سُن بابا سُن......؟

حکومت اور حکمرانوں کے لئے ایک مثال....صرف ایک خاتون نے سندھ ہائے وے بلاک کردی کیوں.....؟؟؟؟
وزیر خزانہ کا عندیہ !2 ماہ بعد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی ایک بڑا مسئلہ ہوگی.........

ٰسُن بابا سُن! یہ تو سُن جو شائد حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لئے ایک دھچکا ثابت ہو کہ وہ ذرا اِس سے سنبھل جائیں اور اَب سے ہی پوری طرح سے متحرک ہوکر ملک اور قوم کو سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد اِن کی تعمیر نو میں لگ جائیں تو ٹھیک ورنہ پھر ملک میں وہی ہوگا جس کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ایک خبر جس کے مطابق ایک بڑے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا ایک کارندے نے جو اِن دنوں پاکستان میں سیلاب سے پیدا ہونے والی صُورت حال کے حوالے سے اِس کی کوریج کے لئے اپنے ادارے کے لئے کام کر رہا ہے اور اِن دنوں سیلابی پانی کے ریلے کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا سندھ تک پہنچ چکا ہے اور اِن دنوں یہ بھی سندھ کے ایک علاقے ٹھٹہ میں موجود ہے اور اِس نے یہاں کے حالات کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں وہ سیاسی مبصرین کا حوالہ دیتے ہوئے واضح طور پر اِس جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ پاکستان کی پہلے سے سنگین معاشی اور سیکورٹی مسائل کا شکار حکومت شائد اپنے یہاں آنے والے تاریخ کے اِس بدترین سیلاب کی طویل مشکلات اور سماجی شورش کے باعث اگر یہ حکومت عوامی توقعات پر پوری نہ اُتر سکی تو یہ حکومت برقرار نہ رہ سکے۔

یہاں میرا خیال یہ ہے کہ اِس امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے اِس نامہ نگار کی اِس رپورٹ سے ملک کے95فیصد عوام بھی متفق ہونگے کہ جن کا خدشہ ہے کہ اگر موجودہ حکومت نے اِن حالات میں بھی عوامی ضرورتوں کا خیال نہ کیا تو یہ حکومت اِسی بنا پر برقرار نہیں رہ سکتی اور ملک سے سیلاب کے خاتمے کے بعد جو صُورت حال پیدا ہوگی اِس کا سامنا کرنا نہ صرف حکمرانوں کے لئے ایک امتحان ثابت ہوگا بلکہ وہ صُورتِ حال ہر پاکستانی کے لئے بھی ایک کڑی آزمائش ہوگی اور اگر اُن حالات میں حکمرانوں نے اپنی دانش سے کام لیا تو ممکن ہے کہ وہ عوامی ردِعمل کو سنبھال سکیں ورنہ اِن کے لئے عوام سے مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

اور میں یہاں یہ بھی حکمرانوں کو باور کراتا چلوں کہ وہ اُس عوامی ردِ عمل کی صورت میں ملک میں آئندہ آنے والے حالات کی سنگینی کا اندازہ اِس واقعہ سے بھی لگا سکتے ہیں کہ جنوبی سندھ میں گزشتہ منگل کو سیلاب سے متاثرہ صرف ایک خاتون حکومت کی جانب سے متاثرین سیلاب کے لئے کئے گئے حکومتی اقدامات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے 20سے25منٹ تک ہائے وے بلاک کر کے بیٹھی رہی تاوقت کہ اِسے پولیس حکومتی امداد کی مکمل یقین دہانی کرانے کے بعد اِسے ہائی وے سے ہٹانے میں کامیاب ہوئی تو اِس مقام پر ٹریفک کی آمدورفت بحال ہوئی اور اَب اگر حکمران اِس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے سوچیں کہ جب متاثرین سیلاب میں سے صرف ایک خاتون نکل کر اکیلے ہی ہائی وے بلاک کرسکتی تو جب دو کروڑ متاثرین سیلاب حکومتی اقدامات کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تو حکومت اور حکمرانوں کا کیا بنے گا....؟؟؟

اگرچہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے حکومت کے مستقبل کے حوالے سے ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر ظاہر ہونے والے اُن تمام خدشات کو یکسر رد کردیا ہے اور مالیاتی اداروں کے سربراہان کو ہدایات جاری کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ سیلاب اور سیاسی صُورت حال سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور فلڈ بانڈ کے فوری اجرا اور متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لئے ترقیاتی منصوبے بنائیں جائیں... صدر کے اِس بیان کے بعد قوم کو یقین ہوجانا چاہئے کہ اَب ضرور کچھ نہ کچھ ہے.....؟ جس پر صدر نے یہ کہا ہے کہ سیلاب اور سیاسی صُورتِ حال سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے ....؟؟؟؟اور یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِس کے بعد اَب کسی کو کوئی تبصرہ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ اَب کوئی اپنا تبصرہ کرے کیونکہ ہمارے یہاں ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے کہ جب حکمران جماعت کا صدر یا کوئی بھی یہ کہے کہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو خطرہ ہے اور وہ حالتِ نزع میں ہے جو ابھی گئی کہ جب گئی.....مگر اِس کے باوجود بھی ہماری دعا تو یہ ہے کہ یہ جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرے مگر عوامی توقعات پر پورا اُترتے ہوئے اور اِن کے مسائل کو حل کرتے ہوئے یہ حکومت ملکی تاریخ میں کسی نئے باب کا اضافہ کرجائے مگر ایک ہماری اکیلی دعا سے کیا ہوتا ہے جب ملک کے 95سے 99فیصد عوام یہ چاہتے ہیں کہ یہ حکومت جلد ازجلد جائے کیونکہ یہ حکومت ابھی تک عوام سے اپنے کئے گئے وعدوں پر پورا نہیں اُترسکی ہے۔

اُدھر اِن حالات میں کہ جب حکومت پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے بھی سیاسی اور عسکری قیادت پر واضح کرتے ہوئے ایک بم یہ کہہ کر گرا دیا ہے کہ 2ماہ بعد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لئے پیسے نہیں ہونگے اور اِس حوالے سے اُنہوں نے یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے واضح کیا کہ گزشتہ چند سال کے دوران قومی معیشت کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ اِن کا کہنا ہے کہ معیشت کو تباہی سے بچانے کے لئے ہر حال میں سول اور فوجی حکام کو مالیاتی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اِس کے ساتھ ہی ساتھ اِن کا یہ بھی کہنا ہے کہ عالمی اداروں کے ساتھ کئے گئے وعدے نبھانا حکومت کے لئے مشکل ہوگیا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ اَب ملک میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے حکومت پر عالمی عدم اعتماد کے باعث امداد بھی اِس کی توقعات سے کہیں کم ملی ہے اِس لحاظ سے متاثرین سیلاب کو شدید مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جس کے لئے آئندہ بہت مشکل اور کٹھن فیصلے بھی حکومت کو کرنے ہوں گے اور اِن فیصلوں کو عوام کو ہر حال میں برداشت کرنا ہوگا۔ یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِس ساری صُورت حال کی ذمہ دار بھی ہماری یہی حکومت اور ہمارے حکمران ہیں جو اپنے دو سالہ دورِ اقتدار میں خوابِ خرگوش میں پڑے رہے اور اِنہوں نے اپنے تئیں ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا اور اُس ہی ڈگر پر چلتے رہے جس پر اِس سے پہلے والی حکومت اور حکمران چل رہے تھے۔

