حلب: تہذیب وتمدن کا مرکز

دنیا کے چند قدیم شہروں میں سے ایک۔پرانے ناموں میں سے کھلپی،کھلبان اور بیورویا اب بھی تاریخی کتابوں میں مذکور ہیں۔عربی میں اب بھی حلب اور دورجدید میں الیپو۔حلب سفید کو کہتے ہیں اور سفید ماربل کی وجہ سے یہ نام معروف ہے۔سفید ماربل یہاں کافی پایا جاتا ہے۔اس کی قدامت کا اندازہ5000سال قبل مسیح سے لگایا جاسکتا ہے۔تب یہ شہر اپنی ابتدائی سی شکل میں کرۂ ارض پر دریا کے کنارے موجود تھا۔مشرق وسطی کی تمام قدیم تہذیبوں کے آثار اب بھی یہاں موجود ہیں۔ سمیری اور بابلی تہذیبوں کے مراکز اسی شہر کے قرب وجوار میں تھے۔اب بھی قدیم زمانے کا ہداد کا ٹمپل موجود ہے۔سکندر اعظم نے اسے333ء میں فتح کیاتھا۔جب سپہ سالار اسلام عبیدہ بن الجراحؓ نے اسے فتح کیا تو شہرپر بازفطینی حکومت تھی۔یوں637ء میں یہاں عرب حکومت قائم ہوگئی۔صلیبی جنگوں میں اسے 2بار غیر مسلم فوجوں نے محاصرہ میں لیا۔لیکن فتح نہیں کرسکے۔زنگی سے صلاح الدین ایوبی یہاں حکمران رہے۔منگول عارضی طورپر آئے۔1516ء میں شہر عثمانی سلطنت کا حصہ بنا اور ظاہر ہے کہ صدیوں تک رہا۔پہلی جنگ عظیم کے بعد اسی علاقے کا نقشہ بدل گیا۔عراق اور شام نامی قومی سلطنتیں قائم ہوئیں۔1963ء میں بعث پارٹی کی حکومت اس علاقے میں قائم ہوئی۔1970ء میں حافظ الاسد اور بعد میں صاحبزادہ بشارالاسد۔یہ شام کا سب سے بڑا شہر ہے۔سول وار سے پہلے اسکی آبادی60لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔اب تباہی کے بعد آبادی چند لاکھ رہ گئی ہے۔یہ اسلامی تہذیب کا اس علاقے کا سب سے بڑا مرکز رہا ہے۔مدرسے اور مساجد بے شمار۔مدرسے بہت مشہور ہیں۔فارابی جیسے فلاسفر بھی یہیں سے تعلق رکھتے تھے۔UNESCOنے1986ء میں اسے اسلامی تہذیب کے مرکز کے طورپر تسلیم کیا اور آثار قدیمہ کی حفاظت شروع کی۔اسلامی دور سے پہلے کی بھی یہاں معروف ترین بلڈنگز ہیں۔اسی شہر میں دنیا کا سب سے بـڑا چھت والا بازار ہے۔اسے المدینہ بازار کہاجاتا ہے۔نہر سویز کے کھلنے سے پہلے یہ شہر تجارت کا سب سے بڑا مرکز تھا۔بحیرہ روم سے تجارتی قافلے حلب سے گزر کر ہی مشرق وسطیٰ کے شہروں میں آتے تھے۔قدیم حلب ہمارے لاہور کی طرح چاردیواری کے اندر تھا۔اورشہر کا رقبہ تقریباً400۔ہیکٹر پر مشتمل تھا۔اس کے کافی دروازے تھے۔اب کہتے ہیں کہ صرف 5۔نظر آتے ہیں۔باقی گردش ایام نے برباد کردیئے ہیں۔پرانے آثار کو محفوظ کرنے کے لئے یونیسکو اور ماہرین نے کئی پلان بنائے ہیں۔جنگ سے پہلے تک یہ کوششیں بڑے پیمانے پر جاری تھیں۔یہاں جنگ سے پہلے80فیصد سنی مسلمان بستے تھے۔باقی نصیری اور عیسائی آبادی تھی۔دنیا میں کچھ ایسے شہر ہیں جہاں جنگوں کے دوران لمبے عرصے کے لئے محاصرے جاری رہے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران تبروک8۔ماہ تک محاصرے میں رہا۔لینن گراڈ(روس)کا محاصرہ تقریباً2-1/2سال جاری رہا۔حلب کا محاصرہ اکتوبر2012ء سے شروع ہوا اور سرکاری افواج نے23دسمبر2016ء کو مکمل فتح کا اعلان کیا۔شروع سے ہی شہریوں نے النصرہ گروہ کا ساتھ دینا شروع کردیا تھا۔سرکاری قاتلوں کے آگے وہ بہت لمبے عرصے تک چٹان کی طرح کھڑے رہے۔