اقبال اور عقیدتِ اولیا

حکیم مشرق ڈاکٹر اقبال کی شعری کائنات اور ان کے مکتوبات کی روشنی میں یہ خیال تقویت پاتا ہے کہ اقبال کے عقائد و نظریات میں اعتدال اور صالحیت تھی۔ وہ بلاشبہ اہل سنت و جماعت کی شہرۂ آفاق خوش عقیدگی کے حامل تھے۔ ان کے اشعار اور مکتوبات کی زیریں رَو میں اس کا جید مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اُن کا عشقِ رسولﷺ بھی ہر قسم کی افراط و تفریط سے پاک و صا ف تھا۔ وہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت ہی کو ایمان و ایقان تصور کرتے تھے ، اقبال کا یہ مشہورِ زمانہ شعر اُن کی فکری طہارت کا حسین غماز ہے ؂
کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اقبال کے نزدیک حقیقت حال یہ ہے کہ اسلامی معاشرت کا ہمہ جہتی محورو مرکز عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ہے جو مسلمان کی زندگی کا مقصود و منتہا اور اول و آخر ہے ؂
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
اقبال محبت رسولﷺ ہی کونجات اور امتِ مسلمہ کی کامیابی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ انھیں صحابۂ کرام اور اولیاے عظا م سے بھی بے پناہ محبت و عقیدت تھی ۔ وہ تصوف پسند ، خوش فکر ، محبت ریز، خلوص کیش اور درد مند دل کے حامل محبِ اولیا و صوفیہ شاعر گذرے ہیں۔ عقیدتِ اولیا میں ان کا موے قلم نت نئے انداز سے منقبت سرائی کرتے ہوئے معنی آفرینی کے ساتھ مفاہیم کو شعری پیکر میں ڈھالتا ہے تو بڑا لطف و سرور آتا ہے ۔ اقبال کے اردو اور فارسی کلام سے عقیدت اولیا کا نظارا کرتے ہوئے اپنی نگاہوں کو شاد کام کیجیے ۔
اقبال نسبتِ بیعت و ارادت کے قائل تھے چناں چہ انھوں نے سلسلۂ قادریہ میں بیعت کا شرف حاصل کیا تھا۔ عبدالمجید سالکؔ اپنی کتاب ’’ذکرِاقبال‘‘میں لکھتے ہیں کہ : ’’حضرت پیر جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نقشبندی علی پوری نے مئی 1935ء میں فرمایا:’اقبال نے راز داری کے طور پر مجھے کہا تھا کہ میں اپنے والد مرحوم سے بیعت ہوں۔ اقبال کے والد کے پاس ایک مجذوب صفت درویش آیا کرتے تھے اور وہ انہی سے بیعت تھے ان کا سلسلہ قادریہ تھا‘۔ اقبال کو سلسلۂ قادریہ سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی۔ جس کا اظہار انھوں نے کئی مرتبہ فرمایا۔‘‘(حوالہ ذکر اقبال)
اقبال کے والد گرامی ، سلطان العارفین حضرت قاضی سلطان محمود رحمۃ اللہ علیہ اعوان شریف کے مرید تھے جو سلسلہ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتے تھےچنا ں چہ اقبال کے فرزند ارجمند جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی تالیف ’’ زندہ رود حیات اقبال کا تشکیلی دور‘‘ میں اس طرح لکھتے ہیں:
’’معلوم ہوتا ہے کہ شیخ نور محمد، سلطان العارفین حضرت قاضی سلطان محمود رحمۃ اللہ علیہ اعوان شریف کے مرید تھے جو سلسلہ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتے تھے‘‘۔(حوالہ)
اسی بناپر اقبال بھی بچپن سے سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کو عقیدت و محبت اولیا ورثے میں ملی تھی۔اقبال جہاں اولیاے عظام اور صوفیاے کرام سے بے حد عقیدت و محبت رکھتے تھے وہیں آپ کے دل میں تحفظ و تکمیل شعائر اسلام کا بے پناہ جذبہ موجزن تھااور یہ جذبہ بھی عقیدتِ اولیا کے زیرِ اثر ہی ان کے دل میں پیدا ہوا۔ اقبال نے اپنے اشعار کے وسیلے سے امتِ مسلمہ کو بیداری کا پیغام دیا۔ انھیں اسلامی شعائر اور وقار کے تحفظ و استحکام کے لیے اولیاے کرام کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں زندگی بسر کرنے کے لیے اکسایا ، ان کے نزدیک نمازوں کی پابندی خصوصاً فجر کی نماز پر مداومت مسلمہ امہ کے لیے بے حد مفید ہے ۔ سچائی بھی یہی ہے کہ صبح کا سونا رزق کو روکتا ہے اور جب رزق میں تنگی ہوگی تو معاشی اعتبار سے مسلمان کمزور ہوں گے اور معاشی کمزوری سے ہی مختلف النوع مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ اقبال کا 31 اکتوبر 1916ء کو مرقومہ ایک خط ملاحظہ ہو:
