اعتراف

میں ہمیشہ دل کی بات کرتاہوں آپ سے۔خودکوکبھی حرف اوّل وآخرنہیں سمجھامیں نے۔ میں انکسارسے نہیں کہہ رہاکہ میں کچھ نہیں جانتا، واقعی ایساہی ہے۔میں لوگوں سے گفتگوکرتاہوں ،انہیں پڑھتاہوں۔ہاں میں بہت کتابیں پڑھتاہوں اورہرطرح کی۔آج بھی میرے پاس ہزاروں کتب ہیں۔میں وسیع المطالعہ ہونے کا دعویٰ دارکبھی بھی نہیں رہا۔میں نے بہت کچھ دل لگاکرپڑھاہے اورکچھ سے میں سرسری گزراہوں۔

میں کوئی دانش ورنہیں ہوں،عام سابندہ ہوں۔میرے رب کاکرم ہے کہ مجھے بہت سے اہل علم وفضل کی صحبت حاصل ہے۔ان سے خوب بحث مبا حثہ کی کیفیت بھی رہتی ہے۔بس یہ کر م ہے میرے رب کا،تو فیق ہے میرے پا لنہارعلیم وخبیرکی۔میں تواپنے بچوں سے بھی بہت سیکھتاہوں اورکھلے دل سے اس کااعتراف بھی کرتاہوں۔اس کااظہاراکثرآپ کومیری تحریروں میں بھی ملے گا۔آج کل اپنے سب سے چھوٹے بیٹے اسرارسے روزانہ کوئی نہ کوئی بات سیکھنے کوملتی ہے۔میں بہت سے معاملات میں کوراہوں،ہما رے بچے بہت ذمہ دار اور سمجھدارہیں ۔منافقت سے مبرا،بالکل صاف سیدھی اورآسان زبان میں عمدگی کے ساتھ حالات پرتبصرہ کرتے ہیں۔مجھے اس کااعتراف ہے اورکرنا بھی چا ہئے۔

ہما راایک بڑامسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم اعتراف نہیں کرتے،تسلیم نہیں کرتے،ہم غلطی کرتے ہیں اوراس پردلیل لاتے ہیں ۔یہ توکہاگیا ہے کہ احسان کرواور بھول جاؤ،مت جتلاؤ۔لیکن یہ کب کہاگیاہے کہ جس پراحسان کیاجا ئے وہ بھی اپنے محسن کاتذکرہ نہ کرے!اسے ضروراپنے محسن کاذکرکرناچاہئے اوربہت پیار سے کرناچاہئے۔جبکہ ہم نہ تواعتراف کرتے ہیں اورنہ ہی ہم میں غلطی تسلیم کرنے کی خوہے۔غلطی ہوجائے توہمیں کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم غلطی پرتھے۔ہم انسان ہیں،ہوگئی ہم سے غلطی،ہمیں نادم ہوناچاہئے،پشیمان ہونا چا ہئے،معذرت کر نے میں ذرابھی تاخیر نہیں کرنی چاہئے لیکن ہم نہیں کرتے ۔ ہما رے اندرایک بہت بے حس اورسفاک آدمی رہتاہے،وہ ایک ٹنڈ منڈ درخت ہے، بغیرپھل کے،جھکتا ہی نہیں ہے۔ہاں بہت سی باتیں اورمعا ملا ت ایسے ہیں کہ سر کٹ جائے توغم نہیں،جھکنانہیں چاہئے۔خاک بسر انسا نوں کے سرظالموں کے سامنے کیوں جھکیں؟جھوٹ،فریب،دغابازی،مکاری اور عیاری کے سا منے کیوں جھکیں؟با طل کے سا منے سرتوبلندرہناہے لیکن انسا ن کوجھکا ہواہی رہناچاہئے ۔جب پھل لگ جاتے ہیں توشجرجھک جاتے ہیں۔

اسلام نے عبادات کاجوتصوردیاہے کیاوہ اپنااثرات نہیں رکھتا؟ کیا یہ رب نے ویسے ہی کہہ دیاہے؟یہ انسان کوانسان بناتا ہے،اسے ثمربارکرتاہے،اوراگرہم سب کچھ کرتے ہوئے یہ پھل نہیں پاتے توسوچناچاہئے کہ کہیں کوئی گڑبڑہے۔رب کے فرمان میں تونہیں ہوسکتی،ہم میں ہی ہے۔تو وہ ہمیں تلاش کرنی چاہئے۔ہم دوسروں کے عیب تلاش کر تے رہتے ہیں اور ہمیں اتنی مہلت ہی نہیں کہ اپنےعیبوں کوکھوج سکیں، ہمیں پردہ پوشی کاحکم دیاگیاہےتشہیر کی بجائے اس سے بچنا چا ہئے،بس!

