مردہ ضمیر تماش بین اور انسانی کھال پہنے وحشی درندے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جب معاشرہ بے حس، قانون خاموش اور قوم تماشائی بن جائے۔ ۔ ۔ ۔

گزشتہ کئی دنوں سے ذہن ماؤف اور خیالات منتشر ہیں، دل و دماغ میں سناٹا طاری ہے، لفظ، الفاظ کی شکل اختیار کرنے اور صفحہ قرطاس پر بکھرنے سے گریزاں ہیں، سوچ کی وادیوں میں ویرانی چھائی ہوئی ہے، تخیل کے درخت کو مایوسی کی آکاس بیل نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور خیالات کے بہتے دریا سوکھے ہوئے ہیں، طبعیت کے اضحلال نے ذہنی سکون و یکسوئی غائب کردی ہے، جونہی قلم پکڑتے ہیں، آنکھوں کے سامنے وہی درندگی، شقاوت، حیوانیت، سنگدلی اور سفاکی سے لبریز وحشت و بربریت آمیز منظر گھوم جاتے ہیں، جس میں انسانی کھال پہنے وحشی درندے دو نوجوانوں کو لزرہ خیز سفاکی اور وحشیانہ انداز میں ڈنڈوں سے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔

اُن کی نعشوں کی بے حرمتی کررہے ہیں، کھمبے پر الٹا لٹکا رہے ہیں، ٹریکٹر ٹرالی پر سارے شہر میں گھما رہے ہیں اور برف کی بے جان سلوں کی مانند زمین پر پھینک رہے ہیں، یہ سب کچھ دن کی روشنی میں شہر اقبال و فیض میں ایک رواں دواں سڑک کے بیچوں بیچ ہورہا ہے، خوفِ خدا اور جوابدہی و گرفت کے احساس سے بے نیاز قبیلہ قاتلاں سے تعلق رکھنے والے بے حس افراد کا انبوہ کثیر دل لہو اور رونگٹے کھڑے کردینے والے اِس خونی منظر کو دیکھتا ہے، لطف اندوز ہوتا ہے اور چپ چاپ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتا ہے۔

حیرت ہے کہ کسی کے دل میں خوف ِخدا کا احساس پیدا نہیں ہوا، کسی کے سینے میں درد نے انگڑائی نہیں لی، کسی ایک نے بھی آگے بڑھ کر ظالموں کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش نہیں کی، وردیوں میں ملبوس، سروں پر ٹوپیاں سجائے، سینے اور شولڈروں پر بیج لگائے اور ہاتھوں میں ہتھیار پکڑے سرکاری اہلکاروں سمیت، بچے، بوڑھے، جوان اور ادھیڑ عمر باریش افراد پر مشتمل مردہ ضمیر تماش بینوں کا ہجوم لہو میں لت پت، دو تڑپتے اور بے بس نوجوانوں کو ایک کے بعد ایک خونی درندوں کی بہیمانہ درندگی و تشدد کا خاموشی سے نشانہ بنتے دیکھتا رہا۔

اِس واقعہ کو کئی دن گزر گئے، لیکن طبعیت پر مرتب ہونے والے اثرات آج تک کم نہ ہوسکے، بارہا چاہا کہ بھول جائیں مگر ہر بار یہ واقعہ اپنی پوری سنگینی کے ساتھ سامنے آکھڑا ہوا، وہی رونگٹے کھڑے کردینے اور دہلا دینے والے مناظر چار سو نظر آتے ہیں، آج کئی دن گزرنے کے بعد بھی ہم اِس موضوع پر لکھتے ہوئے خزاں رسید ہ پتے کی طرح کانپ رہے ہیں، چاہتے ہیں کہ اپنے دکھ، تکلیف اور کربناک احساس میں آپ کو بھی شریک کریں، لیکن ہماری بے بسی یہ ہے کہ الفاظ ہمارا ساتھ نہیں دے رہے، لغت میں ہمیں کوئی لفظ ایسا نہیں مل رہا جو اِس دکھ کا بو جھ اٹھا سکے۔

