آؤ تبدیلی کے لئے جدو جہد کریں

یہ ہمارا سماج ہے۔ہم اس کے باسی ہیں ۔ سالہا سال گذر گئے نسلیں پروان چڑھ رہی ہیں اور گذر رہی ہیں۔خوف،مایوسی،اور محرومی کی ایک ایسی فضا ہے جو زندگی کی اس دوڑ کو بے ہنگم بنا رہی ہے۔گلگت سے کراچی تک انسانوں کی یہ بستیاں عدم تحفظ کا شکار ہر ہونے والی صبح کو ایک مسیحا کی متلاشی ہیں۔یقیناً شعور رکھنے والے جب ان راستوں پہ سفر کرتے ہیں تو قدم قدم پہ انسانوں کی حق تلفیاں ،ان کی محرومیاں،مفلوک الحالیاں،ان کو بے چین کئے رکھتی ہیں۔طبقات میں مبتلا یہ سماج ایک دوسرے کے استحصال کے لئے کمر بستہ نظر آتا ہے۔دنیا کی اقوام صنعت وحرفت میں تحقیق وتخلیق میں ۔تعلیم وجستجو میں آسمانوں کو چھو رہی ہیں اور ہم ذلت ،پسماندگی اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ان اقوام کی منڈی بنے ہوئے ہیں۔یہ تو تاریخی حقیقت ہے کہ وہی اقوام قوت اور طاقت حاصل کرتی ہیں جو عصری تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتی ہیں۔ہمارے ساتھ عجیب حادثہ ہوا ۔اس خطے میں ابھرنی والی ایک نئی ریاست پر ایسی مشینری نے قبضہ جما لیا جس کے مدنظر کوئی قومی ہدف ،ترقی استحکام ،انصاف اور خوشحالی نہ تھا بلکہ ایک ایسا استحصالی ٹولہ اس بد نصیب ملک پر مسلط ہو گیا ۔جس نے اپنی خواہشات اپنے مفادات کے تحت اس ملک کے نظام کو چلایا ۔نہ آئین کا وجود اور نہ قانون کی پابندی۔خود ہی قانون بنایا خود ہی اس کی دھجیاں بکھیر دیں۔نصف صدی کی یہ تاریخ ایسی شرمناک ہے کہ شاید ہی کسی قوم کی ہو۔عوام کی حالت ان چوپایوں کی طرح کر دی گئی جنہیں وڈیرہ ازم ،چوہدری ازم،سردار ازم ،خان ازم کی لاٹھیوں سے ہانک ہانک کر بیورو کریسی سے لیکر تمام اجتماعی اداروں پر اپنے قبضے کو طویل سے طویل تر کیا گیا۔ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کیوں ہے؟ملک میں بدامنی کیوں ہے؟ملک میں غربت وافلاس کیوں ہے؟ ملک میں بیروز گاری کیوں ہے؟ ملک میں جہالت کیوں ہے؟ملک میں کسی کی جان ومال وعزت محفوظ کیوں نہیں ہے؟ملک پر آئین وقانون کی حکمرانی کیوں نہیں ہے؟نوجوان طبقہ طرح طرح کی اخلاقی گراوٹوں میں مبتلا کیوں ہے؟اہل علم اور باصلاحیت طبقہ کیوں ملک سے فرار کی سوچ رہا ہے؟ملک قرضوں کے بوجھ تلے کیوں دبا ہوا ہے؟ہر دفتر ہر ادارہ رشوت اور سفارش کے بغیر جائز حق دینے کے لئے تیار کیوں نہیں ہے؟بنیادی انسانی حقوق پامال کیوں ہیں؟کیا یہ ملک اسی طرح اس استحصالی طبقہ کے تسلط میں رہے گا؟کیا اسی طرح ہماری نسلیں نان وجویں کو ترستی اور محرومی اور مایوسیوں کے بھنور میں زندگی گزارتی رہیں گی؟اس ملک کے نظام کو کون درست کرے گا؟کیا ان ہی استحصالی طبقات سے امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں کیا ان کے زیر اثر سیاسی طبقات کے جھوٹے وعدوں اور امیدوں پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟اگر
نہیں تو پھر آئیے ایک نئے عزم کے ساتھ شعوری جدوجہد کا آغاز کریں۔اس فرسودہ نظام کی جوہری تبدیلی کے لئے کام کریں ۔کیونکہ فقط اصلاحی دروس سے جزوی اقدامات سے اجتماعی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔باصلاحیت نوجوان اس ملک کا سرمایہ ہیں وہ قوم کو تنہا چھوڑ کر بیرون ملک نہ جائیں بلکہ قومی آزادی اور خوشحالی کے لئے ایک منظم جدوجہد میں جت جائیں ۔دنیا کے انقلابات کا مطالعہ کریں ۔آزاد اور ترقی یافتہ اقوام سے سبق سیکھیں اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق پورے اخلاص اور سچائی کے ساتھ اس ملک کے بنیادی نظام کو استحصالی عناصر سے چھٹکارا دلا کر قوم کی تقدیر کو بدلیں۔ اپنی ذاتی آرزؤں اور خواہشوں کی تکمیل کی بجائے قومی سوچ کو اپنا کر اجتماعی فائدے کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں۔اگر آج ہم نے اپنی قوم اور ملک کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن نہ کیا تو یاد رکھیں۔آنے والی نسلیں ہمیں بھی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر کے یہ سوالات ضرور دھرائیں گی جو آج ہم ان کو وراثت میں دیں گے۔ یقیناً یہ استحصالی نظام کسی گھر کو کسی آنگن کو نہیں بخشے گا اس کی پھیلائی ہوئی فرسودگی اور ظلم پوری قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 137134 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More