خطباتِ شبلی کی دانش ورانہ جہت

شبلی نعمانی کی ادبی اور علمی حیثیت کے متعدد پہلو ہیں اور ہر شعبے میں ان کے کارناموں کی ایک طویل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے۔ نقاد ، محقّق، عالمِ دین، ماہرِ تعلیم اور ادارہ ساز کے طور پر انھیں پہچاننے کے لیے ہزاروں صفحات وقف کیے گئے ہیں۔ ان کی کتابوں کی طویل فہرست میں ایک مختصر سی کتاب ’خطباتِ شبلی ‘ کے عنوان سے موجود ہے جس میں چھوٹے بڑے سولہ خطبات شامل ہیں۔ ان میں سے چند ایک اور دو صفحے پر بھی مشتمل ہیں۔ ان خطبات کی ترتیب کے مراحل میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ بعض تقریریں رفقا اور اخبار نویسوں یا مختصر نویسوں کی کوششوں سے محفوظ ہوئے۔ اس وجہ سے تمام خطبات کی زبان کے بارے میں صد فی صد یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ ان خطبوں میں جو لفظ پیش کیے گئے ہیں، وہ صد فی صد شبلی کے ہی ہیں بلکہ ایسے امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ مختصر نویسوں یا رفقا نے اپنی جانب سے دو چار لفظ بدل دیے ہوں یا اس سے زیادہ کمی بیشی ہوگئی ہو۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ شبلی تحریری خطبات کے نظام میں خود کو نہیں ڈھالتے تھے جس کی وجہ سے فی البدیہہ گفتگو ہوتی تھی اور آج سے سو سوا سو برس پہلے کی ٹکنالوجی کو سامنے رکھیں تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ ایسے خطبات کی ہو بہ ہو حفاظت بہت مشکل کام تھا۔
شبلی صرف تحریر کے مردِ میداں نہیں تھے۔ عوامی اور خصوصی خطابات کا ایک سلسلہ علی گڑھ ، لکھنؤ سے لے کر حیدرآباد تک پھیلا ہوا تھا۔ تدریس اور ادارہ سازی کی بڑی ذمہ داریاں بھی انھوں نے سنبھال رکھی تھیں۔ تحریر اور تقریر دونوں میں یکساں قدرت رکھنے کی وجہ سے بھی انھیں اس بات کی ضرورت نہ رہی ہو کہ وہ اپنے خطابات کے لیے متن تیار کریں۔ذہنی سانچہ ایسا نظم و ضبط کا حامل تھا جس سے وہ خطابات میں موقع و محل کے مطابق سلسلے واراندازسے گفتگو کرسکتے تھے۔ شبلی کی حیات پر نظر ڈالیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کی زندگی میں انتشار کی کیفیت قائم رہی۔ علی گڑھ، حیدرآباد، لکھنؤ اور اعظم گڑھ؛جن چار شہروں میں انھوں نے اپنی عملی زندگی کے اوقات گزارے، اس کے علاوہ ملک کے گوشے گوشے میں انھیں سفر کرنے پڑے اور چاہنے والی قوم انھیں کچھ اس طرح سے پسند کرتی تھی کہ ایک جگہ زیادہ بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ان کے مجموعہ ہاے خطوط اور سید سلیمان ندوی کی ’حیاتِ شبلی‘ سے اس انتشار کی کیفیت کا بہ خوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ آخر آخر وقت تک شبلی نے تصنیف و تالیف ، تدریس اور ادارہ سازی کے کاموں میں سے کسی ذمے داری سے خودکو الگ نہیں کیا۔ زندگی کے اس طَور کے سبب بھی ان کے خطبات کم سے کم محفوظ رہ سکے اور ان کا ایک بڑا حصّہ لازماََ ضائع ہواہوگاہمارا اندازہ ہے کہ اس سے دوگنی ضخامت کے خطبات ہم محفوظ نہ کرسکے اور اب شبلی کے خطبات کے مختصر متن پر ہی اکتفا کرنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔
شبلی کی علمی اور عملی دلچسپیاں گونا گوں رہیں۔ شاید اسی لیے ان کے ناقدین ان کی شخصیت میں اجتماعِ ضدّین تلاش کرتے ہیں اور عقیدت مند انھیں مسلمانوں میں پیدا ہونے والا یونانی قرار دیتے ہیں۔ شبلی مدرسۂ علی گڑھ کے ابتدائی تربیت یافتگان میں سے ایک ہیں ، اس لیے ان کے ذہن میں کسی بھی کام کو قومی سطح پر کرنے کی خواہش دکھائی دیتی ہے۔ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں کے وہ قائل نہیں اور ہر کام کے مقاصد اور دائرۂ کار پہلے ہی واضح ہوجائیں ، اس بات کے لیے وہ کوشاں تھے۔ اسی ذہن نے ان میں غور و فکر کا مادہ پیوست کیا تھا اور اسی وجہ سے وہ علی گڑھ اور ندوہ کے حلقے تک پہنچے اور ایک خاص موڑ پر ان اداروں سے الگ بھی ہوئے۔ کہنا چاہیے کہ شبلی کے ذہن میں ملکی حالات اور قوم کی ضرورت کے مطابق نظامِ تعلیم اور سیاست و سماج کے امور سے متعلق بہت سارے سوالات تھے جن کے جواب کی تلاش میں ہی وہ ایک ادارے سے دوسرے ادارے تک پہنچے اور پھر نامرادانہ دارالمصنفین کے قیام کی آخری کوششوں تک زندگی کے آخری لمحے تک سرگرداں رہے۔ خطباتِ شبلی اس اعتبار سے ایک بھرپور دستاویز ہے کیوں کہ شبلی کے ذہن میں جو خاص امور پَل اور بڑھ رہے تھے، ان کا نچوڑ اور ان کی حتمی رائے یہاں ہم ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ شبلی کے خطوط میں بھی ملک کے بدلتے حالات اور شبلی کی زندگی کے نشیب و فراز سلسلے وار ڈھنگ سے سامنے آجاتے ہیں لیکن خطوط کا یہ فطری عیب ہے کہ اُن آرا میں فوری تاثر اور اس کے نتیجے میں شدّت پسندی کے عناصر شامل ہوجاتے ہیں لیکن خطبات کا یہ اپنا طَور ہے کہ مقرر اپنے خصوصی غور و فکر اور تمام عمر کے مطالعے کا نچوڑ وسیع تناظر میں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے۔ جب مخاطبین ہزاروں اور لاکھوں میں ہوں، اس وقت مقرر کی ذمّہ داری اور دائرۂ کار کی وسعت میں اضافہ ہونا لازم ہے۔
ندوۃ العلما سے شبلی کی علاحدگی کے اسباب و علل پر غور کرتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کسی ادارے میں کسی کا شامل ہونا یا اس سے علاحدہ ہونا جیسا کوئی میکانکی عمل نہیں تھا۔علی گڑھ کے تعلیمی تجربے کے بعد شبلی ندوۃ العلما تک پہنچے تھے۔ ابتدائی عہد سے ہی شبلی چند معاملات میں سرسید کے تعلیمی اور قومی نظریات سے اختلافات رکھتے تھے۔ ندوہ کے نصاب اور طرزِ تعلیم میں وہ انقلاب آفریں تبدیلیوں کاخواہاں تھے ۔ وہ مدارسِ اسلامیہ کو ملک کی تعلیمی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے نئے تعلیمی اسلحوں سے لیس کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ علی گڑھ اور ندوہ کے ساتھ ساتھ وہ پورے ملک کے نظامِ تعلیم میں واضح تبدیلیاں لانا چاہتے تھے۔ ان کے خطوط میں نئی تعلیم کے انتظامات میں ندوہ میں ہو رہی کوتاہیوں پر باربار غم و غصے کا اظہار ملتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ندوہ میں اسلامی تعلیم کا جوخواب وہ قوم کے لیے مثالی حیثیت سے پیش کرنا چاہتے تھے، اسے خود اس ادارے کے بعض ارکان نے پورے طور پر کبھی زمین پر اترنے نہ دیا اور مختلف اسباب کے دباو میں شبلی کے لیے بھی یہی مناسب معلوم ہوا کہ وہ ندوہ کی تجربہ گاہ سے الگ ہوجائیں ۔ یہ علا حدہ بات ہے کہ شبلی نے اسی دوران دارالمصنّفین کا خاکہ تیار کیا اور اعظم گڑھ میں اسے قائم کرنے کی مہم میں موت تک شامل رہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ دارالمصنّفین کے اغراض و مقاصد ہرگز ہرگز وہ نہیں تھے جن مقاصد سے مدرسۂ علی گڑھ اور ندوۃ العلما کا قیام ہوا تھا۔
خطباتِ شبلی کے دو خاص امور ہیں : تعلیم اور مذہب ۔ غور سے دیکھنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں نوے فی صدی تعلیم ہی مرکز میں ہے اور مذہبی معاملات میں بھی زیادہ غور و فکر تعلیم کے شعبے میں ہورہی ہے۔ شبلی کو ایک بڑا حلقہ روایتی معنوں میں شاید ماہرِ تعلیم نہیں مانتا ہومگر سرسید کے حلقۂ ارادت میں شاید ہی کوئی ایسا رفیق ہوجس نے تعلیم کو اپنی زندگی کے مرکز میں نہ رکھ لیا ہو۔ خطبات میں شامل نوشتہ جات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شبلی کی زندگی میں تعلیم کے سوالات کس قدر بنیادی اہمیت کے حامل رہے ہوں گے۔ اصحابِ ندوہ سے اختلافات میں تصورِ تعلیم اور نظامِ تعلیم کے سوالات سب سے زیادہ زیرِ بحث تھے۔ اپنے ملک ہی نہیں ،ملک کے باہرکے اسلامی اداروں میں جس طرح کی تعلیم کا رواج تھا، اس کے وہ بڑے واقف کار تھے۔ عربی طریقۂ تدریس کی حدود سے بھی وہ آشنا تھے ۔ علی گڑھ کے زمانے میں وہ نئی تعلیم کے تصورات اور اندازِ فکر سے بہرہ ور ہو چکے تھے۔ اسی لیے وہ تعلیم کے امور پر گفتگو کرتے ہوئے گہرائی کے ساتھ چیزوں کا جائزہ لیتے ہیں اور اچھے برے پہلوؤں کا سختی سے محاسبہ کرتے ہیں۔ گذشتہ اور آیندہ کے رشتوں کی ڈور اُن کے ہاتھ میں مضبوطی سے لگی ہوتی ہے۔ ’خطباتِ شبلی‘ انھی وجوہات سے شبلی کے تعلیم اور قوم کے صیغے میں دانش کا مغز ہے۔ چند صفحات میں جو خطبات پیش کیے گئے ہیں ، ان کی تعبیر و تشریح میں سینکڑوں صفحات رقم کیے جاسکتے ہیں۔ یہ ایک اچھا اتفاق ہے کہ ’خطباتِ شبلی‘میں جو تفصیلی خطبات ہیں وہ شبلی کے آخری دور سے تعلق رکھتے ہیں جب یہ مانا جاسکتا ہے کہ شبلی ذہن و فکر سے اس بلند مرتبے پر فائز ہوچکے ہیں جہاں سے قوم کے مسائل کو صرف سمجھا نہیں جاسکتا بلکہ اس کی چارہ گری کے اسباق بھی متعین کیے جاسکتے ہیں۔
شبلی تقلید کے بجاے تحقیق کے قایل تھے ۔ وہ مسلمانوں کی تعلیمی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے بہت صاف گوئی سے یہ بات کہتے ہیں کہ ہم نے فلسفی کے بجائے فلسفہ کے شارحین پیدا کیے ۔ وہ یورپیوں کی اس بات کہ فارابی، بو علی سینا اور ابنِ رشد وغیرہ علم کے موجد نہیں بلکہ ارسطو کے ذخیرے سے استفادہ کرنے والے افراد ہیں، اس پر رائے پیش کرتے ہوئے اپنے نظامِ تعلیم کے نقا ئص پر توجہ کرتے ہیں۔ ۱۸۹۱ء کے اس خطبے میں ان کا کہنا ہے کہ اسلامی علوم وفلسفہ کی تاریخی ترتیب اس وجہ سے بھی ضروری ہے تاکہ اہالیانِ یورپ کے نتائج سے حسبِ حقیقت اختلاف کیا جا سکے۔ اس بحث میں شبلی غیر جذباتی طور پر موجود احوال کا جائزہ لیتے ہیں اور یورپیوں کے نتائج سے جزوی اختلاف کرتے ہوئے یہ حقیقت واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے علوم کی بہت ساری کتا بوں سے بالخصوص اہلِ عرب کے علمی اکتسابات سے ان کے ہاں ایک بے خبری ہے اور یورپ والوں نے مسلمانوں کی بہت ساری اہم کتابوں کو سرے سے پڑھا ہی نہیں۔ ان حالات میں وہ خوش اعتقادی میں مبتلا رہنے کے بجاے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری قوم سے چند ایسے افراد آگے آئیں جو یورپ اور ایشیائی علوم کا مطالعہ کرکے ہمیں حقیقی نتائج تک پہنچانے میں مدد کرسکتے ہوں۔ شبلی کا یہ انداز حقائق کو اپنے طور پر سنجیدگی سے سمجھنے کا ہے۔اسلامی نظامِ تعلیم کا جائزہ لیتے ہوئے وہ اسی لیے تحقیق پر زور دینے کی وکالت کرتے ہیں اور تقلید سے دوری کی راہ کو مناسب سمجھتے ہیں۔
ایجوکیشنل کانفرنس کی سالا نہ نشست ۱۸۹۱ء میں شبلی اپنی تقریر میں یہ بات کہتے ہیں کہ ہمارے لیے سب سے ضروری کام یہ ہے کہ ہم لوگوں میں قومی مذاق پیدا کریں۔مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی خدمات یا افادیت پر غور کرتے ہوئے جس قومی مذاق کی شبلی نے ضرورت واضح کی ہے، اس کی صراحت کرتے ہوئے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ قوم کے نمایندہ افراد قومی کام اور مسائل کے عنوان سے سر جوڑکر بیٹھیں اور تبادلۂ خیالات سے کوئی نئی جہت پیدا کریں۔ عوامی طور پر ایسے اجتماعات کا وہ فائدہ اس طور پر بھی دیکھتے ہیں کہ اپنی قوم کے نامور فرزندوں کو بہ نفسِ نفیس دیکھنے اور سننے کا عوام کوموقع ملتا ہے۔ شبلی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس یا ایسی تنظیموں کو اجتماعی قیادت کے طور پر پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ شبلی کی یہ تقریر حقیقت میں سرسید کے اس قول سے اختلاف میں سامنے آئی تھی کہ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس بے فائدہ اور بے حاصل ہے۔
