رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بحثیت سپہ سا لار ،غزوات اور جنگوں کا احوال - 18

بیعت رضوان
پیغمبر کے نمائندہ کی آنے میں تاخیر کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان عجیب اضطراب اور ہیجان پیدا ہوگیا۔ اس بار مسلمان جوش و خروش میں آکر انتقام پر آمادہ ہوگئے۔ پیغمبر نے ان کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے فرمایا۔ ہم یہاں سے نہیں جائیں گے تاوقتیکہ کام کو ایک ٹھکانے نہ لگا دیں۔ اس خطرناک وقت میں اگرچہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کےلئے ضروری ہتھیار اور ساز و سامان نہ تھا پھر بھی رسول خدا نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے اصحاب کےساتھ عہد و پیمان کی تجدید کریں۔ آنحضرت ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے اور تمام اصحاب نے سوائے ایک کے آپ کے ہاتھ پر بعنوان بیعت ہاتھ رکھا اور قسم کھائی کہ خون کے آخری قطرہ تک اسلام کا دفاع کریں گے۔ یہ وہی بیعت رضوان ہے جس کے بارے میں قرآن میں اس طرح آیا ہے کہ
”خداوند عالم ان مومنین سے، جنہوں نے تمہارے ساتھ درخت کے نیچے بیعت کی ہے، خوش ہوگیا اور ان کے وقار و خلوص سے آگاہ ہوگیا، اللہ نے ان کے اوپر ان کی روح کے سکون کی چیز نازل کی اور اجر کے عنوان سے عنقریب ان کو فتح عطا کرے گا۔“ (سورہ فتح:۱۸)

بیعت کی رسم ختم ہوئی ہی تھی کہ عثمان پلٹ آئے اور قریش کے وہ جاسوس جو دور سے بیعت کا واقعہ دیکھ رہے تھے ہاتھ پیر مار کر رہ گئے۔ قریش کے سربرآوردہ افراد نے ”سہیل بن عمرو“ کو صلح کی قرارداد معین کرنے کےلئے بھیجا۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۳۳۰)

صلح نامہ کا مضمون
جب سہیل بن عمرو رسول خدا کی خدمت میں پہنچا تو یوں گویا ہوا۔ قریش کے سربرآوردہ افراد کا خیال ہے کہ آپ اس سال یہاں سے مدینہ واپس چلے جائیں اور حج و عمرہ کو آئندہ سال پر اٹھا رکھیں۔

پھر مذاکرات کا باب کھل گیا لیکن سہیل بن عمرو بنت بات بے بات پر بے موقع سخت گیری سے کام لے کر پریشانی کھڑی کرتا رہا جبکہ پیغمبر چشم پوشی کے رویہ کو اس لیے نہیں چھوڑ رہے تھے کہ کہیں صلح کا راستہ ہی بند نہ ہو جائے۔ مکمل موافقت کے ایک سلسلہ کے بعد رسول خدا نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ صلح نامہ لکھو علی علیہ السلام نے رسول کے حکم سے صلح نامہ لکھا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سہیل نے کہا کہ ہم اس جملہ سے آشنا نہیں ہیں آپ بسمک اللھم لکھیں۔ (یعنی تیرے نام سے اے خدا) رسول خدا نے مواقفت کی پھر علی نے پیغمبر کے حکم سے لکھا کہ یہ وہ صلح ہے جسے رسول خدا محمد انجام دے رہے ہیں۔

سہیل بولا: ہم آپ کی رسالت اور نبوت کو قبول نہیں کرتے اگر اس کو قبول کرتے تو آپ سے ہماری لڑائی نہ ہوتی۔ آپ اپنا اور اپنے باپ کا نام لکھیں۔ (بحارالانوار ج۲ ص ۳۳۳،۳۳۳۵)

رسول خدا نے علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ اس جملہ کو مٹا دیں لیکن علی نے فرمایا کہ میرے ہاتھوں میں آپ کا نام مٹانے کی طاقت نہیں ہے۔ رسول خدا نے اپنے ہاتھوں سے اس جملہ کو مٹا دیا۔