’’لاہور کے حالات بدستور ہیں۔ سردی آرہی ہے۔ صبح چار بجے کبھی تین بجے اٹھتا ہوں پھر اس کے بعد نہیں سوتا سوائے اس کے کہ مصلے پر کبھی اونگھ جاؤں‘‘۔(حوالہ)
امت مسلمہ کو اولیاے کاملین کےطریقِ احسن پر چلنے سے سروخروئی اور شوکت و کامرانی ملے گی ، یہ اقبال کی اولیا و صوفیہ سے عقیدت کا اپنا منفرد انداز ہے ؂
عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
شکوہ سنجر و فقر جنید و بسطامی
شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقر جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب
جاوید نامہ میں فرماتے ہیں ؂
پاک مرداں چوں فضیل و بوسعید
عارفاں مثل جنید و بایزید
اقبال کی تعلیم و تربیت میں تصوف کا رنگ بدرجہ اتم تھا۔ لندن میں بھی حصول تعلیم کے دوران آپ نے شمع تصوف کو ہر طرح سے فروزاں رکھا۔ مراقبات اور تہجد کے نوافل آپ کی زندگی کا معمول تھا اور یہ انداز ان کے اندر عقیدتِ اولیا کے سبب ہی پیدا ہوا ؂
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
دراصل اولیا و صوفیہ ہی اقبال کے ہمدل اور ہمزبان ہوکر چلتے ہیں ؂
بیاتا کار ایں امت بسازیم
قمار زندگی مردانہ بازیم
چناں نالیم اندر مسجد شہر
کہ دل در سینہ مُلّا گدا زیم
فقر بخشی! باشکوہ خسرو پرویز بخش
یا عطا فرما خرد یا فطرت روح الامین
اقبال جو عاشق رسول مقبول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم، دانائے راز، پہاڑوں سے بلند حوصلہ رکھنے والی ہستی، کامل و اکمل حضرت مولاناجلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ سے اس حد تک متاثر تھے کہ انہیں روحانی طور پر اپنا پیرو مرشد تسلیم کرتے تھے اور ان سے بے حد فیض حاصل کیا کیوںکہ رومی نے قرآنی تعلیمات کو ایک مخصوص انداز میں مثنوی میں بیان کیا ہے جس کے وہ اپنے کلام میں بھی معترف ہیں ؂
پیر رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد
حضرت رومی نور اللہ مرقدہ نے راہ طریقت میں مرشد و ہادی کی اہمیت اس طرح فرمائی ہے ؂
پیر راہ بگزین کہ بے پیر ایں سفر
ہست بس پر آفت و خوف و خطر
اس ضمن میں اقبال کا یہ رنگ و آہنگ دیکھیں جس میں رومی کی تقلید صاف نمایاں ہے ؂
کیمیا پیدا کن از مشت گلے
بوسہ زن بر آستان کاملے
اقبال کی نظروں میں ملت اسلامیہ کی مکمل تاریخ تھی۔ وہ ایک درد مند دل کے حامل سچے محبِ اسلام شاعر تھے ۔ مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے انھوں نے اپنے اشعار کی زیریں رَو میں اسلام کے روشن اور زریں ماضی کو بڑی خوب صورتی سمویا اور سوئی ہوئی قوم کو بیدار کرنے کے لیے استعارہ کے طور پر صحابہ اور اولیا کا تذکرہ بڑےدرد و کرب سے کیا ؂
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کوجس نے
وہ کیا تھا ؟ زورِ حیدر ، فقرِ بوذر ، صدقِ سلمانی
اسی طرح اپنی شاعری کے ذریعے قومِ مسلم کو شکوہِ سنجر اور فقر جنید و بایزید مل جانے کی آرزو یوں کرتے ہیں ؂
عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کردیں
شکوہِ سنجر و فقرِ جنید و بسطامی
اقبال کی عقیدتِ اولیا کا نظارا ان کی شعری کائنات کی روشنی میں اجمالاً کرتے ہوئے چند مثالیں ذیل میں نشانِ خاطر کیجیے ۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری قدس سرہٗ کے حضور، دانائے راز اقبال آپ کی روحانی رفعت و عظمت اور دینی خدمات کے معترف ہوتے ہوئے اس طرح اسرار و رموز میں درج ذیل وجد آفریں اشعار پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں ؂
