعاقب کرکے بارش کے مرکزے سے تشریح کا آغاز کرتی ہے۔ ساختیات میں آخری کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کائنات ترقی پذیر ہے۔ اس میں ہر لمحہ اضافے ہوتے ہیں تغیرات اور اضافے اسے چین لینے نہیں دیتے یہ ہر نشان کو ان سے جوڑ کر رہتی ہے اور تشریح کا کام شروع کر دیتی ہے۔ تشریح کے عمل کے دوران شارح اور مشروع کی موت واقع ہو جاتی ہے اور تشریح خود سے وجود میں آ رہی ہوتی ہے۔
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 196115 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.