قریش اور مسلمان دونوں اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ دس سال تک ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے تاکہ اجتماعی امن و امان اور عربستان میں عمومی صلح قائم ہو جائے۔ جب کوئی قریش کا آدمی مسلمانوں کی پناہ میں چلا جائے گا تو محمد اس کو واپس کر دیں گے لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی قریش کی پناہ میں آجائے تو قریش پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اس کو واپس کریں۔ مسلمان اور قریش دونوں، جس قبیلہ کے ساتھ چاہیں عہد و پیمان کرسکتے ہیں۔ محمد اور ان کے اصحاب اس سال مدینہ واپس جائیں لیکن آئندہ سال زیارت خانہ، خدا کے لیے آسکتے ہیں۔ مگر اس کی شرط یہ ہے کہ تین دن سے زیادہ مکہ میں قیام نہ کریں اور مسافر جتنا ہتھیار لے کر چلتا ہے اس سے زیادہ ہتھیار اپنے ساتھ نہ رکھیں۔(سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۲۳۲)

وہ مسلمان جو مکہ میں مقیم ہیں اس پیمان کی رو سے اپنے مذہبی امور کو آزادی سے انجام دے سکتے ہیں اور قریش کو انہیں آزار پہنچائیں گے اور نہ ہی اس بات پر مجبور کریں گے کہ وہ اپنے مذہب سے پلٹ جائیں،
ان کے دین کا مذاق نہیں اڑائیں گے۔ اس طرح وہ مسلمان جو مدینہ سے مکہ وارد ہوں ان کی جان و مال محترم ہے۔ (بحارالانوار ج۲۰ ص ۳۵۰)

اس قرارداد کی دو کاپیاں کی گئیں ایک کاپی رسول خدا کی خدمت میں پیش ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے جانوروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا اور خود آپ نے وہیں سرمونڈا۔ پھر91 دن کے بعد آپ مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔

مخالفین صلح
پیمان صلح کچھ مسلمانوں خصوصاً مہاجرین کی ناراضگی کا باعث ہوا ہر چیز سے زیادہ صلح نامہ کی دوسری شرط سے مسلمانوں کو تکلیف ہوئی کہ جس میں مسلمانوں کے پاس پناہ لینے والوں کو واپس کر دینے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ مخالفین صلح میں سب سے آگے عمر بن خطاب تھے۔ واقدی کی روایت کے مطابق عمر اور ان کے ہمنوا افراد رسول خدا کی خدمت میں پہنچے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول کیا آپ نے نہیں کہا تھا کہ جلد ہی آپ مکہ میں وارد ہوں گے اور کعبہ کی کنجی لے لیں گے اور دوسروں کے ساتھ عرفات میں وقوف کریں گے؟ اور اب حالت یہ ہے کہ نہ ہماری قربانی خانہ خدا تک پہنچی اور نہ ہم خود پہنچے۔

رسول خدا نے عمر کو جواب دیا کہ کیا میں اسی سفر میں خانہ خدا تک پہنچنے کے لیے کہا تھا؟

عمر نے کہا: ”نہیں“ پھر رسول مقبول نے عمر کی طرف رخ کیا اور فرمایا کہ ”آیا احد کا دن بھول گئے جس دن تم بھاگ رہے تھے اپنے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور میں تمہیں پکا رہا تھا؟

کیا تم احزاب کا دن بھول گئے؟ کیا تم فلاں دن بھول گئے؟“

”مسلمانوں نے کہا اے اللہ کے رسول جو آپ نے سوچا ہے وہ ہم نے نہیں سوچا ہے۔ آپ خدا اور اس کے حکم کو ہم سے بہتر جانتے ہیں۔“

اسی طرح جب صلح نامہ لکھا گیا تو عمر اپنی جگہ سے اٹھ کر رسول خدا کے پاس آئے اور کہا ”اے اللہ کے رسول کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟

“ آپ نے فرمایا: ”بے شک ہم مسلمان ہیں۔“ عمر نے کہا کہ ”پھر دین خدا میں ہم کیوں ذلت اور پستی برداشت کریں؟

آپ نے فرمایا کہ میں خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، اس کے حکم کی مخالفت ہرگز نہیں کروں گا اور وہ بھی ہم کو تباہ نہیں کرے گا۔

عمر بن خطاب نقل کرتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی حدیبیہ کے دن کی طرح اسلام کے بارے میں شک نہیں کیا۔ (مغازی و اقدی ج۲ ص ۶۰۷)