سید ہجویر مخدوم امم
مرقد اوپیر سنجر را حرم
عہد فاروق از جمالش تازہ شد
حق زحرف او از بلند آوازہ شد
پاسبان عزت ام الکتاب
از نکاہش خانۂ باطل خراب
خاک پنجاب از دم او زندہ گشت
صبح ما از مہر او تابندہ گشت
اسی طرح ’’بانگ درا‘‘ میں حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی حسن سنجری اجمیریقدس سرہٗ جنہیں ’’پیر سنجر‘‘ کہا جاتا ہے ، سے اپنی والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار اس طرح فرمایا ہے ؂
دلِ بے تاب جا پہنچا دیارِ پیرِ سنجر میں
میسر ہے جہاں درمانِ دردِ ناشکیبائی
حضرت نظام الدین اولیا محبوب الٰہی قدس سرہٗ کے ہاں بانگِ درا میں اس طرح نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں ؂
فرشتے پڑھتے ہیں جس کو، وہ نام ہے تیرا
بڑی جناب تری، فیض عام ہے تیرا
تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی
مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا
شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہوجائے
یہ التجائے مسافر قبول ہوجائے
’’زبور عجم‘‘ میں اقبال اپنے آپ کو مولانا روم اور حضرت شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہم کا رمز شناس گردانتے ہوئے یوں نغمہ سنج ہیں ؂
مرا بنگر کہ در ہندوستان دیگر نمی بینی
برہمن زادہ، رمز آشنائے روم و تبریز ست
اسی طرح ایک اور جگہ یوں گل ہاے عقیدت پیش کیا ہے ؂
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی
ایک اور جگہ فرماتے ہیں ؂
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
ارمغان حجاز میں حضرت شیخ فخرالدین عراقی اورعاشقِ صادق حضرت عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہم کی خدمتِ اقدس میں اس طرح نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں ؂
کہے شعر عراقی رابخوانم
کہے جامی زند آلش بجانم
ندانم گرچہ آہنگ عرب را
شریک نغمہائے سار بانم
حضرت بو علی شاہ قلندر پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے حضور اسرار و رموز میں اس طرح خراجمحبت لٹا تے ہیں ؂
باتو مگویم حدیث بو علی
در سواد ہند نام اوجلی
آن نوا بسیر ای گلزار کہن
گفت باما از گل رعنا سخن
خطہ ایں جنت آتش نژاد
از ہوای دامنش مینو سواد
بالِ جبریل میں طوطیِ ہندحضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کے بارے عرض گزار ہیں ؂
رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی
ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمۂ خسرو
حضرت خواجہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بالِ جبریل میںاقبال نے دعائیہ انداز میں یوں عقیدت کی نذر نچھاور کی ہے ؂
محو اظہار تمناے دلِ ناکام ہوں
لاج رکھ لینا، تیرے ’’اقبال‘‘ کا ہمنام ہوں
تاج دارِ نقش بندیت ، مجاہدِ دوراں حضرت مجدد الف ثانی فاروق احمد سرہندی نور اللہ مرقدہٗ کے بارے بالِ جبریل میں اس طرح عرض کرتے ہیں ؂
حاضر ہوا میں شیخ مجددکی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر ِفلک مطلع انوار

حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے اسرار و رموز میںکہا ؂
تربتش ایمان خاک شہر ما
مشعل نور ہدایت مہر ما
سید الاولیاء حضرت سید احمد رفاعی قدس سرہٗ کے بارے میںاقبال اسرار و رموز میںیوں عقیدتیں بکھیریں ؂
شیخ احمد سید گردوں جناب
کاسب نور از ضمیرش آفتاب
گل کہ می پوشد مزار پاک او
لا الہ گویاں دمد از خاک او
1929ء میں انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کے سالانہ جلسے کی آپ صدارت فرمارہے تھے۔ کسی نے امامِ نعت گویاںمولانااحمد رضا قادری برکاتی بریلوی کا یہ مصرع کہنا شروع کردیا ’’رضائے خدا اور رضائے محمد‘‘ اس پر اقبال نے رضا بریلوی کی اس مشہورِ زمانہ نعت کی طرز کا اتباع کرتے ہوئے اشعار لکھے یہ بھی عقیدتِ اولیاکی ایک بہترین مثال ہے ؂