ندوۃ العلما کے ۱۸۹۴ ء کے اجلاس میں شبلی کا معرکۃ الآرا خطبہ’ قدیم عربی نصاب کے نقائص‘ کے عنوان سے ہوا تھا۔ شبلی کے ذہن میں تعلیم کا ایک واضح خاکہ تھا۔ نئی تعلیم کے ساتھ اسلامی تعلیم کو نئے ماحول میں کس طرح موزوں تر بنایا جائے، یہ شبلی کا عمر بھر خاص ایجنڈا رہا۔ شبلی اس بات سے نالا ں ہیں کہ ہمارے مدارس کے نصابِ تعلیم میں ضروری حد تک تبدیلیوں کا ماحول نہیں ہے۔ کتابیں جو ایک بار درس میں شامل ہو گئیں، انھیں بدلنے اور نئے حالات میں ضرورت کے مطابق نئی چیزوں کی شمولیت کی کوشش نہیں کی جاتی جب کہ عہدِقدیم کے اسلامی تعلیم کے مفکّرین نے ضرورت کے مطابق اضافوں اور اصلاحوں کا سلسلہ قائم رکھاتھا۔ شبلی پوری زندگی نصابِ تعلیم کی بوسیدگی اور اس کے باسی پن سے نالاں رہے اور نئی چیزوں کی شمولیت سے اصحابِ علم کے خوف زدہ رہنے کو نا پسندید گی کی نظر سے دیکھتے تھے۔ مدارسِ اسلامیہ کے تعلیمی نظام پر شبلی نے جو بنیادی اعتراض کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں فن کے بجاے کتاب کی تعلیم ہوتی ہے۔ فن پر توجّہ کم رہنے سے کتابیں پڑھنے اور کلاس پاس کرنے کا رجحان عام ہوا۔ متعدد مثالوں سے شبلی یہ بات گوش گزار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ کتابوں کے ساتھ اس قدر توجہ اور اصل علم یافن کی طرف سے بے رغبتی سے ہم اہلِ کمال پیدا نہیں کرسکتے۔ ان کی سفارش ہے کہ کتاب کو ایک ذریعہ قراردے کراصل فن کی تعلیم کا رواج ہونا چاہیے۔ شبلی نے ایک مثال دیتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کسی طالبِ علم نے جن کتابوں کا مطالعہ کر لیا اور امتحان میں کامیاب بھی ہو گیا لیکن اگر اس سے یہ کہا جائے کہ قرآنِ مجید کے کسی رکوع یا آیت کو اسی طرح اپنے تجزیے اور غوروفکرکا حصّہ بنائے جیسا اس نے حمداﷲ یا قاضی مبارک کے نکات واضح کیے تھے، شبلی کا اندازہ ہے کہ وہ طالبِ علم اس میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ شبلی تعلیم میں اصولی بنیادوں سے پختہ کامی چاہتے ہیں۔ کسی بھی فن کے بنیادی اصول وضوابط کی سنجیدگی سے تدریس نہ ہو تو اس کی بنیاد پر نئے علوم وفنون کی جستجو میں شب وروز قربان کرنے والی نسل آخر کہاں سے سامنے آئے گی؟ شبلی کی فکر مندی اس جہت سے ہے کہ آنے والے دور میں ماہرین کیسے پیداہوں اورموجودہ نظامِ تعلیم کی کج ادائیوں سے انھیں کس طرح محفوظ رکھا جائے؟حقیقت میں شبلی اصول اور اخلاق کے توازن پر بھی اپنی واضح راے دینا ضروری سمجھتے ہیں لیکن وہ ہمیں آگاہ کرتے ہیں کہ اصولیات کی گہری پڑتال کے بغیر معقول اطلاق ناممکن ہے۔ شبلی کا یہ توازن ان کے زمانے کو دیکھتے ہوئے ہمیں حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ہماری یونی ور سٹیوں کا نظامِ تعلیم بھی چار کتابوں کے اختصاص پر زیادہ توجّہ دیتا ہے اور کسی ایک فن میں مہارت کے مواقع عطا کرنے کا محض دکھاوا کرتاہے ۔
شبلی نظامِ تعلیم میں فنون کے ماہرین کیسے پیدا ہوں، اوراس کے لیے اس عہد کے مدارس کی تعلیم کو کسی خاص فن میں اصحابِ اختصاص کو پیدا کرنے کا ادارہ نہیں سمجھتے۔ انھوں نے مسلمانوں کے عہدِ قدیم سے مثال پیش کر کے بتایا ہے کہ ایک یا دوفن میں ہمارے اساتذہ ماہر ہوتے تھے لیکن ان کی گہرائی کا آج کے تعلیمی نظام سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہو سکتا۔ شبلی نے خلیل، امام بخاری اور مسلم وغیرہ کی ایک فن میں مہارت کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ نظامِ تعلیم ایسے ماہرین اور اہلِ کمال شاید ہی پیدا کرسکے۔