اِس اندوہناک واقعے کی مکمل وضاحت و احاطہ کرسکے اور اِس فعل قبیح کی سنگینی کو سندو جواز فراہم کرسکے، یا الہٰی کیا کریں....الفاظ وضاحت سے عاری ہیں .... لغت معنی و مفہوم فراہم کرنے سے عاجز و مجبور ہے....شقاوت،درندگی، حیوانیت، اور سفاکی جیسے الفاظ بھی اِس فعل کی سنگینی کے سامنے ہمیں حقیر اور بونے لگتے ہیں.... اور ہم جو لفظ بھی چنتے ہیں وہ بے مائیگی، بے بسی اور شرمندگی کی تصویر بن جاتا ہے۔

ایک اسلامی معاشرہ تو بہت دور کی بات ہے، کسی نام نہاد انسانی معاشرے میں بھی اِس انداز کی انسان کشی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، جس طرح سیالکوٹ پولیس کی موجودگی میں انیس سالہ حافظ مغیث اور پندرہ سالہ محمد منیب کے ساتھ ہوا، ہم اِس ظلم و بربریت کی تفصیلات میں جانا نہیں چاہتے کہ یقیناً آپ اِس سے بخوبی واقف ہیں، لیکن اتنا ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ لوگوں کا یوں قانون ہاتھ میں لے لینا کسی مہذب معاشرے کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے اور قانون کے محافظوں کا تماشہ دیکھتے رہنا سب سے بڑا جرم عظیم ہے۔

اِس درندگی کی ویڈیو فلم اگر ٹی وی چینلوں سے جاری نہ ہوتی اور عدالت عظمیٰ از خود نوٹس لے کر حکومت پنجاب اور پولیس کو کارروائی کا حکم نہ دیتی توشاید اِس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمات بھی درج نہ ہوتے، سوال یہ ہے کہ ہر بار عدالت عظمیٰ کو ہی نوٹس کیوں لینا پڑتا ہے اور اُسے ہی کیوں اپنی درد مندی اور دل سوزی کا اظہار کرنا پڑتا ہے، حکومت اور حکومتی ادارے کیا کرتے اور کہاں سوئے رہتے ہیں۔؟

یہ حقیقت ہے کہ ایک معاشرہ اپنے یہاں بسنے والے افراد کے ربط وضبط، میل جول اور باہمی تعلقات کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے، تحمل، برداشت، رواداری کی اقدار افراد میں بہترین تعلقات کار کی پرورش کرتی ہیں، جن معاشروں میں حقیقی جمہوریت کا کلچر موجود ہو وہاں جمہور کی قوت مثبت مقاصد کیلئے روبہ عمل آتی ہے اور ایسے معاشرے کا کوئی فرد، افراد یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، لیکن جن معاشروں میں فکرو عمل کے تضاد کا چلن عام ہو، جہاں گُن تو اعلیٰ اقدار کے گائے جائیں، جہاں دعوے تو قانون و انصاف کی حکمرانی کے کئے جائیں۔

مگر عملی طور پر معاملہ اِس کے برعکس ہو، جہاں ایک محدود بااثر اقلیت ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہو اور غریب عوام کی اکثریت ایک وقت کی روٹی کو ترس رہی ہو، جہاں مایوسیوں کے ڈیرے ہوں اور خودکشیوں کا راج ہو، اُن معاشروں کے افراد کو ذہنی انتشار اور فکری انارکی پرتشدد راستوں کی طرف لے جاتی ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی ہنگامی و ہیجانی کیفیت میں قانون کو ہاتھ میں لے لینا ایک معمول بن جاتا ہے۔

مگر اِس تناظر میں ظلم و بربریت، وحشت و درندگی، اور لاقانونیت کو بے لگام نہیں چھوڑا جاسکتا اور نہ ہی اِسے سند جواز عطا کی جاسکتی ہے، یوں تو معاشرتی اور سماجی ارتقاء کی تاریخ اچھے،برے، نیک و بد اور ظالم و مظلوم کے مابین کشمکش اور تضاد سے بھری پڑی ہے، مگر معاشرے میں نیکی، بھلائی، امن و سلامتی اور خیر خواہی کی اقدار کی علمبردار قوتیں ہمیشہ سرگرم عمل رہتی ہیں۔

