وکیل صحابہؓ.... حضرت قاضی مظہر حسینؒ

یہ کالم میں نے 13 سال قبل اُس وقت تحریر کیا تھا جب حضرت قبلہ قاضی مظہر حسینؒ کا انتقال ہوا تھا اور بندۂ ناچیز نے جنازے کی مکمل کوریج کی تھی اور میرے اس کالم کو انتہائی مستند ماہنامہ ’’حق چاریارؓ ‘‘ میں خصوصی جگہ دی گئی تھی۔ یہ شمارہ 400 صفحات پر مشتمل تھا۔ بندۂ ناچیز کو یہ بھی اعزاز حاصل ہوا کہ حضرت قبلہ قاضی مظہر حسینؒ سے ملاقات کا بھی شرف حاصل ہوا۔ پھر اُن کے بیٹے حضرت قاضی ظہور الحسین اظہر کا 2 بار انٹرویو بھی کیا اور پھر اُن کے پوتے قاضی ظاہر حسین سے لمبی رفاقت کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ 13 سال قبل لکھا گیا کالم آج دوبارہ لکھنے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ 26 جنوری 2004ء کو وکیل صحابہؓ حضرت قبلہ قاضی مظہر حسینؒ کا انتقال ہوا تھا۔ کالم حاضر خدمت ہے۔ حضرت قبلہ قاضی مظہر حسینؒ خلیفہ مجاز شیخ الاسلام محمد حسین مدنی کے شاگردِ رشید اور دار العلوم دیوبند ہیں۔ آپؒ یکم اکتوبر 1914ء بمطابق 10 ذوالحج 1336 ہجری بمقام بھیں ضلع چکوال پیدا ہوئے۔ حضرت قبلہ قاضی مظہر حسینؒ نے ابتدائی عربی، فارسی، قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم والد ماجد حضرت مولانا کرم الدینؒ سے حاصل کی اور ساتھ ساتھ دنیاوی علوم میں گورنمنٹ ہائی سکول چکوال سے میٹرک کیا۔ اس کے بعد 2 سال تک گورنمنٹ پرائمری سکول بھیں میں بچوں کو تعلیم دینے کے بعد اشاعت اسلام کالج لاہور میں داخلہ لیا اور 2 سال تک 1933ء تا 1934ء اس ادارے میں تعلیم حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی میں فاضل عربی کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد دینی علوم و فنون کی تکمیل کے لئے جامعہ عزیزیہ بھیرہ میں داخل ہوئے اور علوم و فنون پڑھے۔ 1936ء اور 1937ء میں دار العلوم عزیزیہ بھیرہ سے دورۂ حدیث شریف موقوف کرنے کے بعد 1938ء تا 1939ء میں دار العلوم دیوبند سے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید احمد مدنی، حضرت مولانا شمس الحق افغانی، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع اور دُوسرے بڑے بڑے مشائخ دیوبند حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی، حضرت مولانا قاری محمد طیب مہتمم دار العلوم دیوبند، حضرت علامہ اعزاز علی اور حضرت مولانا پیر مبارک نائب مہتمم دار العلوم دیوبند سے فیض حاصل کیا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی سے بھی ملاقات کی اور اُن کے درس میں بیٹھ کر فیض حاصل کیا۔ جولائی 1941ء سے 1949ء تک انگریز کے دورِ حکومت میں راولپنڈی، جہلم، لاہور اور ملتان کے اسیر خانوں میں قید رہے۔ 1949ء میں رہائی کے بعد چکوال میں تبلیغ اشاعت کا کام جاری کرتے ہوئے بھیں میں مدرسہ اظہار الاسلام کی بنیاد رکھی۔ 1955ء میں چکوال میں تبلیغ کا کام شروع کرتے ہوئے مختلف مساجد میں درسِ قرآن دئیے۔ 19 فروری 1952ء میں امدادیہ مسجد پنڈی روڈ چکوال میں دار العلوم کی بنیاد رکھی جس میں حضرت مولانا غلام حبیب کو مہتمم مقرر کیا گیا۔ مجلس مشاورت میں حضرت قبلہ قاضی مظہر حسینؒ شامل ہوئے۔ 28 جنوری 1955ء کو امدادیہ مسجد پنڈی روڈ میں جامعہ عربیہ اظہار الاسلام کی بنیاد رکھی اور اُس کے سب سے پہلے مہتمم مقرر ہوئے۔ جامعہ سے اب تک ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں شامل ہو کر مرزائیت کے خلاف جہلم میں تاریخی تقریر کرتے ہوئے گرفتار کر لئے گئے۔ 1954ء میں ساہیوال جیل سے تحریک ختم نبوت میں گرفتار افراد میں سب سے آخر میں رہا ہوئے۔ 1955ء میں کل پاکستان جمعیت علمائے اسلام میں ضلع جہلم کے امیر مقرر ہوئے۔ ایوبی مارشل لاء دور میں جمعیت پر پابندی لگی۔ نظام العلماء پاکستان ضلع جہلم کے امیر مقرر ہوئے اور مرکزی مجلس شوریٰ میں شامل کئے گئے۔ 1962ء میں جمعیت علمائے اسلام راولپنڈی ڈویژن کے امیر مقرر ہوئے۔ 1965ء میں جمعیت علمائے اسلام صوبہ پنجاب شمالی کے نائب امیر بنائے گئے۔ 