مدارس کے نصابِ تعلیم کا جائزہ لیتے ہوئے شبلی نے جو گفتگو کی ہے، وہ آج بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ شبلی نے واضح کیا ہے کہ منطق کے تعلق سے جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، وہ ازکاررفتہ اور نا کافی ہیں۔ جب تک ان میں تبدیلی نہ آئے، اس وقت تک نظامِ تعلیم سے کچھ نیا حاصل کرنا مشکل ہے۔ قدیم علمِ کلام کی تدریس پر بھی شبلی کی تنقید یہ ہے کہ ہماراعلمِ کلام نئے مسائل اورسوالوں کاجب احاطہ ہی نہیں کرتا تو اس پرانے علمِ کلام کو پڑھا کر ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟مدارس کے طریقۂ تعلیم پر شبلی کا سب سے سخت اعتراض یہ ہے کہ یہاں ادب کی تعلیم سے گریز کی ایک باضابطہ مہم قائم ہے۔ ان کا معروضہ ہے کہ جب تک عربی ادب کی مہارت پیدا نہ ہو، کوئی طالبِ علم آخر قرآن کی تدریس کے مکمّل فرائض کس طور پر ادا کرسکتا ہے؟ شبلی نے ایک خیالی مسئلہ پیش کرکے حالات کی سنگینی کا احساس کرانے کی کوشش کی ہے کہ اگر کوئی شخص عہدِ جاہلیہ کا کوئی عمدہ شعر پیش کرے اور اس کے مقابلے میں قرآن کی کوئی آیت سامنے رکھے تو آج کا طالبِ علم دونوں عبارتوں کا جائزہ لے کر کس طور پر یہ ثابت کر سکتا ہے کہ قرآن کی یہ آیت فصاحت وبلاغت کے اوصاف سے معمور ہے جب کہ مذکورہ شعر میں وہ خوبی نہیں۔شبلی نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ موجودہ درس میں عربی ادب ہی نہیں بلکہ قرآن سے بھی بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔ تفسیراور ملحقاتِ تفسیر کے لیے بھی کم سے کم جگہ ہونا اسی بے اعتنائی کی مثال ہے ۔شبلی قرآن کے اسلوب پر گفتگو کرنے کی قدرت مدارسِ اسلامیہ میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کو وہ مذہبی کتاب کے ساتھ ساتھ ایک ادبی شہ پارے کے طور پرغوروفکر کے لیے آزمانے کی وکالت کرتے ہیں جو آج تک شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔
شبلی نے ’مجوزہ دارالعلوم‘ عنوان کے خطبے میں ہندستانی مدارس کے طریقۂ تدریس کی ایک خاص کمی کی طرف اشارہ کیا۔ جن اداروں میں ایک ہی شخص مختلف علوم پڑھائے ، وہاں آسانی سے صاحبِ کمال پیدا نہیں ہوسکتے۔ شبلی مدارسِ اسلامیہ سے عام انداز کے فارغین کی طلب نہیں رکھتے تھے۔ اسی لیے ندوۃ العلما میں ابتدا ہی سے ان کا یہ تصور رہا کہ وہاں اپنے اپنے علوم کے ماہر اساتذہ مقرر کیے جائیں گے اور وہ جس فن میں طاق ہوں ، اسی فن کی تدریس سے طلبا کی استعداد میں اضافہ کریں گے۔ شبلی بار بار دارالاقامہ اورکتب خانے کو دارالعلوم کا بنیادی حصّہ اس لیے بھی مانتے ہیں کہ وہ تعلیم کے ساتھ تربیت اور فراغت کے بعد مزید تحقیق اور مطالعے کے امکانات کو ہمیشہ بنیادی کام سمجھتے ہیں۔ وہ انھی فارغین میں سے مستقبل کے ہوش مند مصنفین کی توقع کرتے ہیں ۔ شبلی کا یہ تصور الگ سے دارالمصنّفین کی شکل میں سامنے آیا جو ندوہ سے علاحدگی کی صورت میں اعظم گڑھ میں قائم ہوسکا۔ دارالاقامہ اور کتب خانے کے فیضان اور رہایشی طریقۂ تعلیم کے اثرات شبلی نے سرسید کے تجربے میں دیکھ لیے تھے۔ وہ تقریباً سولہ برسوں تک اس کا باضابطہ حصّہ رہے۔ شبلی کے ذہن کی اختراعی کیفیت کو دیکھنا ہو تو دارالمصنّفین کے تصوّرات پر غور کرنا چاہیے۔ پورے ملک میں شبلی واحد شخص تھے جو دیگر مصلحین کے ساتھ نئی تعلیم اور نئی قومی زندگی کے خاکے کو نظر میں رکھتے ہوئے قوم سے پیدا ہونے والے نئے مصنفین کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد کس طرح طلبا کو درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کی تربیت دی جائے ؛ اس عہد کو دیکھتے ہوئے اس سے بڑا مستقبل پسند شاید ہی کوئی اور کام کسی دوسری بڑی شخصیت نے انجام دیا ہو!
