نواز شریف کی نرم اور تغافلانہ پالیسی معنی خیز ہے؟

چینی سفیر نے عمران خان سے ملاقات کرکے انہیں سی پیک کی افادیت ،اہمیت کے بارے میں بتانے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سیاسی استحکام کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔عمران خان نے کہا کہ ہمیں سی پیک منصوبے کی افادیت اور اہمیت کا اعتراف اور احساس ہے اور ہم سی پیک پر مکمل تعاون کریں گے لیکن وزیر اعلی کے پی کے کے تحفظات کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ ہمارا احتجاج کرپشن کے خلاف ہے اور اسے ہم کسی بھی صورت روک نہیں سکتے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر عمران خان کو قومی وقار کا ذرا بھی احساس ہوتا تووہ اپنا احتجاجی پروگرام ملتوی کرکے پاکستان کے عظیم دوست چین کی حکومت اور عوام کو یہ تاثر دے سکتے تھے کہ ہمارے دل میں چینی بھائیوں کی بڑی قدر و قیمت ہے لیکن عمران اسلام آباد بند کرنے پر اصرار کرکے سی پیک منصوبے کے لیے مطلوبہ سیاسی استحکام کوناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں کیونکہ یہ عمران کی ضد کا حصہ بن چکا ہے اور ہر صورت یہ کارنامہ انجام دے کر پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم سیاسی انتشار اور اختلاف کے کنارے پر کھڑے ہیں ۔ نئی دھلی میں ہونے والی برکس کانفرنس جس میں روس ، چین سمیت دنیا کے پانچ بڑے ممالک کے سربراہان شریک ہوئے ۔ اس کانفرنس کو بھی بھارت نے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی قابل مذمت ہے اور ہمسایہ ملک دہشت گردی کاگڑھ ہے ۔ یہی الفاظ بھارت نے مشترکہ اعلامیہ میں شامل کرنے کی جستجو بھی کی ۔ جسے چینی صدر نے اختلاف کرتے ہوئے ناکام بنادیا ۔ بھارت نے روس سے پاکستان کے خلاف بیان حاصل کرنے کی جستجو کی تو روس نے بھی چین کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بیان دینے سے انکار کردیا ۔بھارتی عزائم وقتی طور پر ناکام تو ہوگئے ہیں لیکن عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈہ اب بھی زور وشور سے جاری ہے ۔جس کی وجہ سے وادی کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کسی حد تک پس منظر میں چلی گئی ہے بلکہ پاکستان کے الیکٹرونکس میڈیا بھی اب کشمیر میں ہونے والے مظالم کو پہلی خبر کے طور پر نہیں دکھاتا بلکہ سب سے آخر میں دکھاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ کشمیر میں بہنے والا لہو اب ہمارے ٹی وی چینلز کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ عالمی سطح پر بھارتی پروپیگنڈہ کا توڑ کرنے ، کشمیرمیں بھارتی فوج کے مظالم اور بھارت میں مسلمان اقلیت اور نچلی ذات کے ہندووں کے خلاف انتہاء پسند ہند وں کے مظالم کے خلاف نواز شریف حکومت کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کررہی ۔اب عمران خان حکومت کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا چکے ہیں ۔ اس لمحے ہر پاکستانی یہ سوچ رہاہے کہ کیاحکومت پہلے کی طرح عمران خان کو دنگا فساد کرکے حالات خراب کرنے کی کھلی چھٹی دے گئی یا ایسی نوبت آنے سے پہلے عمران اور ان کے حواریوں کو جیل میں بند کرے گی ۔ حکومت کے تغافلانہ رویے کی بنا پر چند مفاد پرست عناصر تو حکومت اور آرمی کے مابین وقتی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر کچھ اس طرح پیش کررہے ہیں جیسے کسی بھی وقت مارشل لا نافذ ہوسکتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ جنرل راحیل شریف جیسا دانش ور جرنیل کبھی ایسی مہم جوئی نہیں کرسکتا کیونکہ انہیں احساس ہے کہ مشرقی اور مغربی سرحد پر دشمن ہمیں للکار رہے ہیں ان کی توجہ سرحدوں پر لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال پر مرکوز ہے ۔