اردو کا سب سے مقبول ڈراما انار کلی

ڈراما اردو میں اب بھی صفِ اوّل کی صنف نہیں۔ غزل، ناول اور افسانے سے اِس کا موازنہ کرنے پر ہماری آنکھیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں۔ دنیا کی دوسری ترقی یافتہ زبانوں کے برعکس اردو میں ڈرامے کی طرف توجہ کم رہی۔ لکھنؤ کے شاہی اسٹیج سے لے کر دورِ جدید کے ڈراما نگاروں تک کوئی ایسا دکھائی نہیں دیتا جسے اردو کا عظیم فن کار تصوّر کیا جا سکے۔ تاریخی اعتبار سے مرزا مانت، آغا حشر، امتیاز علی تاج، محمد مجیب، عابد حسین، حبیب تنویر اور محمد حسن جیسے اہم لکھنے والے ڈرامے میں موجود ہیں لیکن اِن میں سے کون غالبؔ ، میرؔ، پریم چند یا قرۃّالعین حیدر ہے؟ شاید کوئی نہیں لیکن ایک سو پچاس برس کی تاریخ میں اگر کسی ایک شہکار کی تلاش مقصود ہو تو بلاشبہ قرعۂ فال امتیاز علی تاج کے ڈرامے ’’انار کلی‘‘ کے حق میں نکلے گا۔ کسی صنف کی تاریخ میں واحد نمائندہ کتاب ہونا اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے۔
محض بائیس (۲۲) برس کی عمر میں امتیاز علی تاج نے ڈرامہ ’’انارکلی‘‘ لکھ دیا تھا۔ تاریخی اعتبار سے اِس کا ثبوت موجود ہے کہ اُس زمانے کے سب سے بڑے ڈراما نگار آغا حشر کا شمیری نے، جنھیں ہندستان کا شیکسپئیر کہا جاتا تھا، انارکلی کے ابواب پڑھ کر مصنف کو داد دی تھی۔ ۱۹۳۰ ؁ء میں رسالے میں اِس کی اشاعت اور ۱۹۳۱ ؁ء میں کتابی شکل میں انارکلی کا منظرِ عام پر آنا اردو ڈرامے کی ایک نئی تاریخ کا نقطۂ آغاز ہے۔ انار کلی نے جس قدر جلدی مقبولیت حاصل کی، شاید کم ہی اردو کتابوں کے مقدر میں ایسی خوش نصیبی آئی ہو۔ ’’انارکلی‘‘ کے بعد تاج نے ریڈیائی ڈراموں کے شامل ڈیڑھ درجن سے زیادہ تخلیقات پیش کیں لیکن اُن کی پہلی تصنیف ’’انارکلی‘‘ کی قبولیت انھیں پھر نصیب نہ ہوئی۔ ۱۹۷۰؁ء تک، انارکلی کی اشاعت کی چار دہائیوں تک وہ زندہ رہے لیکن تصنیفِ اوّل کے مقام تک وہ پھر کبھی نہیں پہنچ سکے۔ آج امتیاز علی تاجؔ کو لوگ اِس لیے جانتے ہیں کہ وہ ’’انار کلی‘‘ کے مصنف ہیں۔
ڈراما انارکلی کی جب تخلیق ہوئی، اُس وقت آغا حشر کا شمیری کی زبان دانی کا لوہا مانا جاتا تھا۔ اِس پر مستزاد یہ کہ سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری اور قاضی عبد الغفار کی رومانی نثر اپنی کرشمہ سازی سے پڑھنے والوں کو مبہوت کر رہی تھی۔ نئے نثر نویس اپنی طبیعت کی اٹھان کی وجہ سے فطری طور پر پریم چند کے مقابلے رومانی افسانہ نگاروں کی طرف جھکاو محسوس کر رہے تھے۔ مجنوں گورکھ پوری، اختر حسین رائے پوری، مرزاادیب اور حجاب اسماعیل سب شاعرانہ زبان اور فکر و خیال کی آسمانی سیر کو محور بنائے ہوئے تھے۔ امتیاز علی تاجؔ کے لیے شاید ہی کوئی دوسرا راستہ ہو۔ ہَوا کا رُخ جس طرف ہو، اُڑ نے میں اُدھر زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ تاجؔنے اسی لیے رومانی نثر کی اساس کو اپنے ڈرامے کے لیے موزوں پایا۔
ڈرامے کے لیے کہانی کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی نسل کی عمومی رومانیت کو تاجؔ نے پھر رہنما بنایا۔ تاجؔ چاہتے تو اُس زمانے میں موجود کسی طبع زاد قصّے کو بھی ڈرامے کے لیے منتخب کرسکتے تھے لیکن تاریخ سے انھوں نے ایک ایسے قصّے کا انتخاب کیا جس میں رومانیت زیادہ اور تاریخیت کم ہے۔ مختصر سے پیش لفظ میں امتیاز علی تاجؔ نے یہ واضح کردیا ہے کہ اِس ڈرامے کا تاریخ سے کچھ خاص تعلق نہیں۔ انارکلی کا قصّہ عوامی روایت کا حصّہ ہے۔ لاہور میں انارکلی کا ایک مقبرہ بھی ہے لیکن تاجؔ نے اُسے بے بنیاد قصّہ ہی مانا ہے۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ تاجؔ نے ایک غلط قصّے کو صرف عوامی روایت کی بنیاد پر کیوں اتنی اہمیت دی؟ شاید تاجؔ کے رومانی مزاج کا ہی یہ کرشمہ ہو جس کے سبب انھوں نے سچّے کرداروں کی ایک جھوٹی کہانی کو مرکزی اہمیت بخشی۔ واقعہ بے بنیاد سہی لیکن اِس کے بیشتر کردار تاریخی ہیں۔ امتیاز علی تاجؔ یہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ اُن کی جھوٹی کہانی کو بھی حقیقت کی پر چھائیں میں پڑھا جائے۔ یہ عجیب طرح کا ’’جھوٹ سچ‘‘ ہے۔ انارکلی کی شہرت، مقبولیت اور ادبی اہمیت میں اِس حکمت عملی کا بڑا دخل ہے۔ افسانہ، ناول یا ڈرامے کا ایک کردار اگر ہماری دنیا کے زندہ یا مردہ کرداروں کی طرح سامنے آجائے تو اُس تحریر کی قبولیت میں خاصا اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہاں تمام اہم کردار تاریخی حافظے میں موجود ہیں۔ اُن سے متعلق دوسرے کردار اپنے آپ پہچانے جانے لگتے ہیں، اِس لیے بھی یہ ڈراما مقبولیت کے معاملے میں نقطۂ عروج تک پہنچا۔
امتیاز علی تاجؔکا یہ ڈراما ایک المیہ ہے۔ یونان اور برطانیہ کے ماحول میں المیوں کے لکھنے کا خاص رواج تھا۔ تاجؔ کامطالعہ کم نہیں تھا، اِس لیے یہ اُمید کی جاتی ہے کہ وہ المیوں کی روایت سے واقف ہوں گے۔ اکثر المیے رومان اور تاریخ کی دیواروں سے چیر کر ایک نئی راہ نکالنے کی مہم رہے ہیں۔ تاجؔ نے انارکلی میں اِسی تجربے کو دہرایا ہے۔ رومانیت اور المیہ نگاری دونوں کے فرائض وہ کامیابی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ ڈرامے کے پیش لفظ میں وہ اشارہ کرتے ہیں : ’’اب تک جن لوگوں نے اِسے سُنا، اُن کا اِس امر پر اختلاف ہے کہ یہ ٹریجڈی سلیم اور انارکلی کی ہے یا اکبرِاعظم کی لیکن انارکلی میں اتنی دل آویزی ہے کہ نام تجویز کرتے وقت کسی دوسرے امر کو ملحوظ رکھنا میرے لیے ناممکن تھا۔‘‘ رومانیت کی یہ اک علاحدہ سطح ہے اور المیاتی ماحول میں بھی امتیاز علی تاجؔ حق دار کو حق دینے سے گریز نہیں کرتے۔
انارکلی کا قصّہ مختصر ہے۔ مغل حرم سرا سے اِس کا تعلق ہے۔ اکبری دربار کی ایک کنیز انارکلی پر شہزادہ سلیم فریفتہ ہو جاتا ہے لیکن شہنشاہ اکبر کسی بھی حال میں اپنے لخت جگر کی ایک کنیز سے محبت اور شادی کو قبول نہیں کر سکتا۔ بالآخر اکبر کے عتاب کا دونوں محبت کرنے والے شکار ہوتے ہیں۔ انارکلی جسم و جان کی قید سے آزاد کر دی جاتی ہے اور شہزادہ سلیم سلاخوں کے پیچھے جینے کو مجبور کردیا جاتا ہے۔ اِسی بنیادی قصّے میں چند ذیلی قصّے اور آس پاس کے کرداروں کو شامل کرکے رنگ بھرا گیا ہے۔ مغلیہ تہذیب و ثقافت، اکبر اعظم کے جلال اور داستانِ محبت میں جانوں کے کھپ جانے کے باوجود وفورِ شوق میں کمی نہیں آنا ایسے اہم اجزا ہیں جن سے تاجؔ کو قصّے میں ڈرامائیت بھرنے میں مدد ملی ہے۔ بعض کردار اِس مقصد سے ڈرامے میں شامل کیے گئے ہیں جنھیں ڈرامے کی الجھی ہوئی ڈور کو کبھی اور اُلجھا دینا ہے اور کبھی وقت کے گھومتے چکّے کو پیچھے کی طرف موڑ دینا ہے۔
انارکلی تین ابواب پر مشتمل ہے۔ ’’عشق‘‘، ’’رقص‘‘ اور’’ مَوت‘‘ اُن کے عنوانات تجویز کیے گئے ہیں۔ تینوں اجزا اپنے سرنامے سے ہی رومانیت اور المناکی دونوں کا منبع دکھائی دیتے ہیں۔ قصّے کو منظر بہ منظر ترتیب دیا گیا ہے جس سے تدریجی ارتقا کا پتا چل سکے۔ پہلا مکالمہ اُس دل جلی کنیز سے ادا کرایا جارہا ہے جو کبھی شہنشاہِ اکبر کی منظورِ نظر تھی لیکن پہلے سین میں ہی اُس کے سرسے یہ دستارِ فضیلت سرک کر انار کلی کے حصّے میں چلی جاتی ہے۔ آخری باب المیے کا نقطۂ عروج ہے جہاں انارکلی کو زندہ دیواروں میں چنوانے، شہزادہ سلیم کے سزایاب ہونے اور شہنشاہِ اکبر کے اندر اور باہر کی ٹوٹ پھوٹ کے واقعات موجود ہیں۔ کردار کی سطح پر انارکلی، سلیم اور اکبر کے علاوہ دلآرام کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا اور ڈرامے کی آویزشوں یا المیے کو قطّعی بنانے میں اُس کی کا وشوں کا اچھا خاصا دخل ہے۔