مہدی افادی نے تو اعلان ہی کر دیا تھا کہ شبلی تاریخ کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ خطباتِ شبلی کے مطالعے کے دوران یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تاریخ کا ذاتی شعور جس طرح شبلی نے فروغ دیا تھا، اس پختگی سے اس میدان کو سر کرنے والا اُس عہد میں شاید ہی کوئی دوسرا موجود ہو۔ وہ صرف تاریخِ اسلام کے رمز شناس نہیں تھے ۔ ہندستان کی تاریخ، عالمی تاریخ، مملکتِ اسلامیہ کی تاریخ ، فارسی اور اردو زبانوں کی تاریخ جیسے الگ الگ دائروں میں انھوں نے اپنے خصوصی مطالعے سے ایک ایسا اختصاص پیدا کرلیا تھا جس کی وجہ سے ان امور کے باہمی تعلق اور تفاوت دونوں پر ان کی گہری نگاہ رہتی تھی۔ ایک خطبے میں عباسیوں کی حکومت کی اس ضمن میں ناکامی واضح کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے چار سو برسوں کی حکومت میں یونانی علوم کو عربی میں منتقل کرنے کا بنیادی کام انجام نہیں دیا جسے بعد میں امام غزالی نے شروع کیا۔ اسی طرح ہندستان میں مسلمانوں کی حکومت پر ان کے سخت جملے کچھ اس طرح ادا ہوئے ہیں:
’’مسلمانوں نے چھے سو سال تک ہندستان پر حکومت کی مگر مسجدوں اور مقبروں کے سوا کوئی یادگار نہیں چھوڑی۔ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ اس عرصۂ دراز میں انھوں نے کوئی عربی درس گاہ ہندستان میں قائم نہیں کی۔‘‘
شبلی نے دارالعلوم ندوہ کے سنگِ بنیاد کے موقعے سے ۱۹۰۸ء میں یہ بات کہی۔ اس عہد تک انگریزوں کا دور دورہ تو تھا لیکن ہندستان میں بادشاہت اورملوکیت کے بارے میں ابھی ایسے خیالات پیش نہیں ہورہے تھے۔ جاگیردارانہ نظام اور سلاطین پرستی سے ابھی نجات نہیں ملی تھی۔جمہوری اقدار کی یہ وہ اعلا سطح تھی جسے مزاج کی سطح پر ہم آج بھی مکمل طور پرحاصل نہیں کرسکے۔ یہ بھی توجہ طلب ہے کہ مسلم حکمرانوں کی بنیادی خامیوں پر انگلی اٹھاتے ہوئے اکثر وبیش تر ہمارا انداز پُر از معذرت ہوتا ہے۔ انگریزوں نے مسلم حکمرانوں کے کاموں کا احتساب تو شروع کیا تھا لیکن حقیقت پسندی پر معاندانہ انداز حاوی تھاجس کے سبب ان کی بعض معقول تنقیدوں پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ شبلی واقعتا اپنے ذہن سے آزاد تھے اور کاینات کے مظاہر کو اپنے علم،فکر اور تصوّر کی بنیاد پر تولنا پسند کرتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے ایک حقیقت پسندانہ رویّہ اپنایا۔
شبلی سرسید سے مختلف تھے لیکن زندگی کے ہر موڑ پر سرسید اور ان کے کاموں سے روشنی حاصل کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ جدید تعلیم اور غیر قوموں کے علم کا اپنے نظامِ تعلیم میں کتنا حصّہ شامل ہو، اس سوال کے جواب میں شبلی سرسید سے کہیں اور آگے بڑھ کر سرگرمِ کار نظر آتے ہیں۔ ندوۃ العلما میں سنسکرت اور انگریزی دونوں زبانوں کی تعلیم عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ اس لیے دی جائے کیوں کہ وہ اپنی قوم سے ایسے افراد منتخب کرنا چاہتے تھے جو ہندستان اور یورپ دونوں جگہوں پر دوسرے مذاہب کے ایسے افرادجو اپنی تحقیقات سے نئے نئے نتائج یا مختلف انداز کی سازشوں کے جال بُن رہے تھے، ان کا کماحقہٗ بطلان کیا جائے۔ منطق اور فلسفے کو رفتہ رفتہ جس طرح یونانیوں سے سیکھ کر مسلمانوں نے اپنا خاص علم بنا لیا، شبلی دوسری جماعتوں کے علوم و فنون پر اسی انداز سے نگاہ رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ امام غزالی کی مثال دیتے ہیں کہ یونانی علوم پر مشقت کے بعد انھوں نے مسلمانوں سے اوّلاً بیس اختلافی مسائل کا اندازہ کیا اور پھر صرف تین ایسے نکات سامنے لائے جن میں مسلمان اور یونانیوں کے خیالات میں بُعدِ مشرقین تھا۔ اس کے بعد انھوں نے ان تینوں معاملات پر اپنے علم سے اس بات کی دلیلیں پیش کیں اور یہ ثابت کیا کہ مسلمانوں کا اعتقاد ہی حق ہے۔ اسی انداز سے وہ دوسری اقوام کے علوم پر توجہ چاہتے ہیں۔ علما کو وہ ان لفظوں میں صلاح دیتے ہیں: ’زمانۂ حال میں بھی علما کو علومِ عربیہ کے ساتھ علومِ غربیہ بھی حاصل کرنا چاہیے اور اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ مذہبی مسائل اور جدید علمی مسائل میں مطابقت ثابت ہوجائے‘‘۔ شبلی کی یہ بھی توقع ہے کہ علما غیروں کے علوم کو اپنے علوم کی طرح بنا لیں تو یہ بہت فائدے کی بات ہوگی۔ نئے علوم اور غیر اقوام کے علوم کو علما جب تک اپنی سرپرستی میں نہیں لیں گے، شبلی کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے قوم میں مخالفت اور نفرت بھی باقی رہے گی۔
شبلی حصولِ علم میں بے تعصبّی کو نصب العین کی طرح مانتے ہیں۔ مسلمانوں کو ان کی تاریخ یاد دلاتے ہیں کہ حصولِ علم اور توسیعِ علم میں منافرت اور تعصّب کی کوئی جگہ نہیں۔ سیکھنے کے شوق کو مسلمانوں نے کس طرح اور کس جتن سے بچایا، اس سلسلے سے شبلی نے ابو ریحان بیرونی کی مثال پیش کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ سنسکرت پڑھنے کے لیے اسی ملک میں اس نے پندرہ برس کی مدّت گزاری۔ ابو ریحان کے قول کو شبلی نے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’اس نے خود لکھا ہے کہ جس فرشِ زمین پر بیٹھا کرتا تھا، اس کو ہندو دھلوا دیتے تھے لیکن علمی شوق کے مقابلے میں سب ذلتیں گوارا کیں‘‘۔شبلی نے ارسطو اور جالینوس کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمانوں نے اپنی درسی کتابوں میں غزالی اور رازی کے ساتھ ان بزرگوں کے نام درج کیے۔ شبلی قدیم عربی نصاب کے نقائص بیان کرتے ہوئے ہندستان میں موجود برادرانہ طَور کو بھی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام میں ایسی کسی شناخت کی گنجایش نہیں اور اونچ نیچ کا تصور پیدا ہی نہیں ہوتا۔ تاریخِ اسلام سے عدم تعصب کی مثالیں تلاش کرکے شبلی نے اسے قومی خرابی قرار دیا ہے اور بے تعصبی کو ہی اسلام کی شناخت اور حقیقی تعلیم تصور کیا ہے۔
’خطباتِ شبلی‘ میں ایک اور نکتہ خاص طور پر قابلِ توجہ ہے کہ مختلف مسالک کے درمیان جو اختلافات ہیں، انھیں کس قدر اہمیت دی جائے؟ ’علما کے فرائض ‘ عنوان سے ۱۸۹۴ء میں شبلی نے جو خطبہ دیا، اس میں اس مسئلے کا تاریخِ اسلام کے تناظر میں جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ سادگی سے یا کسی مخصوص سیاست سے آج کے علما اور سیاست دانوں کی طرح ’ایک دین ، ایک کتاب اور ایک رسول‘ کے اصول پر سب کو کھڑا کرنے کا حکم نامہ جاری نہیں کرتے۔تاریخِ اسلام کے وہ بہترین آشنا ہیں، اس لیے انھیں معلوم ہے کہ عروج و زوال اور ارتقا کے مرحلے میں مسلمانوں نے ضروری اور غیر ضروری فرقہ بندیاں قائم کرلی ہیں ۔ ہندستان میں یہ دنیا کے کسی گوشے سے کم نہیں ہے بلکہ بڑھ کر ہے۔ سب کے پیچھے پڑھے لکھوں کی جماعت اور علما کا بڑا طبقہ موجود ہے۔ شبلی نے بتایا ہے کہ اختلافات میں ہمارا کردار ویسا ہونا چاہیے جیسا امام بخاری اور امام مسلم کا رہا ہے۔ شبلی کی زبان میں ملاحظہ کیجیے: ’’اس کی نہایت عمدہ مثال امام بخاری و امام مسلم کا واقعہ ہے۔ امام مسلم حدیث معنعن کے شرائطِ اتصال میں امام بخاری سے اختلاف رکھتے تھے چناں چہ اپنی کتاب کے مقدمہ میں امام بخاری کا مذہب بیان کرکے کہا ہے کہ ’یہ مذہب محض لغو اور باطل ہے اور اس قابل نہیں کہ اس کے ردکی طرف توجہ کی جائے‘لیکن باوجود اس کے جب امام بخاری سے ملنے گئے تو نہایت محبت اور تعظیم سے ان کی پیشانی چومی اور کہا کہ دعنی اقبل رجلک(یعنی اجازت دیجیے کہ میں آپ کے پاؤں چوموں)‘‘ ۔
