بیوروکریسی میں اہلیت کا معیار

گزشتہ چند ہفتوں سے پبلک سروس کمیشن آزاد کشمیر کی "مبینہ دھاندلی" کی خبریں اخبار ات کی زینت بنی ہوئی ہیں ۔جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال اگست 2015؁ء کو منعقد کئے گئے SO/ASP/ACsکے مقابلے کے امتحانات کے نتائج میں "ٹمپرنگ "کی گئی ہے ۔ جس سے کئی امیدوار متاثر ہوئے اور انھوں نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا ۔ عدالت عالیہ نے مکمل غور و حوض کے بعد اپنے فیصلے میں کامیاب امیدواران کے حق میں فیصلہ دیا اور پی ایس سی کو بقیہ انٹرویوز مکمل کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ تاہم ایک ناکام امیدوار کے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر عدالت عظمی ٰ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انگریزی کا پرچہ دوبارہ لینے کا حکم جاری کیا ۔ اس سے پہلے یک طرفہ میڈیا ٹرائل کی بدولت آزادکشمیر میں یہ تاثر پیدا کیا گیاکہ موجودہ PSC ممبران نے دھاندلی کر کے کچھ امیدوار وں کو فائدہ پہنچایا ۔ جب بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی تو کئی گئی تو چشم کشا حقائق سامنے آئے۔ جن کو تحریر میں لانا ضروری بن گیا ہے ۔

تحریری امتحان میں PSCکے موجودہ قواعدکے تحت 45%سے زائد نمبرات لینے والے تمام امیدواران سے جو کہ انتظامی آسامیوں جن میں سیکریٹریٹ ، پولیس اور ریونیو(محکمہ مال ) شامل ہیں ، میں کامیاب ہوئے ہیں ، انٹرویو کے لیے اہل قرار پائے گئے ۔ گزشتہ سال کے امتحان میں جب 300سے زائد امیدوار تحریری امتحان میں کامیاب ہوئے تو PSCممبران نے انٹرویو کے عمل کو تھوڑا جلدی مکمل کرنے کے لیے ایک پرچہ کی Remarkingکروائی تاکہ مزید Shortlistingکی جا سکے ۔ موجودہ اشتہار 2011؁ء میں پہلی بار آیا ، 2014؁ء میں دوبارہ وہی آسامیاں مشتہر کی گئیں ۔ امتحان 2015؁ء میں لیا گیا اور پھر ایک سال تک اس کا نتیجہ ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کی وجہ سے روک دیا گیا ۔ اس سے پہلے امتحان 2007؁ء میں لیاگیا تھا ۔ 8سال کے طویل انتظار کے بعد پھر امیدواران کو ایک سال کے صبر آموز مرحلے سے گزارا گیا ۔ وقت کی کمی کی وجہ سے PSC ممبران نے Remarkingکے ذریعے سے مزید Shortlistingکروائی تاکہ جلداز جلد انٹرویو کا عمل مکمل کر کے کامیاب امیدواران کو 30ستمبر سے شروع ہونے والی تربیت جو کہ سول سر وسز اکیڈمی لاہور میں ہر سال صرف مقررہ شیڈیول پر شروع ہوتی ہے، میں بھیجاجائے ۔ Strict Remarkingکے نتیجے میں ہر امیدوار کے نمبر پہلے نمبروں سے کم ہوگئے ۔ Re. evaluationکے اس مرحلے کو صحافتی اور عدالتی کارروائی میں Tamperingبتایا گیا جو کہ کچھ غیر موزوں یا سخت لفظ تھا ۔ مندرجہ ذیل چشم کشاء حقائق بھی اہم ہیں ۔