بہرکیف! یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آنے والے تاریخ کے اِس تباہ کُن اور بدترین سیلاب نے جہاں کروڑوں افراد کو اپنی تباہ کاریوں سے متاثر کیا ہے تو وہیں اِس کی ہولناکی سے اِس کی زد میں آنے والے بہت سے حکومتی ادارے بھی محفوظ نہ رہ سکے جن کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے حکومتی سطح پر جنگی بنیادوں پر اقدامات اور منصوبہ کی جارہی ہے تو وہیں اِن سے متعلق یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ اِن حکومتی اقدامات اور منصوبہ بندیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کئی ماہ اور سال بھی لگ سکتے ہیں۔ اور اِس سارے عرصے کے دوران ملک اور قوم کو جن کٹھن آزمائشوں سے گزرنا ہوگا اِس کا تصور کرتے ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اِس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والے دن، ہفتے، ماہ اور سال میں پاکستانی عوام کو کئی چیلنچوں اور امتحانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اگرچہ اِس سے بھی انکار نہیں کہ سیلاب نے ملک کے طولُ ارض میں جو تباہی مچائی ہے اُس سے حکومتی چولیں ہل کر رہ گئیں ہیں اور حکومت اِس کا اقرار بھلے سے خود نہ کرے مگر کہا جارہا ہے کہ حکومت ملک میں سیلاب کے بعد پیدا شدہ حالات اور سیاسی صُورتِ حال سے شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے کہ ایک طرف سیلابی تباہ کاریاں ہیں تو دوسری طرف ملک کے سیاسی اور سماجی وہ ابتر حالات ہیں جس کا حکومت کو ہر سطح پر سامنا ہے تو وہیں ملک کی پہلے سے زبوحالی کا شکار وہ ملکی معیشت ہے جو گزشتہ دو اڑھائی سال سے حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندیوں کے باعث بُری طرح سے تباہ ہوچکی ہے اور اِس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ ملک میں آنے والے صدی کے اِس تباہ کُن سیلاب نے ملکی معیشت کو بھی ایک ایسا شدید دھچکا لگا دیا ہے کہ یہ منہ کے بل گر چکی ہے جس کو سہارا دینے اور سنبھالنے کے لئے حکومت ابھی تک غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کئے ہوئے ہے۔

تاہم یہ حقیقت ہے کہ حکومت اپنی زبوحال معیشت کے باوجود متاثرین سیلاب کی مدد کے لئے بین الاقوامی برادری کی جانب سے ملنے والی امداد اور کچھ اپنے ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اِن کی بحالی کے لئے اپنے منصوبے بنارہی ہے مگر دوسری طرف یہ بھی عام خیال کیا جارہا ہے کہ یہ حکومتی منصوبے اتنے کارآمد نہیں کہ تباہ حال متاثرین سیلاب کو اِن سے طویل مدتی ریلیف حاصل ہوسکے کیونکہ حکومت نے ابھی تک کوئی ایسا جامع منصوبہ نہیں بنایا ہے کہ جس پر متاثرین سیلاب اور عالمی برادری کو یہ اطمینان اور اعتماد ہوسکے کہ حکومت متاثرین سیلاب کے لئے جتنا کچھ کررہی ہے وہ اِس میں پوری طرح سے مخلص ہے۔ بہرحال! یہ امرحکمرانوں اور سیاستدانوں بڑی حد تک قابل توجہ ضرور ہے کہ حکومت کے لئے متاثرین سیلاب کی جلد بحالی اور اِن کی واپسی کا مسئلہ ایک بڑا چیلنچ اختیار کر گیا ہے جس کے لئے اِنہیں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر سُرخرو کرنا ہوگا۔ قوم کا خیال یہ ہے کہ شائد جس کے لئے ہماری حکومت، حکمران اور سیاستدان اَب تک خود کو تیار نہیں کرسکے ہیں ....کیوں اِس کی آخر کیا وجہ ہے....؟؟جو کوئی اَب ملک اور قوم کو اِس مشکل گھڑی سے نکالنے کے لئے خود کو پیش کرنے کو تیار نہیں ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 897931 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.