ظاہری طور پر ’خطباتِ شبلی‘ ایک مختصر سی کتاب معلوم ہوتی ہے ۔ دو تین خطبات تفصیل سے لکھے گئے ہیں، باقی مختصر اور چند ایک نہایت مختصر۔ تعلیم اور مسلمانوں کی عمومی صورتِ حال ہر جگہ موضوعِ بحث ہے۔ ’شعر العجم‘ ، ’سیرت النبی‘ اور ’مقالاتِ شبلی‘ کی طرح اس کی بساط پھیلی ہوئی نہیں ہے لیکن ان خطبات کی اہمیت یہ ہے کہ شبلی نعمانی اپنے عہد کے اُس دانش کے سب سے معتبر اور متوازن آواز کے طَور پر سامنے آتے ہیں جس کا آغاز اس عہد کی سب سے بڑی شخصیت سر سید احمد خاں سے ہوتا ہے اور نذیر احمد ، الطاف حسین حالی، محمد حسین آزاد، عبدالحلیم شرر وغیرہ سے یہ سلسلہ بڑھتے ہوئے شبلی نعمانی پر ختم ہوتا ہے۔ شبلی ایک شعلۂ مستعجل تھے، کہیں وقت نے انھیں چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ تنظیمی زندگی میں بار بار اجڑنے اور بسنے کے احوال رہے۔ خطوط کے مجموعوں میں ان کی طرح طرح کی ناراضگی اور بے اطمینانی ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ذاتی زندگی کی محرومیاں اور طبیعت کی جمال پروری؛ ہزار طرح کے قصے اور الجھاوے ہیں۔ اپنے وقت کے بڑے بڑوں سے نہ وہ نبھا سکے اور نہ زمانہ ان سے نبھا سکا۔ موت تک تنازعات اور رسّاکشی کے معاملات میں وہ الجھے ہی رہے۔
لیکن ’خطباتِ شبلی‘ کا معتد بہ حصہ عمر کی آخری دہائی میں مکمل ہوا۔ بھیڑ اور اجتماعات سے ان کا تعلق ہے مگر کہیں ایک جگہ نہ شبلی کسی سے ناراض دکھائی دیتے ہیں اور نہ جھنجلائے یا گھبرائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ قوم کی عمومی بد توفیقی پر معمولی واعظ کی طرح لعنت ملامت بھیجتے ہوئے بھی وہ نہیں ملتے۔ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ عمر کی ان منزلوں میں جب شبلی ذاتی، سماجی اور تنظیمی طور پر ہزار الجھنوں کا شکار تھے لیکن جیسے ہی قوم سے عمومی مخاطبت کا انھیں موقع میسر آتا ہے ، وہ تمام محرومیوں کو دریابُرد کرکے ایک نئی امید اور نئے خواب کے ساتھ دل میں گھر کر چکی وہ باتیں پیش کرتے ہیں جن کے مخاطبین کا بہرطور بھلا ہونا ہے۔ ایک ایک لفظ میں غور و فکر کا عنصر، بیان میں ناپ تول کر کے کوئی بات کہنا، کسی سے کوئی ذاتی شکایت نہیں اور نہ کسی سے ناامیدی ہے ۔ اپنی دانش وری کی ایک ایسی منزل میں شبلی ان خطبات میں نظر آتے ہیں جہاں اپنے عہد کا کوئی نابغہ ہی پہنچ سکتا تھا۔ شبلی نے اپنے خطبات سے خاص طور پر اور اپنی دیگر تصنیفات سے بالعموم ہندستان میں مسلمانوں کی دانش ورانہ قیادت کا وہ تصوّر پیش کیا جسے بعد والوں کی بدنصیبی کہنا چاہیے کہ وہ اسے سنبھال نہیں سکے۔ ندوۃ العلما تو ان کی زندگی میں ہی الگ راستے کا مسافر ہوگیا۔ دارالمصنّفین کو سید سلیمان ندوی نے استاد کے خوابوں کی تعبیر کے طور پر ضرور سینچ کر قومی اثاثہ بنایا۔ لیکن سو برس کا احتساب کریں تو شبلی کے ہزاروں خواب اب بھی شرمندۂ تعبیر ہیں اور انھیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ داری صرف دارالمصنّفین ہی کو نہیں بلکہ علی گڑھ کے شامل ملک کی تمام دانش گاہوں کا ہے۔
 
Safdar Imam Qadri
About the Author: Safdar Imam Qadri Read More Articles by Safdar Imam Qadri: 50 Articles with 139579 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.