ابو بصیر کی داستان اور شرط دوم کا ختم ہو جانا

ابوبصیر نامی ایک مسلمان جو مدت سے مشرکین کی قید میں زندگی گزار رہے تھے مدینہ بھاگ آئے قریش نے پیغمبر کے پاس خط لکھا اور یاد دلایا کہ صلح حدیبیہ کی شرط دوم کے مطابق ابوبصیر کو آپ واپس کر دیں۔ خط کو بنی عامر کے ایک شخص کے حوالہ کیا اور اپنے غلام کو اس کے ساتھ کر دیا۔ رسول خدا نے جو معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق ابوبصیر سے کہا تمہیں مکہ لوٹ جانا چاہیے۔ کیونکہ ان کے ساتھ حیلہ بازی سے کام لینا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے، میں مطمئین ہوں کہ خدا تمہاری اور دوسروں کی آزادی کا وسیلہ فراہم کرے گا۔

ابوبصیر ن کہا کہ کیا آپ مجھ کو مشرکین کے سپرد کر رہے ہیں تاکہ وہ مجھ کو دین خدا سے بہکا دیں؟
رسول خدا نے پھر وہی بات دہرائی اور ان کو قریش کے نمائندہ کے سپرد کر دیا جب وہ لوگ مقام ذوالحلیفہ میں پہنچے تو ابوبصیر نے ان محافظین میں سے ایک کو قتل کر دیا اور اس کی تلوار اور گھوڑے کو غنیمت کے طور پر لے لیا اور مدینہ لوٹ آئے۔ جب رسول خدا کی خدمت میں پہنچے تو کہا ”اے اللہ کے رسول آپ نے اپنے عہد کو پورا کیا اور مجھے اس قوم کے سپرد کر دیا میں نے اپنے دین کا دفاع کیا تاکہ میرا دین برباد نہ ہو۔“

ابوبصیر چونکہ مدینہ میں نہیں رہ سکے اس لیے آپ صحرا کی طرف چلے گئے اور دریائے سرخ کے ساحل پر مکہ سے شام کی طرف جانےوالے قافلوں کے راستہ میں چھپ گئے۔ جو لوگ مکہ میں مسلمان ہوئے تھے اور قرارداد کے مطابق مدینہ نہیں آسکتے تھے وہ ابوبصیر کے پاس چلے جاتے تھے رفتہ رفتہ ان کی تعداد زیادہ ہوگئی۔ گروہ قریش کے تجارتی قافلوں پر حملہ کرکے ان کو نقصان پہنچانے لگے۔ قریش نے اس آفت سے بچنے کےلئے پیغمبر کو خط لکھا اور ان سے عاجزانہ طور پر یہ خواہش کی کہ ابوبصیر اور ان کے ساتھیوں کو مدینہ بلالیں اور پناہ گزینوں کو واپس کرنے والی شرط صلح نامہ کے متن سے حذف ہو جائے۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۳۳۷)

صلح حدیبیہ کے نتائج کا تجزیہ
پے درپے جنگ ایک دوسرے سے براہ راست ملاقات سے رکاوٹ بنی ہوئی تھی لیکن اس صلح نے فکروں کے آزادانہ ارتباط اور اعتقادی بحث و مباحثہ کا راستہ کھول دیا۔ یہ عرب معاشرہ میں اسلام کی نئی منطق اور دلوں میں اسلام کے نفوذ کی وسعت کا ذریعہ بنی اور وہ اس طرح کہ صلح حدیبیہ والے سال پیغمبر کےساتھ مسلمانوں کی تعداد 14 سو تھی اور فتح مکہ والے سال10 ہزار افراد رسول خدا کے ساتھ تھے۔

صلح کے ذریعہ داخلی امن و امان قائم ہو جانے کے بعد اسلام کی عالمی تحریک کو سرحدوں کے پار لے جانے اور عالمی پیغام کو نشر کرنے کے لیے رسول خدا کو موقع مل گیا۔ یہ صلح درحقیقت تحریک اسلامی کو مٹانے کے لئے وجود میں آنے والے ہر طرح کے نئے جنگی اتحاد کے لیے مانع بن گئی۔ لہٰذا لشکر اسلام کے لیے ایک ایسا موقع ہاتھ آگیا کہ وہ اپنے بڑے دشمنوں جیسے خیبر کے یہودی کو اپنے راستہ سے ہٹا سکیں۔

خاص کر صلح کے فوائد کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ”پیغمبر کی زندگی میں کوئی واقعہ صلح حدیبیہ سے زیادہ فائدہ مند نہیں تھا۔“ (فروغ ابدیت ج۲ ص ۶۰۰)

۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔

نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 111964 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More