اگر انہوں نے تختہ الٹنا ہی ہوتا تو ایک سال پہلے یہ کام کرگزرتے ۔اس وقت سی پیک منصوبے کی بروقت تکمیل کے لیے موجودہ حکومت کا قائم رہنا بہت ضروری ہے ۔اس میں شک نہیں کہ نواز شریف بعض اہم اور حساس ترین معاملات میں بھی تغلافانہ رویے کااظہار کررہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ نے حکومتی رویے پر اظہار برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رولنگ دی کہ پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والوں کے خلاف حکومت نے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ یہ تشویش صرف عدلیہ تک ہی محدود نہیں بلکہ عوامی سطح پر یہ سوچ ابھررہی ہے کہ حکومت اور ادارے مخالف سرگرمیوں کو روکنے میں تاخیری حربے اور لاپرواہی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان ہو یا لندن یہ سب لوگ آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ عزیز آبا د کراچی کے مکان سے جو بھاری اسلحہ ملا ہے گورنر سندھ نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ یہ اسلحہ ایم کیو ایم نے فوج کے خلاف لڑنے کے لیے جمع کررکھا تھا کیا اب بھی ایم کیو ایم کو پاکستان کی محب وطن جماعت قرار دیاجاسکتا ہے ۔فاروق ستار کا شمار بھی انہی دہشت گردوں کے سرپرستوں میں ہوتا ہے جن کو گورنر سندھ عشرت العباد کی جانب سے تحفظ فراہم کیاجاتارہا ہے ۔ مجھے یادہے کہ ایک بار ایم کیو ایم کے وفد نے کورکمانڈر کراچی کے روبرو یہ بات کہی تھی کہ اگر کراچی میں فوجی آپریشن کیاگیا تو کوئی فوجی زندہ واپس نہیں آئے گا اور خون کی ندیاں بہہ جائیں گی ۔ یہ اسلحہ شاید انہیں مقاصد کی تکمیل کے لیے تھا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ نواز شریف کی حد سے زیادہ نرم پالیسی کی بدولت پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والی سیاسی جماعت ایم کیوایم کوپہلے کی طرح پروٹوکول دیاجارہا ہے ۔۔نواز شریف کی یہ پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے جس قسم کے سیاسی بیانات اور احتجاج آجکل دکھائی دے رہے ہیں ۔کیا ایسا احتجاج مشرف دور میں بھی ممکن ہوسکتا تھا۔ہرگز نہیں ۔ حکومتیں آنی جانی چیز ہیں لیکن قومی مفادات کو پس پشت ڈالنے کی پالیسی ہرگز قابل قبول نہیں ہوتی ۔ میری ذاتی رائے میں نواز شریف کو سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لیے اپنی نرم اور بزدلانہ پالیسی کو یکسر تبدیل کرنا ہوگا اوراس کے ساتھ ساتھ فوج کے بارے میں غلط افواہیں پھیلانے والوں کو بھی اپنی صفوں سے نکالنا ہوگا ۔ اسی طرح عمران کو اسلام آباد بند کرنے کا موقع ہی نہیں دینا چاہیئے ۔ جب پانامہ لیکس کے بارے میں تحریک انصاف سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کی درخواستوں کی سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہونے والی ہے تو پھر سڑکوں پر آنے اور وفاقی دارالحکومت کو بندکرنے کا جواز کیا رہ جاتاہے ۔اس سے تو ایک ہی مطلب لیاجاسکتا ہے کہ عمران اسلام آباد بند کرکے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے بھارت سے وفاداری کا ثبوت دے رہے ہیں۔
Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 672352 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.