عجیب و غریب قصہ ٢

قارئین کرام جس سے ہمیں پل پل لڑنا ہے اس کے بارے میں جاننا اور پوری معلومات حاصل کرنا ضروری ہی نہیں لازم ہوجاتی ہے میری کوشش بھی یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان کر یہ لڑائی جیت جائیں

گزشتہ سے پیوستہ
ابھی میں انھیں خیالات میں محو تھا اور زبان ذکر سے تر تھی کہ کیا دیکھتا ہوں وہی شخص میرے پہلو میں برا جمان ہے کہنے لگا اب شاید تمہیں یقین آگیا ہو کہ میں دنیائے جن کا اک باشندہ ہو اور اس عمارت اور اس مذہب کے بارے میں جاننے کی میری خواہش دراصل تلاش حق کا ایک حصہ ہے بچپن سے میں نے جنوں کے بارے میں بہت سنا تھا محلے پڑوس میں کسی شخص کے اوپر جن کا آنا اور شریر جنوں کے شر سے نجات دلانے والے مخصوص وضع وقطع کے لوگوں سے بھی واقف تھا لیکن میں ان واقعات کو صرف قصہ کہانی ہی سمجھتا تھا اور میری نظر میں جنوں کے قصے بھوت پریت سے اور کوہ قاف کی پریوں سے زیادہ کچھ حقیقت نہ رکھتے تھے گو کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے قلبی طور پر یہ تسلیم کرتا تھا کہ جنوں کا وجود برحق ہے اس کا تذکرہ واضح الفاظ میں قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وصلم کی احادیث میں موجود ہے لیکن اس کے باوجود عقلی طور پر میں نےاس مسئلہ پر سنجیدگی سےکبھی غور نہیں کیا حالانکہ علوم اسلام کے دوران بار بار شیاطین اور جن کے تذکروں سے سابقہ پڑتا رہا لیکن نجانے کیوں میں ان امور پر رکنے اور غور کرنے کے بجائے سرسری گزر جاتا تھا

اب جو اچانک ایک ایسے شخص سے سابقہ پیش آیا جو خود کو جنوں کی قوم سے متعلق بتاتا تھا جس کے ثبوت میں اس نے وہ تمام عملی ونظری مظہر پیش کیے جن کی صحت کتاب و سنت کے نزدیک بھی تسلیم شدہ ہے مجھے اچانک ایسا لگا یہ شخص اس سے اب تک صرف وحشت اور خوف محسوس ہورہا تھا ایک انتہاٰٰٰئی دلچسپ شخص بھی ثابت ہوسکتا ہے اس کے زریعہ بعض ان حقائق کا پتا چل سکتا ہے جس تک ہم انسانوں کی رسائی مشکل ہے پھر کیوں نہ اس شخص کو اپنی مہربانیوں اور لطف وکرم سے کچھ اس طرح گرفتار کرلیا جائے کہ یہ کم از کم میرے سوالوں کا تشفی بخش جواب دینے تک اچانک غائب نہ ہوجائے یہ سوچ کر میں نے اس اک کریم میزبان کی حیثیت سے ضیافت کی پیش کش کی دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اسے اپنے غریب خانے کو بطور مہمان عزت بخشنے کی دعوت دی

میرے اس لطف وکرم کے رویے نے بالاآخر بہت جلد اسے بے تکلف شخص میں تبدیل کردیا میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ یوں تو اس مسجد کا معمولی خادم ہوں لیکن میری دلچسپی صحافت میں بھی ہے اور میں بعض بین الاقوامی اخبارات کے لیے بھی کالم لکھتا ہوں پھر کیا ہی بہتر ہوگا جنوں کی دنیا بعض اہم معلومات کو قارئین تک پہنچاؤں میری اس پیش کش پر پہلے تو وہ ایک لمحہ خاموش رہا پھر مسکرایا کہنے لگا محض معلومات نہیں بلکہ بعض ایسے انکشافات جن کا علم انسان تو کیا جنوں کی عظیم اکثریت کو بھی نہ ہوگا میں نے پوچھا ‘بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟ کہنے لگا ہاں ایسا ہی ہوگا پہلے تم مجھے بعض سوالات کے جوابات فراہم کرو کہ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم دونوں کی ملاقات انسانی تاریخ کی تبدیلی کا نقطہ آغاز بن جائے میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تمہاری مراد شاید جنوں اور انسانوں کی دنیا کے مستقبل میں ایک دوسرے کے قریب آجانے سے ہے، کہنے لگا نہیں بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ حیرت انگیز، میری سمجھ میں اس کے کچھ اشارے آئے کچھ نہیں گھر قریب آچکا تھا میں نے کہا خیر چھوڑو ان باتوں کو اطمینان سے گفتگو کریں گے