اور انہی قوتوں کے فیضان سے بد ترین حالات میں بھی معاشرے کی اکثریت بھلائی اور بہتری کی فضا کو قائم رکھتی ہے جس کی وجہ سے قانون کے احترام کیلئے مثبت دباؤ کی کیفیت برقرار رہتی ہے اور بدقماش عناصر کے کرد گھیرا تنگ رہتا ہے، لیکن اِس کے باوجود جب کسی مقام پر لاقانونیت، ظلم و بربریت اور سفاکی کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے تو اُس کی بڑی وجہ انتظامی شعبوں کی مجرمانہ غفلت ہوتی ہے، سانحہ سیالکوٹ بھی انتظامی اداروں کی اِسی مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ ہے۔

ہمارا ماننا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سربرستی اور لاقانونیت کے راج نے ہجوم کو ایسا وحشی درندہ بنا دیا ہے جو محض ایک اشارے پر کسی تحقیق و تفتیش کے بغیر دو بے گناہ نوجوانوں کو ڈنڈوں، لاٹھیوں اور پھاوڑوں سے مار مار کر ہلاک کردیتا ہے،قارئین محترم یہ ایک ایسا کربناک سانحہ ہے جس میں مجرموں کے ساتھ عوام اور پولیس بھی شامل ہے، منیب اور مغیث کو بے رحمی سے قتل کرنے والوں کا ایک جرم تو بہت واضح ہے کہ انہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا۔

مگر پولیس کا جرم یہ ہے کہ اس نے اپنے فرائض سے غفلت برتے ہوئے اپنی موجودگی میں دونوں نوجوانوں کو وحشیانہ درندگی کا نشانہ بننے دیا، جو کہ قابل تعزیر اور ہماری نظر میں ناقابل معافی جرم ہے، رہے وہ تماشائی جو اِس سفاکانہ منظر کو دیکھ کر خاموش تماشائی بنے رہے اور اِس مکروہ واردات سے لطف اٹھاتے رہے، قاتل نہیں تو شامل قتل اور قتل عمد کے مرتکب ضرور ہیں اور ہماری رائے میں اُن پر بھی اعانت مجرمانہ کا مقدمہ درج ہونا چاہیے اور انہیں بھی قرار واقعی سزا ملنا چاہیے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ سانحہ سیالکوٹ نے بڑے بڑوں لوگوں کی زبانیں گنگ اور سوچ کے دھارے منجمد کردیئے ہیں، شقاوت، سفاکی اور سنگدلی جیسے تمام الفاظ اِس کے سامنے ہیچ قرار پاتے ہیں، ہماری نظر میں اِس واقعے کی اصل ملزم پولیس اور سب سے بڑھ کر خود ریاست ہے، جب ریاست خود مجرم بن جائے تو وہ مجرموں کے خلاف کاروائی کیسے ہوسکتی ہے، سانحہ سیالکوٹ جس انداز میں سرعام پیش آیا ہے، وہ اِس بات کی علامت ہے کہ اِس علاقے کی پولیس اور جرائم پیشہ طبقات کو کسی کے احتساب کا کوئی خوف نہیں ہے۔

زبانی کلامی قانون کے نفاذ کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں، لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ اِن دعوؤں کی سب سے زیادہ خلاف ورزی خود حکومت اور اُس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے کرتے ہیں، بدقسمتی سے پاکستان میں ایسی کوئی قوت موجود نہیں جو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاقانونیت کا احتساب کرسکے۔

اگر یہی حال رہا تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاقانونیت ملک کو انتشار اور انارکی کی طرف لے جائے گی اور یہ معاشرہ، معاشرہ نہیں بلکہ ایسے جنگل میں تبدیل ہو جائیگا، جس میں حیوانوں کی حکمرانی اور درندوں کا راج ہوگا، یاد رکھیں، جب معاشرہ بے حس ہوجاتا ہے، قانون خاموش ہوجاتا ہے اور قوم مہربہ لب تماشائی بن جاتی ہے تو ایسے معاشروں کے مقدر میں ذلت و رسوائی انحطاط اور تنزلی لکھ دی جاتی ہے اور ایسی حالت میں اُس معاشرے پر عذاب الہٰی کا نازل ہونا تعجب خیز نہیں ہوتا۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 316213 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More