معاشی واقتصادی استحکا م کے لیے ایمان داری اولین شرط ہے

ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری سرکارہونے کااعزاز حاصل ہے لیکن مودی سرکارکے قیام کے بعدسے ہی دھیرے دھیرے یہ اعزاز چھنتا جارہا ہے مظفرنگرفسادت،دادری کاہوش ربا واقعہ ،جے این یوکے معاملات کشمیر کی بڑھتی شورش اورقتل عام کے علاوہ تازہ ترین بھوپال انکاؤنٹر جیسے ایک تسلسل کے ساتھ رونماہونے والے واقعات کیا اس بات کے بین ثبوت نہیںکہ یہ ملک جمہوری جڑوں کو مضبوط کرنے کے بجائے ڈکٹیٹرشپ اورفاشزم کی طرف بڑی تیزی سے بڑھتا جارہا ہے
گذشتہ منگل ۸؍نومبر کوٹی وی کے ذریعے ۵۰۰؍اور۱۰۰۰؍کے نوٹوں پر پابندی کا اعلان ہوتے ہی جیسے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔ٹرینوں میں پبلک پیلس پریا پھر گھروں میں ہر جگہ بس یہی ایک موضوع زیر بحث تھا کہ اب کیا ہوگا ۔سرکارنے توہزار اورپانچ سوکی کرنسیوں کو غیر قانونی قرار دے دیاہے۔بحث کاموضوع یہ بھی رہا کہ مودی سرکارکایہ اقدام ملک اورقوم کے لیے کتنامفید ہو سکتا ہے اورکتنا نقصان دہ ۔ویسے بھی اگرمودی حکومت کی گذشتہ کارستانیوں کامحاسبہ کیا جائے تویہ بات نہ صرف وثوق سے بلکہ پورے ثبوت کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس سرکار نےعوام سے لے کر خواص تک سبھی کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔فرقہ وارانہ منافرت کو ہوادینے میں تو اس کا کوئی جواب ہی نہیں اس کے چھوٹے سے لے کر بڑے لیڈران سبھی اس کام میں مصروف ہیں کہ ہندوؤں اورمسلمانوں میں دوری پیدا کی جائے تاکہ وہ یکطرفہ طور پر ہندؤں کاووٹ حاصل کر کے اقتدار پر قبضہ جماتی رہے۔مندرجہ بالاباتوں سے ہمارا مقصد قطعی یہ نہیں ہے کہ ہم موجود ہ سرکارکی محض خامیاں گنواتے رہیں ۔ہم سبھی ہندوستانی ہیں اورمن حیث القوم ہمیں اس بات سے قطعی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون سی جماعت اس ملک کی باگ ڈورسنبھالے ۔وہ چاہے کانگریس ہوبی جے پی ہو یاپھر بی ایس پی یاسماج وادی ۔یہاں تک کہ اشتراکی نظریئے والی سرکارکی بھی حکمرانی ہمیں منظورہے، بشرطیکہ وہ مذہب اوراعتقادات پرحملہ آور نہ ہو۔لیکن جو حکومت عوام کے دکھ درد اورمسائل سے چشم پوشی کرے عوام کو راحت وسکون فراہم کرنے کے بجائے روزانہ نت نئے مسائل کھڑے کرے۔مہنگائی جیسے اہم ترین معاملے سےآنکھیں چرائے اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کو درہم برہم کر کے اس قدیم گنگا جمنی تہذیب کاشیرازہ بکھیر ڈالے ،جو عہد قدیم سے ہماری روایات کاحصہ رہا ہو،ہمیں اس حکومت سے نفرت کی حد تک اختلاف ہے اورمرتے دم تک ہم اس کے باطل نظریات کی مخالفت کرتے رہیں گے۔

ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری سرکارہونے کااعزاز حاصل ہے لیکن مودی سرکارکے قیام کے بعدسے ہی دھیرے دھیرے یہ اعزاز چھنتا جارہا ہے مظفرنگرفسادت،دادری کاہوش ربا واقعہ ،جے این یوکے معاملات کشمیر کی بڑھتی شورش اورقتل عام کے علاوہ تازہ ترین بھوپال انکاؤنٹر جیسے ایک تسلسل کے ساتھ رونماہونے والے واقعات کیا اس بات کے بین ثبوت نہیںکہ یہ ملک جمہوری جڑوں کو مضبوط کرنے کے بجائے ڈکٹیٹرشپ اورفاشزم کی طرف بڑی تیزی سے بڑھتا جارہا ہے جس پر اگرفوری قدغن نہیں لگائی گئی توملک کی نہ صرف معیشت تباہ ہو جائے گی بلکہ اس کے برے اثرات اس کی اقتصادیات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کو بھی تباہ وبرباد کرڈالیں گےاورپھرملک اس مقام پرپہنچ جائے گاجہاں سے اسے دوبارہ ابھرنے کے لیے ایڑی چوٹی کی طاقت وصلاحیت درکارہوگی۔مودی کو کالے دھن کی واپسی سے بڑی دلچسپی تھی لیکن ابھی تک غیرملکوں سے وہ دھن واپس نہیں لاسکے آخراس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے وہ کیوں اس عمل میںناکام رہے اوراب انہوں نے اسی کالے دھن کو جوملک کے اندربڑے بڑے سرمایہ داروں اورپونجی پتیوں نے جمع کررکھے ہیں برآمد کرنے کےلیے یہ اقدام اٹھایاہے۔ہمیں ان کی حکمت عملی سے کوئی اختلاف نہیں حالانکہ اس کے نتیجے میں عوام کو بے حد تکلیفوں کاسامنا ہے ملک میں افراتفری سی مچ گئی ہے ۔ملک میں بسنے والے غریب عوام پر مصیبت کا پہاڑٹوٹ پڑا ہے۔تماشہ یہ بھی دیکھئے کہ کالادھن برآمد کرنے کے نتائج اس صورت میں برآمد ہو رہے ہیں کہ فی الوقت ملک میں کالابازاری عروج پر پہونچ گئی ہے۔ ہزار اورپانچ سو کے نوٹوں کو چھٹے میں تبدیل کرنے کے لیے سو سے دوسوروپئے تک کمیشن لیے جارہے ہیں۔غیرمصدقہ ذرائع سے یہ خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ کارپوریشن بینکوں کے اہل کارغیرمحسوب رقوم کے تبادلے کے لیے لاکھوں روپئے بطور کمیشن وصول کر رہے ہیں۔کہیں کہیں سے اس اچانک اورغیر متوقع اعلان کے سبب اموات کی خبریں بھی شوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں جس سے ملک بھر میں افراتفری کاماحول پیداہوگیاہے۔جوکسی بھی صورت ملک کے لیے مفید نہیں ہے۔

کسی بھی ملک کے اقتصادی ومعاشی نظام کی درستی کے لیے قیام انصاف اورایمانداری اولین شرط ہوتی ہے جوبدقسمتی سے ہمارے معاشرے سے بڑی سرعت کے ساتھ رخصت ہوتی جارہی ہے۔ضرورت اس بات کی تھی کہ ایسے پروگرام ترتیب دئیے جاتے ایسی تحریکوں پر زوردیا جاتاکہ لوگ کالابازاری اورجمع خوری جیسے لعنت زدہ کاموں سے خودبخوددورہو جاتے ان کی ایسی ذہن سازی کی جاتی کہ وہ اس طرح کے کاموں سے نفرت کرنے لگتے اورانہیں اس بات کا احساس ہوتاکہ ان کی ان غلیظ حرکتوں سے پورے معاشرے کودردناک عذاب سے گزرناپڑتاہے اوربلاشبہ یہ کام سرکاری اورعوامی اشترا ک سے ہی ممکن ہوسکتاہے۔مگرکیا کیا جائے اس تعلق سے نہ ہی سرکارسنجیدہ نظرآتی ہے نہ ہی عوام۔
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 95737 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.