کوئی قصّہ کامیاب ڈرامے میں اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتا جب تک اُس میں کشمکش اور تصادم اپنے نقطۂ عروج پر نہ پہنچ جائیں۔ کرداروں کے ایک دوسرے سے ٹکرانے اور قصّے کی موج میں طوفان برپا ہونے کو ڈراما نگار کا ہنر ماناجاتا ہے۔ کشمکش اور تصادم کے بغیر شاعری، افسانہ اور ناول کی تخلیق ممکن ہے لیکن ڈراما اِن کے بغیر اپنے پاؤں پر کبھی کھڑا ہی نہیں ہو سکتا۔ اِس نقطۂ نظر سے انارکلی کا مقابلہ اردو کا اک بھی ڈراما نہیں کرسکتا۔ قصّے کی ابتدا میں ہی انارکلی کی جو اُٹھان ہے، اُس سے خدشات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ یہ شور آخر کس طوفان کی شکل میں سامنے آئے گا؟ پہلے اکبرِ اعظم اور پھر شہزادہ سلیم کی نظرِ التفات سے انارکلی کی زندگی کے بدلنے کے جو امکانات ہیں، وہ خطروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ شہزادہ سلیم کی وارفتگی اور اتاؤلا پن الگ سے مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اُدھر ہندستان کی سلطنتِ مغلیہ اُس بادشاہ کے ہاتھوں میں ہے جس کی جہاں داری عالم میں مثال ہے۔
امتیاز علی تاجؔ نے اِس ڈرامے میں کرداروں کے آپس میں ٹکرانے کے جتنے مواقع تھے، اُن کا فنّی ہنرمندی کے ساتھ استعمال کرلیا ہے۔ عام طور پر ڈراموں میں بنیادی تصادم کو اہمیت دی جاتی ہے اور اِسی مرکز کے اردگرد ڈراما نگار کشمکش کی بُناوٹ کرتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ ڈراما دیکھنے یا پڑھنے والے کاذہنی ارتکاز قائم رہے۔ اکثر ڈرامے اپنے تصادم کی مرکزیت کی و جہ سے کامیاب تسلیم کیے گیے۔ اِس اعتبار سے انار کلی ایک الگ طرح کی تجربہ گاہ ہے۔ تصادم کو یہا ں مرکزیت کیوں دی جاتی جب سب کردار ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوں؟ ایک کا اچھا دوسرے کا بُرا ہوجاتا ہے۔ کہنا چاہیے کہ انارکلی میں تصادمات کی ایک بھیڑ چال ہے لیکن امتیاز علی تاجؔ کی ہنرمندی بھی اپنے عروج پر ہے جس کی وجہ سے وہ ہر طرح کے تصادم کو اپنے مرکزی قصّے سے جوڑ لیتے ہیں اور المیے کی طرف ڈراما ایک ایک قدم بڑھتا جاتا ہے۔
اس ڈرامے میں تین بنیادی تصادمات مانے جاسکتے ہیں۔ یہ تین مثلث بھی ہیں۔ پہلا مثلث انارکلی سلیم اور اکبر کا ہے، دوسرا انارکلی، دلآرام اور سلیم کا ہے اور تیسرا مثلث دلآرام، انارکلی اور اکبر کا ہے۔ دوکرداروں کے ٹکرانے پر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ انارکلی میں بہت کم ایسے کردار ہیں جو ایک دوسرے سے لڑ نہیں رہے ہوں۔ مثال کے طور پر یہ فہرست بنائی جاسکتی ہے۔ اکبر۔سلیم، اکبر۔رانی، اکبر۔انارکلی، انارکلی۔ دلآرام، ثریا۔دلآرام، ثریا۔اکبر، انارکلی کی ماں۔ اکبر وغیرہ۔ اِس کے علاوہ انارکلی میں بعض ایسے بھی کردار ہیں جو اپنے آپ میں ٹکراتے رہتے ہیں۔ اُن کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے۔ اکبر، سلیم، انارکلی، رانی، دلآرام، یہاں تک کہ ثریا اور انارکلی کی ماں سب کے سب اپنے آپ میں بھی ٹوٹ رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر کئی شخصیات مجتمع ہوگئی ہیں اور اُن میں ایک لڑائی مچی ہوئی ہے۔ ڈراما رفتہ رفتہ جس جگہ پہنچنے والا ہے، ہر انفرادی کردار اپنے نجی تصادم میں اور بھی گرفتار ہونے لگتا ہے کیوں کہ وہ انجام کا اندازہ کر چکا ہے۔