۱۔آزاد جموں و کشمیر گورنمنٹ کے پاس اس وقت براہ راست تقرری پانے والے آفیسرز کی بہت کمی ہے ۔اس سے پہلے 2002،2004اور 2007یعنی زیادہ سے زیادہ تین سال کے وقفے سے انتظامی آسامی پر تقرر ہوتا رہا ہے تا کہ ایڈہاک ازم سے بچتے ہوئے نوکر شاہی میں تازہ دم لوگوں کو شامل کرتے ہوئے گڈ گورننس اورذمہ داریت کو فروغ دیا جائے تا ہم 8سال کے طویل وقفے سے محکمانہ طور پر ترقیاب ہونے والے آفیسرز اس وقت اپنے کوٹہ سے کئی گنازیادہ شیئر لیے ہوئے ہیں۔نتیجتاً ان میں Efficiency، Capacityاور انتظامی صلاحیتوں کا واضح فقدان پایا جاتا ہے۔ اس لیے نئے آفیسرز کی تقرری کے عمل میں مزید تاخیر مجرمانہ غفلت تصور ہو گی ۔
۲۔بالفرض پی ایس سی ممبران کی ریمارکنگ کروانے سے کچھ لوگ تحریری امتحان میں فیل قرار دیئے گئے ہیں۔ تو اس میں کامیاب ہونے والے امید واروں کو سزا کیوں ملے ؟ان کے نمبرات بھی تو اسی تناسب سے پہلے سے کم ہوئے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ پی ایس سی ممبران 45فیصد کے معیار کو کمیشن کی مشاورت سے 50فیصد کر لیتے اور انٹر ویو کا عمل مکمل ہو جاتا ۔ ایف پی ایس سی میں بھی کم سے کم پچاس فیصدنمبرات تحریر ی امتحان میں کامیاب ہونے کا معیار ہوتے ہیں ۔
۳۔ جب عدالتی کاروائی کے نتیجے میں وہ مرحلہ آیا تو جہاں PSCممبران کی غفلت سامنے آ گئی ۔ وہیں یہ بات آسانی سے ثابت ہو گئی کہ منتخب افراد انتخاب کے اہل تھے ۔ اسی لیے عدالت عالیہ نے منتخب افراد کو ان کی پوزیشنوں پر بحال رکھا۔
۴۔پبلک سروس کمیشن کی طرف سے سپریم کورٹ میں کیس کی کمزور پیروی ، حقائق کو پوشیدہ رکھنے کی وجہ سے اور حکومتی ایما پرایڈوکیٹ جنرل کے ریمارکس وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں انگریزی کے پرچے کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ پرچہ کرانے کا حکم جاری کیا ۔
۵۔اگر کہیں مارکنگ یا ری مارکنگ میں کسی طرح کی کوئی بے ضابطگی ہوئی ہے تو یہ پبلک سروس کمیشن کی نااہلی ہے نہ کہ کامیاب امیدواران اس میں کسی بھی طرح ملوث ہیں ۔ اسی طرح اگر عدالت عظمیٰ کسی بھی مارکنگ کے معیار پر مطمئن نہیں تو اس کے پاس یہ حق تھا کہ وہ کسی بھی طرح کا غیرجانبدار کمیشن یا FPSCسے انہی پرچہ جات کی فائنل مارکنگ کروا کر کامیاب امیدوارن کی شفافیت کا تعین کرلیتی۔
۶۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ PSCمیں اصلاحاتی عمل ناگزیر ہے ۔ نہ صرف ممبران کے انتخاب بلکہ PSC کے سٹاف میں بھی اہل اور Efficientافراد کا تقرر ضروری ہے ۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ گزشتہ دو عشروں سے PSC میں درجن سے زیادہ آفیسرز کا تقرر محکمانہ ترقیابی کے ذریعے عمل میں لایا گیا ہے یعنی PSC کے اکثر آفیسران بغیر مقابلے کے امتحان کے ان آسامیوں پر تعینات ہیں ۔ جب ہر دوسرے سرکاری محکمے میں کلریکل سٹاف ترقیاں لیتے ہوئے ڈائریکٹر اور سنیئر پوزیشنز پر تعینات ہوں گے تو ایسی غفلتیں اور لاپروائیاں ہوتی رہیں گی ۔

ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کے PSCکے ادارے میں بتدریج اصلاحات لائی جائیں تاکہ آئندہ اس طرح کی صورتحال سے بچا جائے ۔ اس طرح ایک طویل مدت کے بعد منتخب ہونے والے افراد کو جلد از جلد سول سروس اکیڈ می (CSA)میں تربیت کے لیے بھیجا جائے تاکہ EfficientاورResponciveآفیسران بیورو کریسی میں شامل ہو کر گڈ گورنینس کو یقینی بنائیں ۔

چونکہ اس کیس میں متاثرین کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں نظر ثانی کی درخواست متوقع ہے اس لیے حکومتی حلقے ، چیف سیکرٹری اور صدر ریاست اپنا کردار ادا کرتے ہوئے معاملے کی اصل تہہ تک پہنچیں اور سپریم کورٹ میں نظر ثانی کے موقع پر متاثرین کا دفاع بھرپور طریقہ سے کریں تاکہ پی ایس سی کی غلطی کا ازالہ ہو سکے اور بے قصور لوگوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچایا جا سکے ۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 491480 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More