تھوڑی دیر کی گفتگو اور تبادلہ خیال کے بعد مجھے اس جن سے ڈر لگنے لگا وہ جس علمی انداز سے گفتگو کرتا تھا اور انسانی دنیا کے بڑے بڑے الٹ پھیر پر اس کی جتنی گہری نگاہ تھی اس سے تو یہ صاف معلوم ہوتا تھا یہ شخص کوئی عام جن نہیں بلکہ کوئی غیر معمولی مناصب والا جن ہے انسانی تاریخ کے بارے میں اس کا مطالعہ وتجربہ خاصا وسیع اور دلچسپ ہے اور اسے انسانی نفسیات کو سمجھنے اور انسانی کمزوریوں پر انگلیاں رکھ دینے کا خاص ملکہ حاصل ہے پھر یہ کون ہے؟ کیا چاہتا ہے؟ اور جنوں کی دنیا سے نکل کر انسانی آبادی میں کس چیز کی تلاش میں سرگرداں ہے؟ اس قسم کے سوالات نے پھر ایک بار میرے ذہن کو جکڑ لیا وہ کوئی عام جن نہ تھا بلکہ اس دنیا کا اہم شخص تھا اور یقیناً بڑے خطرناک مقاصد کے لیے ہمارے شہر کے چکر لگا رہا ہے لیکن پھر یہ سوچ کر کہ اتنی بھی جلدی کیا ہے مزید کریدنے سے کچھ نہ کچھ تو پردے اٹھیں گے اور پھر میں اسے اسلام کا پیغام ہی پہنچا رہا ہوں اس میں دہشت زدہ ہونے کی ضرورت کیا ہے؟

چند گھنٹوں کی گفتگو کے بعد یہ معلوم کر کے حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا کے یہ جن دنیائے ابلیس کا ایک مغرور فرد ہے ایک ایسا باغی ہے جس نے صدیوں کی رفاقت کے بعد ابلیس سے بغاوت کی ہے جاروجا نامی یہ جن ابلیس کے ہیڈکواٹر میں ایک مدت تک پالیسی امور طے کرنے کی ذمہ داری نبھا چکا ہے میں نے پوچھا پھر اچانک انسانی دنیا کی سیر کا خیال کیونکر آیا؟ایک مدت تک نظام باطل کے غلبہ کے لیے متحرک رہنے کے بعد اس کے اندر اچانک تلاش حق کا داعیہ کیونکر پیدا ہوا کہنے لگا ایک طویل مدت تک باطل کی عینک سے دیکھتے دیکھتے اب ہمیں حق بھی باطل ہی نظر آتا ہے صحیح اور غلط کی تمیز جاتی رہی ہے بھلے برے میں فرق کرنا مشکل ہے لہٰذا یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ آقائے ابلیس سے میری بغاوت اور تخت عظیم سے میرا فرار تلاش حق کے لیے ہے بلکہ میرا بنیادی اختلاف بعض پالیسی امور سے شروع ہوا نظام باطل کے ادنیٰ سے خادم کی حیثیت سے اور صدیوں کی خدمات اور تجربہ کی بنیاد پر میں یہ سمجھتا تھا کہ بعض مسائل پر میری آراء اور فیصلوں کو تسلیم کیا جانا چاہیے تھا کچھ بھی قلق نہ ہوتا اگر میری رائے کو زرا بھی اہمیت دی جاتی یا اسے چند لمحے زیر بحث سمجھا جاتا الٹا ہوا یہ کہ میرے مخلصانہ مشوروں کو مخالفت پر محمول کیا گیا عظیم جنرل اسمبلی میں ایک معمولی عہدیدار نے مجھ پر پھبتیاں کسی اور آقائے ابلیس نے میرے تمسخر اڑانے کو شہ دی طویل خدمات کے نتیجہ میں کیا مجھے یہی سب کچھ مل سکتا تھا؟ اسمبلی میں میری لابی کی تعداد بھی کم نہ تھی لیکن میں نے یہ محسوس کیا آقائے ابلیس کی ایک ہی پھٹکار ان سبھوں کو خاموش کروانے کے لیے کافی تھی اس اذیت ناک صورت میں کام کرنا میرے لیے مشکل ہوتا گیا پھر اچانک ایک خوشگوار حادثہ پیش آیا جس نے میرے لیے فرار کی راہ کھول دی باہر آکر اب مجھے محسوس ہورہا ہے کہ میں ان سب کو سبق سکھا سکتا ہوں اور بعض راز اہم ایسے ہیں جن کے افشاں ہونے سے تو خود آقائے ابلیس بھی کانپ جاتے ہیں

اس بات سے پتا چلتا ہے کہ ابلیس اور اس کی جماعت انسانوں کی ہر بات ہر تبدیلی ہر کمزوریوں سے واقف ہے اور ہم میں سے بہت سے لوگ جن یا شیطان کے وجود سے بھی انکار کرتے ہیں پھر ہم کیسے شیطان سے جیت سکتے ہیں

باقی آئندہ انشااللہ
Sayyeda Aribaa
About the Author: Sayyeda Aribaa Read More Articles by Sayyeda Aribaa: 17 Articles with 23301 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.