انارکلی میں اتنے تصادمات سلیقہ مندی کے ساتھ اِس وجہ سے موجود رہ سکے ہیں کیوں کہ یہ تمام کردار اپنے اندر اور باہر دونوں جگہ لڑتے نظر آتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سبھی کو معلوم ہے، نتیجہ کیا نکلے گا۔اب جب انجام پر آپ کی نظر ہو، معلوم ہوجائے کہ موت یا شکست کے علاوہ کوئی مداوا نہیں، ایسے عالم میں کارکردگی میں سا لمیت اور مزاج میں توازن کے ساتھ ٹھہراو کے عناصر آجائیں گے۔ انارکلی میں جو کردار جس مشن پر ہے، اُسی پر کاربند رہتا ہے۔ کام کا ایجنڈانہیں بدلتا۔ اکبر نے طے کر رکھا ہے کہ یہ شادی نہیں ہوگی، یہی ہوتا ہے۔ سلیم نے محبت سے پیچھے نہیں ہٹنے کا فیصلہ کیا، وہ اُسی پر قائم رہتا ہے۔ انارکلی سلیم کو پانا چاہتی ہے، وہ اپنی موت تک اِسی راستے میں سرگرمِ سفر رہتی ہے۔ دلآرام نے طَے کررکھا ہے کہ جس سلیم کو وہ اپنا نہیں بنا سکی، اُسے کسی دوسرے کے مقدر کا حصّہ بھی نہیں بننے دے گی، ڈرامے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یعنی انجام سے بے خبر اور اپنی پسند کے اختتام اور نتیجہ سے باخبر کردار چراغ کی آخری لَو کی طرح حوصلے اور تنومندی کے ساتھ جھلملاتے رہتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے، اِس رات کی صبح نہیں ہوگی، سب کے سب ہار جائیں گے۔
انارکلی میں تاجؔ نے اتنی طرح کے تصادمات اس لیے کامیابی کے ساتھ آزما لیے کیوں کہ اُن کے پاس ایک سحر طراز زبان تھی۔ اُن کے مکالمے اِسی زبان کی بدولت پائیہ استحکام تک پہنچتے ہیں۔ محمود الٰہی نے بجا طور پر اِن مکالموں سے چنگاریاں پھوٹنے کی بات کہی ہے۔ اگر امتیاز علی تاجؔکے پاس وہ مرصع زبان نہیں ہوتی تو شاید ہی وہ اس ڈرامے کو ٹکراو، آگ اور شعلوں سے بھر سکتے تھے۔ شہزادہ سلیم اور اکبر کے مکالمے، خاص طور سے جب دونوں ایک دوسرے کے سامنے ہوں، سچ مچ آگ کے گولے کی طرح ہیں۔ اکبر سے انارکلی کی ماں جس گرم گفتاری کے ساتھ مقابلہ آرا ہوتی ہے، وہ مکالمہ نویسی کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔
انارکلی کوئی رزمیہ ڈراما نہیں۔ اِس لیے جنگ یا ٹکراو کے مناظر اِس میں بنیادی حیثیت حاصل نہیں کر سکتے۔ انارکلی محبت کی کہانی ہے جس کا انجام المناک ہے۔ عاشق اور معشوق دونوں ہمیشہ کے لیے الگ ہوجاتے ہیں، ایک جیل میں بند ہے اور دوسرا موت تک پہنچ گیا۔ امتیاز علی تاجؔ کی مکالمہ نویسی جہاں بادشاہ اور شہزادے کے ٹکراو میں آگ اگلتی ہے، وہیں انارکلی اور سلیم کے درمیان گفتگو میں محبت کی فصلیں شاداب کرتی ہے۔ ثریا اور انارکلی کے مابَین جو مکالمے ادا ہوتے ہیں، اُن کا بھی ایک فطری رجحان ہے۔ اکثر موضوع گفتگو سلیم کی محبت اور دلآرام کی چیقلش ہوتی ہے۔ انارکلی کی ماں اور ماں کی اپنی صاحب زادیوں سے جو گفتگو ہوتی ہے، اُس میں تجربے کی بھٹّی سے بر آمد خدشات زیادہ ہیں۔
انارکلی کے مکالموں میں اگر شہنشاہ اکبر کے اعلانیے اہمیت رکھتے ہیں، و کنیزوں کی آپسی گفتگو بھی کم اہم نہیں۔ اُن کے اندیشے، پیشین گوئیاں، حسد، سابق کی منظور نظر کا موجودہ سے جلن اور قلعۂ معلّٰی کے انداز و اطوار کی پاسداری ایسے اہم اجزا ہیں جنھیں اِس ڈرامے میں دورانِ مکالمہ اجاگر کیا گیا ہے۔ یہاں اکبر کے مکالموں جیسا طمطراق نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اِن کنیزوں کا ایک جملہ حکومت کے انتطام کو زیر وزبر کرسکے، یہ صرف اکبر کے مکالمے سے ممکن ہے۔ تو کیا یہ کنیزیں اِس قدر غیر اہم ہیں کہ اُن کا کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا ؟ امتیاز علی تاجؔ اس خطرے کو سمجھ رہے تھے۔ ایک بہترین ڈرامہ نگار کی طرح ان کنیزوں کی جمیعت سے امتیاز علی تاج نے انسانی زندگی کا وہ حصّہ نکال کر رکھ دیا ہے جسے فطرتِ انسانی سے واقعتََا وابستگی ہے۔