میرے رب کی تو ہے یہ ساری کا ئنات،سب کچھ،سارے موسم،سارے ماہ وسال، اوروہ سب کچھ جو نظرآتاہے اورجو پوشیدہ ہے......سب کچھ رب کاہے،رب کا ہے،رب کوراضی کرنے کیلئے ہم نے اپنی نیندقربان کی،روزہ رکھنے کی صورت میں ہم سحری سے سورج ڈھلنے تک بھو کے پیاسے رہتے ہیں،کیوں؟ اس لئے ناں کہ میرے رب نے کہہ دیا ہے،میرے رب کوکیاملتاآپ کی بھوک سے، پیاس سے،سجدوں سے،تلا وت سے،کچھ بھی تونہیں ملتا اسے۔بس وہ دیکھتاہے کہ بندے نے سرِتسلیم خم کرلیا۔ بندے کوسجدے میں دیکھ کرکتنی چاہ سے،پیار سے کہتاہے کہ یہ میراہے اورمیں اس کا، اور پھرکریم اتناہے کہ توفیق بھی خود دیتاہے،ورنہ ہم کیااورہماری اوقات کیا۔ہم بھی جب کسی سے کہیں کہ ہیں توبہت سے لوگ میرے ارد گردلیکن یہ جوفلاں ہے،یہ بہت خاص ہے،میرا ہے تودل کتنا شاد ہوجاتاہے خوشی سے،مسرت سے۔ تویہ بہت خاص ہے کہ میرے رب نے کہاہے یہ میراہے۔

نمازہمیں اپنے آقاکی پہچان اوردنیاکی تمام باطل قوتوں کے سامنے سر اٹھانےکاگر سکھاتی ہے،دن کے آغاز سے لیکررات سونے تک اپنے رب سے درجنوں مرتبہ اللہ سے عہدکرتے ہیں کہ ہم صرف تمہاری عبادت کرتے ہیں اورصرف تمہیں سے مددمانگتے ہیں،روزہ ہمیں برداشت سکھاتا ہے ، ایثارسکھاتاہے،غم خواری سکھاتاہے،قربا نی سکھاتاہے،ضبط نفس کادرس دیتا ہے،میر ے اندرکے بت کوتوڑتاہے،ہمیں بندہ نفس بننے سے بچاتاہے،بندوں سے محبت کرنا سکھاتاہے۔جس تربیت کی انسان کوضرورت ہے وہ مکمل جامع شکل میں ہم تک پہنچاتاہے،دن میں پانچ وقت کی نمازاورماہِ رمضان جوسال میں ایک مہینے کی تربیت کیلئے آتا ہے لیکن کیاایساہی ہے؟ہم روزانہ اس کا مشاہدہ کر تے ہیں ،کیاہم نے برداشت کرناسیکھا؟کیاہم نے حق تلفی سے دامن بچایا؟کیاہم نے دل آزاری چھوڑدی؟ہم نے معذرت کی اورآئندہ وہ کام نہ کر نے کاعہد کیا؟ہم نے انسانوں کی خدمت کی؟ہم نے صبر کیا؟ہم نے اپنے نفس کو پچھاڑا؟نہیں ناں.. ....ہم اب بھی ایسے ہیں،اپنی انا کے بت کے پجاری۔اگر ہم روزہ،نماز،حج زکوٰة اور عمرے کرکے بعدبھی ویسے کے ویسے ہی ہیں توبے کارہے ناں یہ سب کچھ..... کیاحاصل اس کا.....مجھے بتائیے۔

مجھے توخودپرتوجہ دینی چاہئے کہ میرے اندرکوئی گڑبڑہے،میرے اندرہے کوئی خرابی!میں خودکوچھوڑکردوسروں کے پیچھے پڑارہتاہوں،اللہ نے توقلم کی قسم کھائی ہے لیکن ہم اسی قلم سے اپنے محسنوں کی کردارکشی کرکے قلم کی تحریم کی دھجیاں اڑادیتے ہیں ۔مجھے توخود کودیکھناچاہئے،مجھے اپنا محاسبہ کرناچاہئے،نہیں کرتے ناں ہم ایسا!بس دوسروں کوڈستے رہتے ہیں۔ہمیں بندہ بننا چاہئے اورہم خدائی لہجے میں بات کرتے ہیں۔نہ عجز ہیں ہم میں اور نہ انکساری، نہ رحم دلی نہ خلوص،اصل درکارہے میرے رب کی بارگاہ میں،وہاں جعلی کا گزرنہیں ہے،بالکل بھی نہیں۔میں سرتاپاغصے میں لتھڑا ہوا ہوں، میں آگ اگل رہا ہوں اورپھرمیں اپنے ورودوظائف کاچرچابھی کرتارہتاہوں لیکن عملی زندگی تضادات کامکمل مجموعہ،عجیب بات ہے۔

مجھے آج ہی یہ بات طے کرلینی چاہئے کہ میں بندہ نفس نہیں، بندہ رب بنوں گا۔ اپنے اندرکے بت کوپاش پا ش کرکے باہرپھینکناہے۔اگرمیں اس میں کامیاب ہوگیا تومیں سمجھوں گا کہ میں نے اپنے رب کے دین کی برکتیں سمیٹ لی ہیں۔اگرنہیں توبس خسارہ ہے....بہت نقصان.....ناقابل تلافی۔ بس میں بھوکاپیاسا، ٹنڈمنڈ درخت، بغیر کسی پھل پھول کے ۔

بہت خوش رہیں آپ،سداخوش رہیں۔کچھ بھی تونہیں،فناہے،فناہے ہرجافناہے۔بس نام رہے گااللہ کا۔
رحمت یہ چاہتی ہے کہ اپنی زباں سے
کہہ دے گناہ گار کہ تقصیر ہو گئی
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351531 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.