1969ء میں تحریک خدام اہلسنت کی بنیاد رکھی اور اس کے امیر مقرر ہوئے۔ تحریک نے اہلسنت میں فکری اور ذ ہنی انقلاب برپا کر دیا۔ آپؒ نے کئی کتابیں تصنیف کیں۔ فروری 1989ء میں ایک جریدہ ماہنامہ ’’حق چاریارؓ ‘‘ جاری کیا جس میں تفکر اور تدبر کے نام سے پہلا اداریہ آپؒ نے لکھا۔ اس کے بعد جب تک آپؒ کی صحت رہی اھدنا الصرط المستقیم کے نام سے یہ اداریہ لکھتے رہے اور یہ مضمون دسمبر 1998ء تک 60 قسطوں میں 5 سال تک رسولِ رحمت کے نام سے چھپتا رہا۔ اکتوبر 1998ء میں 84 سال کی عمر میں نواز شریف کے دور حکومت میں گرفتار کر کے سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی اور اڑھائی ماہ کمپلیکس میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ قتل اور دہشت گردی کے سنگین الزامات لگائے گئے۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپؒ مقدمہ لڑتے رہے اور آخر کار نومبر 2002ء میں آپؒ اور آپؒ کے 45 ساتھیوں کو ہائیکورٹ نے باعزت بری کر دیا۔ آپؒ نے زندگی میں متفرق اوقات میں 10 سال جیل میں گذارے اور درجنوں اضلاع میں کئی کئی ماہ تک ہر حکومت میں داخلہ پابندی رہی۔ آپؒ نے چکوال میں 14 جولائی 1960ء کو جامعہ اہلسنت تعلیم النساء قائم کیا جس میں 400 سے زائد بچیاں حفظ، ہزاروں بچیاں قرآن مجید کی تعلیم اور سینکڑوں طالبات شعبہ فاضلات سے سند فراغت حاصل کر چکی ہیں۔ اس وقت جامعہ اہلسنت تعلیم النساء میں 355 بیرونی طالبات حفظ قرآن اور تفسیر و حدیث پڑھ رہی ہیں۔ جامعہ اظہار الاسلام کے تحت 50 کے قریب بیرونی شاخیں قائم ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں بچے قرآن و حدیث، تفسیر اور دُوسرے دینی علوم و فنون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ آپؒ نے کم و بیش زندگی میں 14 بار حرمین شریفین کا سفر کیا جس میں 6 حج اور 8 عمرے ادا کئے۔ 1980ء میں دار العلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس میں قیام پاکستان کے بعد پہلا ہندوستان کا سفر کیا جس میں حضرت مولانا سید احمد مدنی اور مولانا رشید احمد گنگوہی اور دُوسرے اکابر دیوبند کے مزارات پر حاضری دی۔ حضرت قبلہ قاضی مظہر حسینؒ کی کم و بیش 70 مشہور تصانیف ہیں جن میں کئی بہت مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت قبلہ نے کئی مشہور کتب پر مقدمات بھی تحریر کئے۔ حضرت قبلہ نے پسماندگان میں ایک بیٹا حضرت قاضی ظہور الحسین اظہر اور 6 بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ قاضی ظہور الحسین اظہر اب قبلہ حضرت کی وصیت کے مطابق خدام اہلسنت و الجماعت پاکستان کے امیر ہیں اور بہت ہی اعلیٰ پائے کے عالم فاضل شخصیت کے مالک ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے جیسے لوگ دُنیا میں آتے ہیں اور وقت ضائع کر کے چلے جاتے ہیں۔ حضرت قبلہ قاضی مظہر حسینؒ ایک شخص نہ تھے بلکہ ایک تحریک کہا جا سکتا ہے جنہوں نے ساری زندگی جہد مسلسل میں گزاری اور سچ تو یہ ہے کہ اپنا نام امر کر گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ جنازے استواب کی حیثیت رکھتے ہیں کہ خلق خدا اپنے خدا کے سامنے جانے والے کے بارے میں کیا شہادت پیش کرتی ہے۔ چکوال شہر نے جو منظر 26 جنوری 2004ء کو وکیل صحابہؓ حضرت قبلہ قاضی مظہر حسینؒ کی نماز جنازہ کا دیکھا وہ ایک عوامی سیلاب سے کم نہ تھا۔ بھون چوک سے کالج گراؤنڈ تک لوگ ہی لوگ تھے پولیس کی بھاری نفری چوکس تھی یقینا اتنے بڑے ہجوم کو کنٹرول کرنا بڑی مہارت کا کام ہے، بالکل اسی طرح حضرت قبلہ قاضی مظہر حسینؒ کے آبائی گاؤں بھیں میں لوگوں کی کثیر تعداد نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ میری دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت قبلہ قاضی مظہر حسینؒ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭٭٭
 
Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 57172 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.