اکبر بادشاہ تو ہر وقت ہے لیکن اُس کے دوسرے حصّے یا انسانی فرائض گُم ہوجاتے ہیں۔ رانی ماں تو دکھائی دیتی ہے لیکن اکبرِاعظم کی ملکہ معلوم نہیں ہوتی۔ سلیم عاشق ضرور ہے لیکن وارثِ سلطنت کی جہاں داری اور شجاعت سے محروم۔ کہنا چاہیے سب آدھے ادھورے دکھائی دیتے ہیں اور اُن کی زندگی سے انسانی حصّے ہی چھین لیے گئے ہیں لیکن ’’انارکلی‘‘ کی کنیزیں زندگی بہ داماں ہیں۔ انارکلی میں عشق میں مرنے کا حوصلہ ہے تو دلآرام حسد کی آگ میں اِس طرح جل رہی ہے کہ سب کچھ داؤں پر لگ جاتا ہے۔ زعفران، مروارید، عنبر اور ستارہ ڈرامے کے الگ الگ حصّے میں عام انسانی فطرت کے بہترین نمائندہ بن کر سامنے آتے ہیں۔ کبھی حرص اور شہوت کا دَور دَورہ ہے تو کبھی قربانی کا منظر۔ یہ کنیزیں اپنے کرداروں میں ایسی پختہ ہیں کہ جب ثریّا اور اُس کی ماں سلیم، رانی اور شہنشاہ اکبر سے محوِگفتگو ہوتی ہیں تو اُن میں پوری شہنشاہیت سے ٹکرانے کا حوصلہ پیدا ہو چکا ہے۔ بعض ناقدین نے امتیاز علی تاجؔ کے اِس ہنر کی بہت تعریف کی ہے۔ اصل میں نسوانی جذبات کی ترجمانی میں طرح طرح کے رنگ بھرنے کی گنجائش تھی۔ تاجؔ نے اکبر اور سلیم سے الگ اِن کنیزوں کو ایک ایسا محور بنایا جس پر شاید ہی کسی دوسرے اہلِ قلم کا دھیان جاتا۔ رفتہ رفتہ یہی عورتیں اِس قصّے کو بالآخر المیے میں بدل دینے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔
انارکلی کے مکالموں میں اکبر کی خود کلامی (Monologue) کم اہمیت کی حامل نہیں۔ اکبر کو دوسروں سے گفتگو کے دوران اکثر فیصلہ سنانا ہوتا ہے لیکن خود کلامی کے مراحل میں شہنشاہ اکبر کم اور ایک عام انسانی شخصیت زیادہ نظرآتا ہے۔ یہی خودکلامی اکبر کے کردار کو انسانی چہرہ عطا کرتی ہے جہاں وہ لحظہ بہ لحظہ ٹوٹ رہا ہے۔ شہنشاہ کے اندر کوئی ہے جو ایک مورچے پر ہار رہا ہے۔ امتیاز علی تاجؔ نے اکبر کی شخصیت میں اس تذبذب کو اُس کی خود کلامی میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اِس کی زبان شہنشاہ کی زبان نہیں، مفّرس اور معّرب فقرے نہیں، رعب اور گرمی بھی نہیں۔ یہ خودکلامی ایک شہنشاہ کے پگھلنے کی کہانی ہے۔ ڈراما نگار نے اکبر کو دو شخصیتوں میں بہت سلیقے سے بانٹ کر تماش بینوں کو اکبر کے اندر مچی ٹوٹ پھوٹ کو بھی آئینہ کر دیا ہے۔
انارکلی کا موضوع مغل دربار اور اُس سے متعلق معاملات قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اِس لیے ڈراما نگاری کے ساتھ ساتھ تاریخ اور تہذیب کے مضمرات بھی چلتے رہتے ہیں۔ ایک غیر اصل کہانی کو اصل کرداروں کے ساتھ پیش کرتے ہوئے تاجؔ کو تاریخ کی سچی کڑیوں سے بھی سابقہ پڑا ہے۔ اِس ڈرامے کا ایک بڑا حسن مغلیہ تہذیب و ثقافت اور رسم جہاں داری کے بیان میں ظاہر ہوتا ہے۔ ڈرامے میں مکالمے سے الگ ماحول سازی اور منظر بیان کرنے کاموقع اِس پہلو سے اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ انارکلی میں مغل دربار اور حرم سرا دونوں کے انداز و اسالیب اکثر باریک بینی سے دکھائے گئے ہیں۔
کرداروں کے لیے حدِّ ادب کیا ہے، اِس پر امتیاز علی تاجؔ کی نگاہ رہتی ہے۔ حالاں کہ اِس ڈرامے میں اکثر ایسے کردار ہیں جو اپنے آپے میں نہیں رہتے اور بار بار اپنے دائرے سے باہر چھلانگ لگاتے رہتے ہیں۔ انارکلی، دلآرام، سلیم، رانی اور آخر آخر انار کلی کی ماں اور بہن دربارِ اکبری میں حدِّ ادب سے گزر جاتے ہیں۔ کہنے کو یہ مغلیہ تہذیب کے دائرے سے باہر نکلنا بھی ہے۔ بعض ناقدین امتیاز علی تاجؔ کے اِس رویّے سے معترضانہ رائے ظاہر کرتے ہیں لیکن تہذیب و معاشرت کے تئیں یہ دقیانوسی رویّہ ہے۔ امتیاز علی تاجؔ جب یہ ڈراما لکھ رہے ہیں، اُس وقت نہ صرف شہنشاہیت کا حتمی زوال ہو چکا ہے بلکہ جاگیردارانہ نظام بھی اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔برطانوی استمراریت کے خلاف فیصلہ کُن جنگ شروع ہو چکی ہے اور جمہوریت کی آمد آمد ہے۔ ایسے میں تاریخی قصّے کے کرداروں کی بدلی ہوئی شکل کا سامنے آنا حیرت کی بات نہیں۔ کمزور لوگوں کی شہہ زوری اب سب کے سامنے ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ثریّا اور اُس کی ماں مل کر مغل اعظم اور ہندستان کی ملکہ سے جرح کرکے انھیں زیر نہیں کرسکتی تھیں۔
