ایک اور قربانی

گرمیوں کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ سردی ابھی باقاعدہ شروع نہیں ہوئی تھی۔ تاہم سورج کی دھوپ سے تسکین حاصل کیا جانے لگا تھا۔ کاروبار زندگی رواں دواں تھی۔ رات کی تاریکی پھیل چکی تھی۔ سرکاری و نیم سرکاری ادارے بند ہوچکے تھے۔ معمولات زندگی کے تھکے ہارے لوگ بستروں میں خود کو لپیٹ چکے تھے۔ اتنے میں رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 11بجے کے قریب کوئٹہ شہر سے کچھ فاصلہ پر دیہی علاقہ میں موجود پولیس ٹریننگ کالج میں چند مسلح دہشت گرد داخل ہوگئے ۔

ٹریننگ سینٹر میں سینکڑوں کیڈٹس موجود تھے۔ اچانک فائرنگ کا آغاز ہوگیا۔ اندھا دھند فائرنگ کے بعد دو زور دار دھماکوں کی آوازیں سنائی گئیں۔ تقریبا چار گھنٹے تک فائرنگ کا سلسلہ چلتا رہا۔ بلاخر دہشت گردوں کے روح جسم کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ حملہ اس قدر شدید اور اچانک تھا کہ زیر تربیت سپاہی سنبھل بھی نہ سکے اور بہت بھاری جانی نقصان اٹھایا گیا۔

چار گھنٹوں کی جد و جہد کے بعد سینٹر کو کلیئر کرایا گیا تو زخمیوں کی آہ و بکا بلند ہوتی ہوئی سنائی دینے لگی۔ ہر طرف خون پھیلا ہوا تھا۔ خود کش دھماکوں کے نتیجے میں انسانی گوشت کے ٹکڑے دیواروں اور چھتوں پر لگ چکے تھے۔ تقریبا 30 سپاہی جان کی بازی ہار چکے تھے جبکہ 150 سے زائد زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے۔ دو سو سے زائد کیڈٹس کو دہشت گردوں کی چنگل سے بازیاب کرایا گیا تھا۔ رات اپنی ٹھنڈک اور تاریکی کے ساتھ غم اور اداسی لیے بیت چکی تھی۔

رپورٹ سامنے آئی ہے کہ 3 دہشت گرد اس واقعے میں ملوث تھے جن میں سے دو نے خود کو دھماکے سے اڑادیا تھا جبکہ تیسرا جوابی کارروائی میں کفر کردار تک پہنچ چکا تھا۔ حملہ آوروں کے بارے کہا جاتا ہے کہ انہیں افغانستان سے کنٹرول کیا جارہا تھا۔ جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس طرح کے حملے کے تین چار روز پہلے سے انٹیلی جنس اطلاعات تھے۔

یہ وطن عزیز کا پہلا واقعہ نہیں۔ پاکستان میں اس جیسے سینکڑوں واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے باوجود حملے ہوتے رہے ہیں اور بھاری جانی نقصان اٹھایا جاتا رہا ہے۔ ماضی میں اس سے ملتی جلتی سب سے بڑی کارروائی آرمی پبلک سکول کی ہے۔ پہلے سے انٹیلی جنس رپورٹ کا ہونا، پھر حملہ آواروں کا عقبی دروازے سے داخل ہونا اور حملہ کرنا۔ ایک طرف تو ہم سیکیورٹی کے لحاظ سے خود کو محفوظ اور مستحکم ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے اتنے اہم اداروں پر اس طرز کے حملے مایوسی پھیلانے کے سبب بن رہے ہیں۔

موجودہ واقعہ سمیت اس طرز کے تمام واقعات کے تحقیقات کیے جائے اور ملوث افراد کو نشان عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کسی کو مظلوم بے گناہ انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے کی جرأت نہ ہوسکے۔
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 76239 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.