سیلاب میں گھری قوم کو چارہ سازانِ سیاست سے گلہ

آج پاکستانی قوم سیلاب کی تباہ کاریوں سے جس آزمائش اور امتحان سے دوچار ہے اِسے ایسی آزمائش اور امتحان سے واسطہ کبھی نہیں پڑا مگر اِس کے باوجود بھی یہ امر قابلِ ستائش ہے کہ یہ قوم اپنے بلند حوصلے اور ہمت سے جس طرح اِس آزمائش اور امتحان سے گزر رہی ہے اِس کی مثال بھی صدیوں تک دی جاتی رہے گی تو اُدھر ہی اِس پریشان کن صورت حال میں جب یہ ہی پاکستانی قوم اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں اور رہنماؤں کی طرف دیکھتی ہے تو بقول شاعر بشیر فاروقی قوم چلا اٹھتی ہے کہ:-
چارہ سازانِ سیاست سے گلہ ہے تو یہی
وقت کے ساتھ یہ ظالم بھی بدل جاتے ہیں
ذکر ہودرد کے ماروں کا تو رہتے ہیں خموشی
تذکرہ گر ہو وزارت کا مچل جاتے ہیں

اور جب ایسے میں اہلِ دانش حکمرانوں اور سیاستدانوں کی رہنمانی کرتے ہیں تو اِنہیں اہلِ دانش کا وجود زہر لگنے لگتا ہے اور وہ اِنہیں سیاسی اداکار اور نوٹنکی باز کہہ کر اِن کی کھلم کھلا تضحیک کرکے اپنی تسکین کرتے نہیں تھکتے تو ایسے میں سیلاب میں پھنسی عوام کے زحموں کا مداوا کرنے کے بجائے میڈیا پر اپنے بڑے بڑے دعوے اور وعدے کر کے چلے جانے والے اِن ہی بے حس اور عیار ومکار حکمرانوں، سیاستدانوں اور رہنماؤں کو سمجھاتے ہوئے شاعر کہتا ہے :-
دھواں جو اُٹھ رہا ہے آج مظلوموں کے سینے سے
وہ طوفان بلا گر بن گیا تو کون روکے گا
اگر دانشورانِ ملک و ملت ہی نہ ٹوکیں گے
بتاؤ حاکمانِ وقت کو پھر کون ٹوکے گا

میراخیال یہ ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب سارا پاکستان ہی سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے تاریخ کے انتہائی بدترین نقصانات سے دوچار ہے تو ایسے میں پریشان حال عوام سے کہیں زیادہ قومی خزانے سے عیاشیاں کرنے والے حکمرانوں، سیاستدانوں، وزرائے مملکت اور مذہبی و سیاسی رہنماؤں کو بھی اپنے اندر برداشت اور صبر وتحمل کا مادہ پیدا کرنا ہوگا اور سیلاب سے پریشان حال عوام کی جانب سے اپنے اُوپر ہونے والی تنقیدوں اور دیگر ناگوار الفاظ اور جملوں کو سُن کر بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا ہوگا ورنہ وہی ہوگا جو عوام چاہتے ہیں اور عوام یہ چاہتے ہیں کہ اگر عوامی تنقیدوں کے الٹ حکمرانںو اور سیاستدانوں نے طاقت کا استعمال کیا تو وہی کچھ ہوگا جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملک کے طول ارض میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کردی جائے اور حکمرانوں اور سیاستدانوں کا بوریا بستر گول کر دیا جائے۔

اگرچہ یہ وہ کھلی حقیقت ہے کہ جِسے دنیا تسلیم کرچکی ہے کہ28 جولائی سے ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آنے والے پاکستان کی تاریخ کے انتہائی بدترین سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے اِس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی جس سے اقوام متحدہ کی رپورٹ اور اَب تک ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں تو اُدھر ہی حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اِس ہولناک سیلاب میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت آتی جارہی ہے اور جیسے جیسے اِس کا رخ بحرہ عرب کی جانب ہوتا جارہا ہے اِس سے مزید ہونے والی تباہ کاریوں کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں اگرچہ صدی کا یہ خطرناک ترین سیلاب اِن دنوں سندھ میں اپنی تباہی پھیلا رہا ہے اور جب تک یہ مکمل طور پر بحرہ عرب میں گر نہیں جاتا اِس سے مزید ہونے والی تباہ کاریوں کے خدشات کو کسی بھی صُورت میں رد نہیں کیا جاسکتا اَب تک کی اطلاعات کے مطابق سندھ کو سیلاب سے40ارب کا نقصان ہوا ہے جبکہ گھڑی فصلوں کی تباہی اور انسانی جانوں کی ہلاکیتں اِس کے علاوہ ہیں۔

اُدھر یہ امر یقیناً پریشان حال سیلاب زدگان کے لئے اُمید افزا ہے کہ بین الاقوامی تعاون انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد اور کرائسز رسپانس کے لئے یورپین کیمشن کی کمشنر کرسنالیناجارجیوا نے پاکستان کے سیلاب زدگان کے لئے ہنگامی ریلیف امداد میں مزید 30ملین یورو کا اعلان کردیا ہے جس سے خبر کے مطابق کمیشن کی طرف سے سیلاب متاثرین کے لئے مختص کئے گئے کل فنڈز70ملین یورو تک پہنچ گئے ہیں۔ تو اِس کے ساتھ ہی گزشتہ دنوں ایوانِ صدر میں صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں ہونے والے اپنی نوعیت کے ایک انتہائی اہم ترین اجلاس میں ملک میں صدی کے آنے والے تباہ کن سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہنگامی بنیادوں پر سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی فہرست تیار کی جائے اور سیلاب سے متاثرہ فی خاندان کو 20 ہزار روپے دیئے جائیں اِس سلسلے میں فوری طور پر سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو 5ہزار روپے کی پہلی قسط دینے کا فوری فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

جبکہ حکومت کی جانب سے ملک میں آنے والے اپنی نوعیت کے انتہائی تباہ کن سیلاب سے پیدا ہونے والی صُورت حال کے حوالے سے ملکی اخبارات اور سرکاری ونجی ٹی وی چینلز پر آنے والی اطلاعات سے ہر سیکنڈ بعد عوام پر یہ تاثر دینے کی کوششیں کی جارہی ہے کہ حکومت متاثرین سیلاب کی مدد کے لئے ہر ممکن اقدامات کررہی ہے مگر اِس قسم کی حکومتی زبانی کلامی کا پول تو اُس وقت کھلا جب خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اپنے جذباتی انداز سے اِس بات کا والہانہ انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب زدگان کی ریلیف کی مد میں نقدی کی شکل میں اب تک ایک ڈالر بھی موصول نہیں ہوا ہے اِس منظر اور پس منظر میں کیا ایک عام آدمی یہ نہیں سمجھے گا کہ حکومت کے قول اور فعل میں کتنا تضاد ہے یہ میڈیا پر کچھ کہتی ہے حقائق اِس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں کہیں حکومت کا یہ دوغلہ پن اِسے لے نہ ڈوبے ۔(ختم شد)
 
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 893137 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.