میرا ایک دوست چین سے آرہا تھا۔ لاہور
ائیرپورٹ پہنچے تو اپنا سامان کا انتظار کر رہا تھا۔ جب اپنا بیگ وصول کیا۔
تو دیکھا کہ بیگ کھولا ہوا ہے ۔ تو اس میں سے ایک پاور بنک غائب تھا۔ بے
چارہ کیا کرتا، کس کا گریباں پکڑتا، رات کے تین بجے تھے، تو سیدھا میرے ہاں
پہنچا۔ بخار بھی چڑھا ہوا تھا۔ خیر رات گزاری ۔ تو صبح ناشتہ کے بعد ایک
دوست نے مشورہ دیا۔ کہ اسکو میوں ہسپتال لے جاؤ۔ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ
گیٹ پر سکورٹی والے بیٹھ کے اپنے گپ شپے لگا رہے تھے ۔ تلاشی وغیرہ تو کچھ
بھی نہیں ہوا اور گیٹ کے باہر گاڑیاں اور موٹرسائیکل وغیرہ کھڑے تھے جو
مکمل طور پر راستہ بند کیا ہوا تھا اور گنڈ کا تو ڈیر لگا ہوا تھا۔ اندر
ریڑھی والے ، ٹانگے والے بھی داخل ہوتے، خیر ہم آگے پہنچے تو نہ کوئی
استقبالیہ، نہ کوئی انفارمشن بورڈ، کچھ بھی نہیں تھا۔ ایک بندے سے پوچھا کہ
یہ میڈیکل او پی ڈی کہںا ہے اور پرچی کہاں سے بنائے ، تو جب پرچی کی جگہ
پہنچے تو وہاں پر ایک بندہ بیھٹا ہوا تھا، اور رش کا پوچھوں مت، آدھا گھنٹہ
تو پرچی بنانے میں ضائع ہوا اور آگے ہی اشارہ کیا کہ روم نمبر ۲۳ جائے ۔
سرکاری ڈاکٹرز ویسے بھی زیادہ پوچھتے نہیں ہے ، بس دو منٹ میں ہی فارغ کیا۔
اس طرح ہم دوائی لینے گئے ، تومیڈسن والوں نے ایک ایک بندہ رکھا ہے۔ کہ جن
مریضوں کے ہاتھ میں پرچی ہو تو پکڑ کر لا دو۔ہم کو کوئی ادھرتو کوئی اٰدھر
سے پکڑ رہےتھے ، ایسا لگ رہاتھا کہ یہ رکشے والے ڈرائیورز ہیں، سواری کو
بیٹھا رہے ہیں یا پشاور میں جیسے ہوٹل والے ہوتے ہو کہ ادھر کھانا کھاوٗ ۔
تو اخر ایک دوکان پر گئے تو وہاں بھی اتنی رش تھی، وہاں بھی آدھا گھنٹہ لگا
اور ایک پٹھان سے ملاقات بھی ہوئی ۔ بیٹے کے آپریشن کئلے آیا تھا اور کہہ
رہا تھا کہ یہ میرا چھٹی مرتبہ ہے کہ میرا آپریشن نہیں ہو رہا،کبھی ایک
تاریخ دے رہے ہیں اور کبھی دوسری، اسطرح کئی لوگوں سے رائے لی اور کہہ رہے
تھے ۔کہ یہاں پے کوئی سہولیات نہیں ہیں بس غریب لوگ ہیں کہاں جائیں۔ اللہ
ہماری حال پے رحم کریں ۔ٓامین |