پھر روس نے بمباری کردی اور سرکاری افواج کے لئے پیش قدمی آسان ہوگئی۔حلب کی4سال سے زائد لڑائی نے شہر کو تباہ وبربادکردیا ہے۔بے شمار تاریخی اور رہائشی عمارتیں تباہ ہوئیں۔اورمرنے والے انسانوں کی تعداد کا بھی کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ننھے منے بچوں کی لاشیں ایک لائن کی شکل میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہم اکثر دیکھتے رہتے ہیں۔حلب پر سرکاری قاتلوں کے قبضے کے بعد صرف ایران میں مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔جب بشارالاسد کو ایران،حزب اﷲ اور روس کی مدد مل گئی تو حلب پر چڑھائی کرنا اور اسے فتح کرنا مشکل نہ رہا۔حکومت مخالف گروپ کو امریکہ اور ترکی زیادہ مدد فراہم نہ کرسکے۔ترکی وہاں سے صرف زخمیوں کو نکال کراپنے سرحدی علاقوں میں رہائش فراہم کررہا ہے۔ترکی نے پناہ گزینوں کے لئے جدید طرز کے کیمپ لگائے ہیں۔طیب اردوان جوکچھ کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔حلب والوں کو صرف ترکی سے ہی توقعات تھیں۔سعودی عرب والے صرف دعائیں ہی کرتے رہے۔34۔ملکوں پر مشتمل نام نہاد اتحادی فوج کہیں بھی نظر نہ آتی۔اس کا صرف میڈیا میں شہرہ ہے۔یہ اتحاد تو ابھی یمن کے محاظ کو بھی نہیں سنبھال سکا۔ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے حلب جو صنعت کا مرکز تھا اورجہاں سے شام کی60۔فیصد اشیاء باہر جاتی تھیں۔کھنڈر بن گیا ہے۔اس کے حالات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے حلب کا سقوط ہوگیاہو۔کبھی قرطبہ،کبھی ڈھاکہ اور پھر حلب۔کچھ لوگ اسے سقوط حلب سننا پسند نہ کریں گے۔لیکن جہاں کے اصل باشندے شہرچھوڑ جائیں ۔لاکھو ں قتل ہوجائیں۔عمارتیں کھنڈر بن جائیں تو پھر کوئی اور لفظ نہیں۔صرف سقوط ہی صحیح مفہوم اداکرتاہے۔صنعتیں تباہ،تجارت تباہ،مدرسے اور مساجد بمباری سے برباد۔قطار اندر قطار لاشیں اسے زندہ شہر نہیں کہا جاسکتا۔کبھی اس کے بچے اجلی وردیاں پہنے سکول اور کالج جاتے تھے۔بازاروں میں مردوخواتین خرید وفروخت کرتے نظر آتے۔مدرسوں میں اساتذہ قرآن وحدیث کی تشریح کرتے اور دوردراز سے آئے ہوئے لاکھوں طالب علم فائدہ اٹھاتے۔ایک ہزار فیکٹریاں تو شروع کے دنوں میں ہی لڑنے والوں نے لوٹ لی تھیں۔صرف4سال میں ایک پررونق شہر کھنڈر بن گیا۔جب23۔دسمبر2016ء کو شام کی وزارت دفاع نے شہر کی فتح کا اعلان کیا تویہ ایک شہر کی نہیں بلکہ مرگھٹ کی فتح تھی۔حلب کے شہریوں کے لئے سرکاری فوج اور مخالفین ایک جیسے تھے۔موت کے نقیب۔دونوں طرف موت کھیل رہی تھی۔کئی سال کے محاصرے نے شہر کی آبادی کوکچل دیا۔جہاں روس اور امریکہ دونوں ملوث ہوں۔وہاں اقوام متحدہ کچھ نہیں کرتی۔اگر کچھ کرسکتے ہیں تومسلمان خود ہی کریں۔دنیا کی اقوام مریخ پر جانے کی تیاریاں کررہی ہیں۔اور مسلمان آپس میں ہی لڑ کراپنے آپ کو برباد کررہے ہیں۔اس سے پہلے بغداد کے لئے اور پھر موصل پر قبضہ کے لئے مسلمان آپس میں لڑتے رہے اور اب لڑتے لڑتے اپنا ہی ایک بڑا شہر تباہ وبرباد کرلیا۔پاگلوں کے سینگ تو نہیں ہوتے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49805 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.