دل کی بات درد دل کے ساتھ

2016 اب کچھ ہی گھنٹوں کا مہمان ہے، گھڑیال کے بارہ بجنے کے ساتھ ہی یہ مہمان رخصت ہو جائے گا، کبھی بھی نہ آنے کے لئے۔

کبھی ہم نے سوچا کہ ماہ و سال رخصت ہوتے جارہے ہیں مگر ہم ہر گزرتے دن سے کیا سیکھ رہے ہیں؟ کیا پا رہے ہیں؟ کیا کھورہے ہیں؟

نہیں ہم نے دن گزارنے تو سیکھ لئے ہیں، وقت کو رخصت تو کرنا آگیا ہے محض وقت گزاری کے لئے۔ ہر گزرتے پل سے کچھ سیکھنا شاید ہم اب بھول چکے ہیں اور کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی مدار میں گھومنا شروع کردیا ہے جو شام ہونے پر یہ سوچتا ہے کہ چلو ایک دن اور کم ہوا۔

ہر آتی جاتی سانس پر ہمیں اس ذات کریمی کا شکربجا لانا چاہئے کہ اس نے ابھی توبہ کا در بند نہیں کیا ابھی مہلت ہے کہ اعمال کی درستگی ہوپائے، مگر بجائے شکر کے کلمات ادا ہوں، ہم میں سے ہر ایک قسمت سے نالاں، خرابئ قسمت کا رونا روتے نظر آتے ہیں، کاروبار کا آغاز کرتے ہیں تو اس سوچ کے ساتھ کہ شروع ہی میں اس کے ثمرات ملنے لگیں گے، محنت، دیانت اور لگن سے کام انجام دینے کی بجائے پکے پکائے حلوے کے منتظر رہتے ہیں۔

ایک رویہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی نئے کام کا آغاز اس سوچ سے کرتے ہیں کہ اگر کامیابی نہ ملی تو کیا ہوگا؟ ناکامی کے وہمات و خدشات کے ساتھ کام کا آغاز کیا جائے تو زیادہ تر ناکامی کا ہی سامنا ہوتا ہے۔

لیکن اگر ناکامی کا خوف دل سے نکال کر اگر کام کا آغاز ہو تو کامیابی کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ ماضی میں جتنے بھی بڑے لوگ گزرے ہیں ان کی تاریخ اگر اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہوگا کہ تقریبا سبھی کو آغاز میں ناکامی کا سامنا ہوا۔ رائٹ برادران، تھامس ایڈیسن، مارکونی اور جتنے بھی بڑے نام ہیں، کیا ان سب کو پہلی دفعہ ہی کامیابی مل گئی تھی؟ نہیں ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی انہوں نے ہمت ہاری بلکہ ہر ناکامی کے بعد ان اسباب کا ہر پہلو سے جائزہ لیا کہ ناکامی کیوں ہوئی، اگر پہلی ناکامی سے دلبرداشتہ ہوجاتے تو آج شاید ہم بھی پتھروں کے دور میں ہوتے۔

آج ہم نے وقت کی قدرومنزلت کا احساس تک کھو دیا ہے، بجائے محنت کرنے کے دوسروں کے سر کچل کر کامیابی حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگ گئے ہیں، چاہے انفرادی سطح ہو یا اجتماعی سطح ہم خودغرض ہو گئے ہیں، یہ ہماری خودغرضی ہی ہے کہ وقت کی خوبصورتی کا احساس ختم ہو گیا ہے۔ نمبر ون کی دوڑ میں ہم اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ اب نہ تو بارش کی رم جھم اچھی لگتی ہے نا ہی دسمبر کا سرد موسم، خوشیوں کی تلاش میں تو ہیں مگر خوشی کی اہمیت کا احساس کھوچکے ہیں، حالانکہ خوشی تو روتے بلکتے بچے کو خاموش کروا کر بھی پائی جاسکتی ہے۔

2017 کی آمد آمد ہے اور سال نو کی آمد پر اگر ایک بار صرف چند لمحوں کے لئے سوچا جائے کہ گزشتہ برس کہاں کھڑے تھے، کون سی نعمت ہے کہ جس کا رب کریم نے زندگی میں اضافہ کیا ہے؟

جو اس نے لے لیا ہے اس پر ملال کی بجائے، جو اس نے عطا کیا ہے اس پر شکر کیا جائے تو آپ کی اپنی زندگی تو آسان ہوگی ہی ساتھ ہی دوسروں کی زندگیوں میں بھی آسانیاں اور راحت پیدا ہوں گی۔ رب کریم نے جو لے لیا ہے وہ ہم انگلیوں کی پوروں پر گن سکتے ہیں مگر جو اس کی دین ہے اس کا شمار بہت مشکل ہے۔
دوسروں کو آسانیاں اور راحت دیجئے کہ آپ کی اپنی زندگی میں راحتیں اور آسانیاں پیدا ہوں، نہیں یقین تو آزماکر دیکھ لیجئے۔

تنزیلہ یوسف لاہور
ممبر آف پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ( پی-ایف-سی )
( میرا یہ آرٹیکل 31 دسمبر کے روزنامہ سماء لاہور میں جگہ پا چکا ہے )
Tanzila Yousaf
About the Author: Tanzila Yousaf Read More Articles by Tanzila Yousaf: 2 Articles with 1299 views اللہ پاک کی اتنی بڑی کائنات میں ایک عام سی عورت.. View More