تماشا تو دیکھو کہ دوزخ کی آتش
لگائے خدا اور بجھائے محمد (ﷺ)
تعجب تو یہ ہے کہ فردوس اعلیٰ
بنائے خدا اور بسائے محمد (ﷺ)
تاریخ تصوف کی مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اہل تصوف حصول فیوض و برکات کے لئے اولیائے کاملین کے مزارات مقدسہ پر کسب فیض کے لئے حاضر ہوتے رہے۔ جس طرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سید علی مخدوم ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر چلہ کشی کی۔
شاعر مشرق اقبال نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے یورپ جانے سے قبل شیخ المشائخ حضرت نظام الدین اولیامحبوبِ الٰہی قدس سرہٗ کے مزارِ پر انوار پر حاضری کا شرف حاصل کیا اورعریضہ پیش کیا ؂
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
فلک نشیں صفت مہر ہوں زمانے میں
تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو

اقبال نے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے دربار گوہر بار پر متعدد بار حاضری دی اور پروفیسر عبدالقادر کے بقول حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے خود انہیں فرمایا کہ ’’حضرت قاضی سلطان محمود کے ارشاد عالیہ کے مطابق وہ دہلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی نور اللہ مرقدہ کے مزارِ پر انوار جوکہ مرجع خلائق ہے پر حاضر ہوئے اور وہاں پر عالم رویا میں اشارہ ہوا کہ تمہارا فیض حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ہے۔ چناں چہ اس اشارہ پر عمل کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار عالیہ پر حاضر ہوکر فیض یاب ہوئے۔
اقبال ، عارف کامل حضرت مولانا محمد ہاشم جان سرہندی سے اس طرح مخاطب ہوئے:
’’اس روحانی تجربے (مزار پر انوار حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ پر مراقب ہونے) کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ مزارات اولیا فیضان سے خالی نہیں۔‘‘
مولانا عبدالمجید سالک نے ’’ذکر اقبال‘‘ اور ’’سرگذشت‘‘ میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے اقبال کی والہانہ عقیدت و محبت کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر اقبال کو ہندوستان کے اولیاے کرام میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ سے بے انتہا عقیدت تھی۔ 1933ء میں جون کے مہینے میں انہیں خیال آیا کہ سرہند شریف کی زیارت کرنی چاہیے۔ چناںچہ انتہا درجے کے آرام طلب ہونے کے باوجود وہ شدید گرمی میں سرہند شریف گئے اور واپس آ کر یہ نظم لکھی جو ’’بال جبریل‘‘ میں موجود ہے ؂
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذروں سے شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ وہ صاحب اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمئی احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
اور پھر آخر میں کس حسرت سے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ سے ملتجی ہیں ، اقبال کا اس طرح حضرت مجددنور اللہ مرقدہٗ سے استغاثہ و فریاد کرنا اُن کی خوش عقیدگی کا حسین وجمیل مظہر ہے ؂
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی!
علاوہ ازیں اور بھی مزید مثالیں اقبال کے اردو فارسی شعری اثاثے میں جلوہ گر ہیں جن سے ان کی اولیاے کرام اور صوفیاے عظام سے بے پناہ محبت و عقیدت کا دل کش اظہاریہ ہوتا ہے۔ اس مضمون میں اجمالی طور پر اقبال کی عقیدتِ اولیا کی ہلکی سے جھلک پیش کی گئی ہے ۔
 
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 597246 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More