ڈراما انارکلی میں مغل دربار، محل سرا اور اجلاسِ عام کے ظاہری نقشے اِس مہارت کے ساتھ کاغذ پر پیش کیے گیے ہیں جیسے پڑھنے والے کے سامنے وہ ہوبہ ہو منعکس ہوجاتے ہیں۔ خاص طور سے آرائش اور زیبائش کے سازوسامان کی تفصیل میں تاجؔ نے اپنی تاریخی، تہذیبی اور ادبی معلومات کا خزینہ ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ چار سو برس پہلے کی معاشرت اور مغلیہ سلطنت کے عروج کے زمانے کی مرعوب کُن تصویروں کو ٹھیک اُسی طرح سامنے لایا گیا ہے۔ چونکہ ذکر اکبری دربار کا ہے جہاں نسلِ تیمور کے ساتھ ساتھ ہندی نثراد ملکہ بھی موجود ہے۔ اِس لیے محل اور حرم سرا میں عرب وایران کے ساتھ ساتھ مقامی رنگ و نور بھی موجود ہیں ۔ کہنا چاہیے کہ اِس ڈرامے میں بلند وپست کی محبت کے علاوہ دو تہذیبوں کی یگانگت اور ہمہ گیری بھی ظاہر ہوتی ہے۔ آخر ایک کنیز اپنے حسن کی جلوہ سامانیوں اور ذہانت کے بل بُوتے پر اکبر کی عطا سے ’’انار کلی‘‘ ہی کیوں بنتی ہے؟ اکبر کے نورتن اور اُن کے زمانے میں فارسیت کا اتنا بول بالا ضرور تھا کہ ’انار‘ کے ساتھ ’کلی‘ جوڑ کر کوئی ترکیب نہیں بنائی جا سکتی تھی یعنی انارکلی نام میں ہند۔ایرانی ثقافت کا اِتّصال ہوگیا ہے۔ شہنشاہِ اکبر کا دَور اور خود اُس کی شخصیت ہندستان کی تاریخ میں اس مشترکہ کلچر کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اسی لیے اکبر نے حُسن، محبت، وارفتگی سے بھرپور دو شیزہ ’’انارکلی‘‘ کا خطاب عطا کیا۔
اردو ڈرامے کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ فیصلہ کرنا کہ انارکلی کا مرکزی کردار کون ہے اور اِس ڈرامے میں آخر المیہ کس کا ہے، بہت مشکل ہے۔ ایک سہولت ہمیں یہ ہے کہ چند کرداروں کی نقل و حرکت پر مرتکز ہوجانے سے انتخاب کا مرحلہ آسان ہوجائے گا۔ انارکلی، شہزادہ سلیم اور شہنشاہ اکبر، کسی گوشے سے دلآرام بھی ہمارے سامنے چلی آتی ہے۔ اگر اِن چاروں کرداروں کاموازنہ کرلیا جائے تو شاید یہ فیصلہ آسان ہوجائے گا کہ کس شخصِ واحد نے اِس ڈرامے کو آخر کار المیہ بنایا۔ کون ہے جو تمام کرداروں کی قسمت اپنی مُٹّھی میں سمیٹ کر بیٹھ گیا ہے۔ اگر ایسے شخص کی تلاش میں ہمیں کامیابی ملتی ہے تو واقعتََا وہی اِس ڈراے کا مرکزی کردار ہوگا۔
ڈرامے کا ہیرو شہزادہ سلیم ہے۔ وہ صرف ایک شہزادہ نہیں، دو تہذیبوں کے ملنے کا نتیجہ بھی ہے۔ وہ صرف بہادر اور فوجی سازو سامان کے استعمال کا ماہر نہیں، وہ عام انسانی جذبات اور رسم عاشقی کا بھی رمز شناس ہے۔ وہ شکل و شباہت میں بھی ایک علاحدہ مثال ہے۔ اس کی شخصیت اور شہزادگی دونوں میں اتنی کشش ہے کہ حسینائیں اُس کے وجود کی قَسمیں کھاتی رہتی ہیں۔محاورتََا کہنا چاہیے کہ اُس کے ہزاروں چاہنے والیاں ہیں لیکن ایک مرحلے میں وہ انارکلی پر ایسا عاشق ہوا کہ پھر سلطنتِ مغلیہ اِس مسئلے سے آزاد نہیں ہوسکی۔ سلیم کی شخصیت میں پختہ کامی کا بیج شاید ابھی نہیں پڑا، اِسی وجہ سے جس پر ہزاروں نثار ہوں، وہ نہ جانے کس کمزور مرحلے میں خود کسی ایک کو دل دے بیٹھتا ہے۔ اُس کی عمر میں اُس کا باپ ہندستان کی زمامِ حکومت اپنے ہاتھوں میں لے چکا تھا اور مقبولیت اُس کے قدموں پر نثار ہو رہی تھی۔ سلیم جانتا ہے کہ انارکلی کو ملکہ بنانے میں سب سے بڑی دیوار خود اُس کے والد بنیں گے لیکن وہ اِس کا کوئی علاج نہیں ڈھونڈ پاتا۔ شہزادگی کی کوئی خوبی اور شجاعت کا کوئی حوصلہ سلیم میں نہیں۔ جیسے جیسے ڈراما انجام کی طرف بڑھتا ہے، سلیم بے چارگی کا شکار ہوتا جاتا ہے۔آخر میں تو وہ ایک معمولی قیدی کی شکل میں ہماری نگاہ سے اوجھل ہوتا ہے۔ حالاں کہ وہ چاہتا تو مغلِ اعظم سے ٹکرا سکتا تھا۔ اِس وجہ سے ڈرامے کا ہیرو ہونے کے باوجود سلیم کو مرکزی کردار قرار دینا صحیح نہیں ہو سکتا۔
