آتیترمل کےکریں آہ وزاریاں

مسلمان آج ہرجگہ اورہرلحاظ سےبدترین دہشتگردی کا شکار ہیں کہیں پر بھی انکی شنوائی نہیں ہو رہی یہاں تک کہ مسلم حکمرانوں نے بھی اپنے کانوں میں مغربی روئی ڈالی ہوئی ہے اور انہیں ذرا بھی افسوس نہیں ہوتا کہ کس طرح انکے مسلمان بھائیوں کو انتہائی بےدردی سے قتل کیا جا رہا ہے
پہلے آپ کو ایک کہانی سناتے ہیں
ایک شکاری نے ایک تیتر کا شکار کیا اور اسکولیکرگھرآگیا اور اس تیتر کی گھر میں خوب سیوا شروع کی روزاسکو دانہ پانی کے ساتھ ساتھ بادام اور اخروٹ بھی کہلانے لگا. شروع شروع میں تو تیتر کو دوستوں اور جنگل کی یاد ستانے لگی لیکن رفتہ رفتہ اسکو مالک کا گھر اچھا لگنے لگا اور اچھا لگتا بھی کیوں نہیں اسکو جو روز دانہ پانی کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی مرغوب غذائیں مل رہی تھی. مالک کے گھر میں آنے سے قبل وہ بہت کمزور تھا اب تو وہ کافی موٹا فربہ ہو گیا تھا. مالک کو جب یقین ہو گیا کہ اب وہ گھر سے نہیں جائے گا تو اس نے اس تیتر کا پنجرہ کھول دیا اب تو تیتر خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا اور پورے گھر میں آزادانہ کھیلنے لگا جنگل اور اپنے دوستوں کا خیال اسکے ذہن سے رفوچکر ہو گیا تھا. ایک دن مالک اسکو لیکر جنگل
کی طرف گیا اور ایک جگہ جال بچھا کر اسکو اس جال پر بٹھادیا اچانک کچھ تیتروں کا ایک جمگھٹا
نمودار ہوا اور انہوں نے سمجھا کہ انکا ایک ساتھی مصیبت میں ہے سارے تیتر اپنے ساتھی کی مدد کے لئے جیسے ہی اترے تو فورا" شکاری نے جال کھینچا اور سب کے سب تیتر جال میں پھنس گئے شکاری سب تیتروں کو لیکر گھر آگیا اور سب کو پنجرے میں بند کردیا اور پرانے تیتر کو کھلا چھوڑ دیا
اب مالک روز ایک تیتر کو پرانے تیتر کے سامنے ذبح کرتا اور بھون کر اسکو مزے مزے سے کھاتا. پرانے تیتر کو اپنے ساتھیوں کا بلکل خیال نہیں آتا تھا کہ اسکا مالک کیسے انکو بےدردی سے ذبح کرتا ہے کیونکہ اس کو تو مالک کی طرف سے ٹائم ٹو ٹائم مرغوب کھانا مل رہا تھا. یہ سارا منظر سامنے درخت پر بیٹھے دو تیتر دیکھ رہے تھے اور حسرت و افسوس کر رہے تھے کہ دیکھو تو سہی اس کمینے تیتر کو اس کو تو اپنے دوستوں کا ذرا بھی خیال نہیں ہے
آج اگر آپ اپنی نظروں کو اردگرد دوڑاو تو آپ بھی اپنے مسلم حکمرانوں کو اس کمینے تیتر کی طرح پاؤگے جو اپنے مغربی صیہونی آقائوں کی گود میں کھیل رہے ہیں انکو ذرا بھی احساس نہیں ہےکہ کس طرح
انکے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو ذبح کیا جا رہا ہے اور انکی عزتیں پامال کی جا رہی ہیں اور بڑی بےدردی سے انکا مال لوٹا جارہا ہے. صرف برما میں
چار سالوں اندردو لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے اور ان میں سے تو بیشتروں کو زندہ جلایا گیا۔دودھ پیتے بچوں کو انکی ماؤں کے سامنے چیرا گیا خاندان در خاندان کو موت کی گھاٹ اتار گیا.
ہندوستان اور کشمیر پر بات نہ کی جائے تو ہی اچھا ہے کیونکہ وہاں تو آئےروز جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں
مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہے.
دنیا کی خودساختہ سپر پاور اور نام نہاد انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ نے افغانستان اور عراق میں وہ مظالم ڈھائے کہ چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھی شرم آجائے. ہٹلر اور نپولین جیسے قاتلوں کا سر شرم سے جھک جائے۔
افریقہ کے ممالک میں امریکہ اور یورپ کی سرپرستی میں چلنے والی ملیشیا نے مسلمانوں کو زندہ بھون کر انکا گوشت کھایا۔
شام میں تو ظلم بھی ظالم سے پناہ مانگ رہی ہے
وہاں کا حاکم تو براہ راست شیطانی قوتوں کے آلہ کار اور دجالی تنظیم (New world Orders )کے رکن ولادی میرپیوٹن اور خامنہ ای کی گود میں بیٹھ کر مسلمانوں کی نسل کشی کررہا ہے اور تین چار سالوں میں ابتک چار لاکھ سنی حنفی مسلمانوں کو بےدردی سے موت کی گھاٹ اتار چکا ہے. انتہائی زہر آلودہ کیمیائی ہتھیاروں،نائٹروجن اور بیرل بموں سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ابھی حال میں ہی حلب کو کھنڈر بنا دیا ہے.
کیا یہ سب صورتحال اقوام متحدہ کے علم میں نہیں ہے کہاں چلی گئی ہیومن رائٹس کی تنظیمیں جو گستاخ رسول ادارے چارلی ایبڈو پر حملے کو انسانیت کا دشمن قرار دیتی ہے جو طاغوتی قوتوں کی آلہ کار ملالہ پر حملے کو تعلیم پر حملہ قرار دیتی ہے کیا انہیں شام، افغانستان اور عراق کے اسکول نظر نہیں آتےجو آئےروز لڑاکا طیاروں کی بمباری کا نشانہ بن جاتے ہیں جن میں پڑھنےوالے مسلمان بچوں اور بچیوں کی لاشیں تک مسخ ہو جاتی ہے کیا یہ تعلیم پر حملہ نہیں ہے.
کیا مظلوم مسلمانوں کی آہیں مسلم حکمرانوں کی کانوں نہیں گھونجتی۔نہیں بلکہ یہ سب کچھ تو مسلم حکمرانوں کے سامنے یہودی اور عیسائی کررہے ہیں انکو تو اس سے کوئی غرض نہیں ہیں
انکو تو ان کے حصے کی مرغوب غذائیں مل رہی ہیں. یورپ اور امریکہ کے پرتعیش ہوٹلوں میں رہائش
کیساتھ شباب وکباب مل رہا ہے.
دنیا جنکےقبضے میں ہونی چاہیئے تھی آج وہ دنیا کے قبضے میں ہو گئےاور اس کمینے تیتر کی طرح
اپنا ماضی بھلا بھیٹے۔جو لوگ انکے غلام ہوئے چاہیئے تھے آج یہ انکے غلام بن گئے.
یہ سب صورتحال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور سامنے درخت پر بیٹھے دو تیتروں سے کہتا ہوں
آ تیتر مل کے کریں آہ و زاریاں
 
Muhammad junaid
About the Author: Muhammad junaid Read More Articles by Muhammad junaid: 5 Articles with 5125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.