ڈرامے کی ہیروئن انار کلی ہے۔ امتیاز علی تاجؔ نے پورے ڈرامے کانام بھی اُسی کی جاذبیت سے طے کیا۔ انارکلی ایک کنیز تو ہے لیکن پہلی نظر میں ہی شہنشاہ اکبر کی پسند بن جاتی ہے اور دربار میں نادرہ کے بجائے ’’انار کلی‘‘ کے سحرطراز خطاب کی مالک بن جاتی ہے۔ اِسی دوران شہزادہ سلیم بھی اس پرفریفتہ ہوتا ہے۔ سلیم اور انارکلی دونوں نوجوان ہیں، اِس لیے یہ محبت بہت دور تک، لیلا مجنوں، شیریں فرہاد کی کہانیوں تک پہنچنا چاہتی ہے لیکن انجام کار یہی رہتا ہے کہ وہ زندہ دیواروں میں چنوا دی جاتی ہے اور اُس کا عاشق قید کے عذاب میں بقیہ زندگی گزار تاہے۔ انارکلی واقعتََا جادو کی طرح اِس ڈرامے میں موجود رہتی ہے۔ اُس کی موت کے بعد بھی اُسی کی شخصیت کی پرچھائیں میں یہ ڈراما انجام تک پہنچتا ہے۔ وہ ہے تو ایک کنیز، ایک معمولی لڑکی لیکن اُس کی شخصیت میں وہ طاقت ہے جس سے دربارِ اکبری کے ایک معمولی ملازم سے لے کر شہنشاہ اکبر سب متعلق ہو گئے ہیں۔ رانی بھی شہنشاہ کے خلاف آواز اٹھانے لگتی ہے۔ انارکلی کی شخصیت کا ہی وقار ہے کہ اُس کے انجام کے بعد اُس کی ماں اور بہن طاقت ور کردار کے طَور پر ابھر آتے ہیں لیکن اپنی جان دینے کے علاوہ انارکلی کے پاس سارے مسئلے کا کوئی علاج نہیں۔ عشق و عاشقی کے مرحلے میں بھی اپنی کم عمر بہن کے مشورے سے وہ زیادہ چلتی ہے۔ دلآرام جتنی سازشیں کرتی ہے، اُس میں انارکلی کو تھوڑی بہت شکست ضرور ہوتی ہے اور آخر آخر انار کلی پر دلآرام فتح یاب ہوجاتی ہے۔ اِس وجہ سے انارکلی اِس ڈراے کامرکزی کردار نہیں ہوسکتی۔ انارکلی کی موت کے بعد ڈرامے کا ایک لمحے کے لیے آگے بڑھنا یہ بتاتا ہے کہ ڈراما نگار بھی انارکلی کو مرکزی کردار تصوّر نہیں کرتا۔
دلآرام نسوانی کرداروں میں اپنے رنگ کی الگ شخصیت ہے۔ درباروں میں ایسی کنیزیں اکثر مل جاتی ہیں۔ اُس کی نظر مغلیہ حکومت میں اپنے آئندہ مقام پر ٹکی ہوئی ہے۔ اِس لیے شہزادہ سلیم کو گرفتارِ محبت رکھنے کی اُس کی کوششیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ انارکلی سے پہلے دربار میں اپنی دلربائی، نازو ادا سے مرکزیت کی مالکہ وہی تھی لیکن انارکلی کی وہ مخالف ہے ۔ ہر اُس آدمی سے وہ انتقام لینا چاہتی ہے جس کی محبت بھری نظر انارکلی پر پڑتی ہے۔ وہ دربار میں درونِ خانہ تمام طرح کی سازشوں کا واحد محرّک ہے اور بالآخر اُسی کی سازش کا شکارہوکر یہ ڈراما وقت سے پہلے المیہ بن جاتا ہے۔ لیکن خود دلآرام ہے کیا؟ دوسروں کو زیر کر دینا ہے یا سازش میں پھنسا کر ختم کردینا اگر اُس کی خوبی ہے تو اِس سے اُسے ملتا کیا ہے؟ کہنا چاہیے کہ دلآرام ایک ایسا منفی کردار ہے جس کا اثر تو بہت ہے لیکن اپنی حیثیت کچھ بھی نہیں۔ ایسے لوگ ڈرامے کامرکزی کردار کبھی نہیں ہوسکتے۔
اردو کے اکثر ناقدین اس بات سے متفق ہیں کہ یہ اکبر کا المیہ ہے۔ احتشام حسین، محمد حسن، محمود الٰہی اور مسیح الزماں جیسے ناقدین نے مانا ہے کہ ڈراما انارکلی کا مرکزی کردار اکبر ہے اور یہ ڈراما واقعتا اُسی کا المیہ ہے۔ اکبر اس ڈرامے میں انارکلی یا شہزادہ سلیم کے مقابلے جسمانی طور پر کم موجود ہے لیکن پہلے سین سے لے کر آخری سین تک کون سا ایسا منظر ہے جس میں اُس کی پرچھائیں موجود نہیں؟ سلیم اور انارکلی محومحبت ہیں، وہاں بھی اکبر کے متوقع ردِّعمل کے خوف کا سایہ قائم رہتا ہے۔ دلآرام کی جتنی سازشیں ہیں، اُن میں ہمیشہ اکبر بالآخر ایک کردار بن جاتا ہے۔ ہیرو اور ہیروئن دونوں کے خواب اورمقدر کو تہہ و بالا کرنے کی استعداد صرف اکبر میں ہے اور وہ اِسے کردکھاتا ہے۔ اپنی ملکہ کی گزارشات کو جس طرح سے وہ جھڑک دیتا ہے، اس سے اُس کی قوتِ ارادی کا پتا چلتا ہے۔ بادشاہ اور باپ کے فرائض میں اُسے جب ایک شئے کا انتخاب کرنا پڑا تو اُس نے سلیم کے خلاف فیصلہ دے کر اپنے منصب کے وقار کو قائم رکھا۔ وہ مغل اعظم ہے تو انارکلی کے خطاب سے لے کر اُس کی موت، شہزادے کی گرفتاری اور نظام کے درہم برہم ہونے کی توقعات کے خلاف فوجی تیاری ہر جگہ اُسی کی مرکزیت رہتی ہے۔ فیصلے کے بعد اپنے اندر جو ٹوٹ پھوٹ دیکھتا ہے وہاں بھی اِس کارکردگی میں وہ تنہا ہے اور انسانی ترحّم میں وہ سب پر فوقیت لے جاتا ہے۔ غرض کون سا پہلو ہے جس میں وہ اِس ڈراے کا مرکزی کردار نہیں؟
یہ ڈراما اِسی مرکزی کردار یعنی شہنشاہ اکبر کا المیہ بھی ہے۔ انارکلی کنیز سے ملکہ بن سکتی تھی، اُس نے زندگی کی لذّت حاصل کی، موت کے بعد بھی لوگوں کی ہمدردی اُس کے ساتھ رہی۔ شہزادہ سلیم کے تئیں بھی ہمدردی ڈر امے کے ناظرین کے دل میں ہے۔ دلآرام بھی ملکہ ہونے یا شہوانیت کے خواب سجائے رکھتی ہے لیکن اِس ڈرامے میں ایک اکبر ہی ہے جس کے پاس بظاہر سب کچھ ہے لیکن اصل میں وہ سب سے خالی ہاتھ ہے۔ اُس نے انارکلی پر محبت بھری نظر ڈالی لیکن اِس دوشیزہ کو تو اُسی کا بیٹا اپنی محبت میں لے لیتا ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کو اپنے سے بڑا حکومت کا کار پرداز بنانے کا سوچا ہے لیکن نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومت چلانے کی عمر میں بیٹا ایک کنیز کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے اور دیوانگی اِس قدر ہے کہ ایوانِ حکومت کے قاعدے قوانین کی بھی اسے پروا نہیں۔ اپنے باپ اور شہنشاہِ مغلیہ کی ناراضگی بھی اُسے اِس محبت سے الگ نہیں کرسکتی۔
اکبر ایک بدنصیب باپ ہے ۔بیٹے کی طرف داری میں جب اکبر کی بیوی سامنے آتی ہے تو بادشاہ بیوی کے خلاف کھڑا ہوجاتا ہے۔ محبت لٹانے والی بیوی کی ایک معمولی عرض داشت پر وہ صاد نہیں کر سکتا اور وہ بھی کس کے دفاع میں، اپنے صاحب زادے کے دفاع میں۔ کہنا چاہیے کہ بدنصیبی کی زنجیروں میں وہ ہر طرف سے قید ہے۔ ’ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر۔‘ اکبر غالبؔ سے بھی زیادہ بے چین ہے۔ اُسے دونوں طرف سے ایمان کے فرائض کے دو سلسلے پکارتے ہیں۔ اُسے معلوم ہے کہ وہ جس طرف جائے گا، دوسری جانب سے اُس کی شخصیت چھلنی ہو جائے گی۔ وہ خود کو ایک ایسے موڑ پر کھڑا پاتا ہے جہاں شکست کے گھٹا ٹوپ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ڈرامے میں انارکلی مرکر بھی ایک زندہ کردار ہوجاتی ہے۔ سلیم زنجیروں میں جکڑے ہونے کے باوجود ہزاروں کی ہمدردیاں اپنے پاس رکھتا ہے لیکن ایک اکبر ہے جس کے اشارے پر سب کچھ ہورہا ہے، دوسروں کی زندگی میں ہارجیت کا فیصلہ وہی کر رہا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ وہ روز اپنے ہر قدم سے اپنی شکست کی ایک تاریخ لکھتا ہے۔ ڈراما انار کلی ایک کامیاب المیہ اِس لیے بنا کیوں کہ اِس کا سب سے بڑاکردار جیتے جی موت اور شکست دونوں کے د ائمی عذاب میں مبتلا ہے اور اِس سے وہ کبھی باہر نہیں آسکتا۔
Safdar Imam Qadri
About the Author: Safdar Imam Qadri Read More Articles by Safdar Imam Qadri: 50 Articles with 139615 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.